پانچ ریاستوں میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کےاسمبلی انتخابات کے اعلان کے لئے بلائے گئے پریس کانفرنس کو لےکراپوزیشن پارٹی کانگریس کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات سنگین ہیں۔
انصاف کا بےحد عامیانہ اصول ہے کہ اس کا ہونا بھر کافی نہیں ہے اس لئے ایسی کوشش بھی کی جانی چاہیے، جن سے وہ ہوتا ہوا نظر آئے۔ یقیناً، اس اصول کی ایجاد کے پیچھے یہ نقطہ نظر ہی ہوگا کہ لوگ کسی بھی معاملے میں اس احساس سے، کہ سچ مچ انصاف ہوا ہے، تبھی گزر پائیںگے، جب سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے صاف صاف گزرا ہو۔یہی’سب کچھ صاف صاف ‘ہو رہا ہے یقینی بنانے کو اب حکومتیں شفافیت کہتی ہیں اور جان کار بتاتے ہیں کہ ماضی میں اسی کے مدنظر ایک بھی بےقصور کو سزا نہ ہویہ پختہ کرنے کے لئے 100 گناہ گاروں کا سزا سے بچ جانا تک قبول کر لیا گیا۔ کہا گیا کہ 100 گناہ گار چھوٹ جائیں تو چھوٹ جائیں، کسی بےقصور کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔
اس اصول کو انتخابات پر نافذ کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کا غیر جانبدار ہونا بھر کافی نہیں ہے۔ خاص کر جب ان میں دھن دولت اور اقتدار کی طاقتوں کے غلط استعمال کے زہریلے پھل بار بار پچانے پڑ رہے ہیں، لوگوں کو دیکھنا بھی چاہیے کہ ان کو غیرجانبداری سے پوراکرایا جا رہا ہے۔بلاشبہ، ایسا تبھی دکھ سکتا ہے، جب ان کو مکمل کرانے میں امپائر یا کہ ریفری کے کردار نبھانے والا الیکشن کمیشن بھی نہ صرف غیر جانبدار ہو، بلکہ لگاتار غیر جانبدار دکھے۔ اب یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ الیکشن کمیشن کو، جس کو من مانے فیصلوں سے بچانے کے لئے تین رکنی بنائے گئے بھی عرصہ بیت چکا ہے، اس معروف اصول کی جانکاری ہی نہیں ہے۔ لیکن ہے، تو یہ سمجھنا اور مشکل ہو جاتا ہے کہ اس نے گزشتہ سنیچر کو پانچ ریاستوں میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات کے اعلان کے لئے بلائے گئے پریس کانفرنس میں اس کی تعمیل کو لےکر ناگزیر احتیاط کیوں نہیں برتی؟
پہلے اس نے یہ پریس کانفرنس ساڑھے بارہ بجے بلا یا تھا۔ پھر بنا کوئی وجہ بتائے اس کو آگے سرکاکر دوپہر بعد تین بجے کر دیا۔ ملک کی سب سے بڑی حزب مخالف پارٹی کانگریس نے الزام لگایا کہ اس نے ایسا اس لئے کیا تاکہ راجستھان میں اسی دن دوپہر بعد ایک بجے مجوزہ وزیر اعظم نریندر مودی کا جلسہ اس مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق کی بندشوں کے بغیر مکمل ہو سکے، جو انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ نافذ ہو جانی تھی، تو فطری طورپر پریس کانفرنس میں کمیشن سے اس بابت بھی سوال پوچھے گئے۔یہ بھی کہ وہ وزیر اعظم کی ریلی کا کوریج یا اس میں کیا جانے والا اعلان کو متاثر ہونے سے بچانے کی اپنی اس قواعد کی مناسبت کیسے ثابت کر سکتا ہے؟ اس پر چیف کمشنر اوپی راوت کا غیر ذمہ دارانہ جواب تھا، ‘ سیاسی جماعت اور سیاستدان ہر چیز میں سیاست ڈھونڈ لیتی ہے۔ چونکہ یہ اس جماعت کی فطرت میں ہے اس لئے ان کے اندازاور بیان بازی پر مجھے کوئی تبصرہ نہیں کرنا۔ ‘
ان کے ذریعے تبصرہ نہ کرنے کی بات کہہکر کیے گئے اس تبصرہ سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایک آئینی کمیشن کے مکھیا کے طور پر ان کو ‘آئی ہیٹ پالیٹکس’کہنے والے کسی اینگری ینگ مین کی طرح سیاسی جماعتوں کو ایسی’جلی-کٹی’سنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ خاص کر جب ان جماعتوں کو پہچان دینے تک کا کام الیکشن کمیشن ہی کرتا ہے۔یہ جماعت اصل میں اتنی ہی خراب ہے تو اس میں کمیشن کا بھی ایک بڑا حصہ ہے اور اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ ان پراس کے چابک بے اثر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ لیکن یہ سراسر الگ معاملہ ہے اور کمیشن تب اس کی آڑ نہیں لے سکتا، جب اس کے خلاف نہ صرف ابھی، بلکہ پہلے سے بھی اقتدار کی طرف جھکنے اور اس کو غیر مناسب رعایتیں دینے کے الزام لگائے جاتے رہے ہیں۔
یہاں بہت دور نہ بھی جائیں تو یاد کر سکتے ہیں کہ گجرات اسمبلی کے گزشتہ انتخابات کی تاریخ طے کرنے میں بھی اس پر وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کا دھیان رکھنے کا الزام لگایا گیاتھا۔ تب ان کا اعلان کچھ گھنٹے نہیں بلکہ کچھ دنوں کے لئے ڈال دیا گیا تھا۔ اور تو اور، اتر پردیش میں کیرانہ لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخاب میں ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے باوجود کمیشن نے وزیر اعظم کو روڈ شو کرنے کی اجازت دے دی تھی۔تب رائےدہندگان کو متاثر کرنے کے لئے نہ جانے کتنے سرکاری کیمرے لگاکر اس شو کو نشرکیا گیا تھا اور کمیشن کو اس میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آیا تھا۔
ویڈیو :آئندہ اسمبلی انتخابات اور الیکشن کمیشن
کیسے مانا جائے کہ اپنے بھروسہ سے اتنے سارے کھیل وہ بلاوجہ کرتا جا رہا ہے؟ خاص کر جب گزشتہ دنوں اس نے سپریم کورٹ میں مانگکر ڈالی تھی کہ عدالت کی طرح اس کو بھی اپنی ہتک عزت کرنے والوں کو سزا دلانے کا حق ہونا چاہیے۔اتناہی نہیں، گزشتہ دنوں اس نے اس کو لےکر بھی اعتراض جتایا تھا کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس اس کو بار بار سپریم کورٹ میں گھسیٹ رہی ہے، جبکہ کانگریس کا کہنا تھا کہ رائےدہندگان کی فہرستوں میں فرضی رائےدہندگان کے نام ہونے کو لےکر اس کی تشویش پر وہ مناسب دھیان نہیں دے رہاہے۔
کمیشن کی ایسی ہی کارستانیوں کی وجہ سے الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو لےکر لوگوں میں پہلے سے ہی موجود شک اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا تعجب کہ کئی لوگ چیف الیکشن کمشنر کے تبصرے کو کمیشن کی طرف سے ایسے اعلان کے طور پر لے رہے ہیں کہ اب وہ اعتماد کے قابل نہیں رہا۔واقعی، اب لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی کمیشن ہے، جس کو اتر پردیش اسمبلی کے 2015 کے انتخاب میں مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایتوں کے تصفیے میں حکمراں جماعت سے ایسی’نفرت ‘ہو گئی تھی کہ اس نے ریاست کی سماجوادی کی 1488 ایمبولینس پر لکھے ‘سماجوادی’ لفظ کو ڈھکنے کا حکم دے ڈالا تھا۔
سو بھی، انتخابی عمل کے خاتمہ کی طرف بڑھ جانے کے بعد۔ تب اس نے یہ دلیل بھی منظور نہیں کی تھی کہ آئین کی تمہید میں آئے اس لفظ کا معاملہ عدالتی تجزیہ کے لئے سپریم کورٹ میں لے جایا جا چکا ہے اور عدالت نے اس کو ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کئی وجہ بتائے ہیں۔اسی اتر پردیش کے اس سے پہلے یعنی 2012 کی اسمبلی انتخاب میں اس وقت کی مایاوتی حکومت کے ذریعے تعمیرشدہ پارکوں اور یادگار میں لگے ہاتھیوں کے، جو بہوجن سماج پارٹی کا انتخابی نشان ہے، مجسمہ ڈھکے جانے کی کمیشن کی کارروائی بھی لوگوں کو ابھی تک یاد ہے کیونکہ انتخاب کے دوران لوگوں کو وہ کارروائیاں کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہیں، جن سے حکمراں جماعت مشکل میں پڑتے ہوں۔
اب وہی کمیشن بی جے پی کے طور پر حکمراں جماعت کا اتنا خیال رکھنے لگا ہے تو بلاشبہ ملک کو اس کی وجہ جاننے کا حق ہے، جو اس کو اسی سسٹم نے دیا ہے، جس نے کمیشن کو غیر جانبدارانہ انتخاب کرانے کا حق دے رکھا ہے۔کمیشن کا یہ کہنا صحیح ہو سکتا ہے کہ انتخاب سے متعلق اصولوں یا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے کئی معاملے اس لئے بھی اس کے پاس لے جائے جاتے ہیں کیونکہ سیاسی پارٹیاں ان کو عوام کی عدالت میں لے جاکر حریف کی نظریاتی سطح پر مقابلہ نہیں کرنا چاہتیں۔
عوام کی’سب سے بڑی’عدالت کو لےکر ان کے دلوں میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا چور بسا رہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ رائےدہندگان کے ادراک پر اپنا اعتماد غیرمشکوک نہیں رکھ پاتیں۔لیکن اس کی آڑ لےکر اس کو حزب اقتدار سے نیک نیتی اور حزب مخالف جماعتوں سے بدنیتی کی راہ پر چلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ وہ ان کی آڑ لینے کے بجائے اس سوال کا سیدھے سیدھے مقابلہ کرے کہ اس نے ساڑھے بارہ بجے مجوزہ اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان سہ پہر تین بجے تک وزیر اعظم کی ریلی کی وجہ سے نہیں تو کس وجہ سے ٹالا؟
کوئی اندرونی وجہ ہو توبھی عوام کو اس بابت اندھیرے میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ کتنا انتہائی ضروری تھا؟اس لئے کہ کمیشن کی امپائرنگ میں رائےدہندگان کا بڑھتا ہوا عدم اعتماد ایسے ہی بڑھتا گیا تو ہمارے پہلے سے ہی بحران زدہ جمہوریت کی آگے کی راہیں پوری طرح بند ہوکر رہ جائیںگی۔جب یہ انتخاب 2019 کے لوک سبھا انتخابات کا سیمی فائنل مانے جا رہے ہیں تو اس بات کا اور بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ اس لئے بھی کہ آئندہ 2 دسمبر کو ریٹائر ہونے جا رہےچیف الیکشن کمشنر اوپی راوت کمیشن کو ان کے برے نہیں اچھے فیصلوں کے لئے یاد کیا جائے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر