منو کے مجسمہ کو ہائی کورٹ کے احاطے سے ہٹانے کی عرضیاں سال 1989 سے زیر التوا ہیں، جن پر 2015 کے بعد سے سماعت نہیں ہوئی ہے۔ سوموار کو اورنگ آباد سے آئی دو خواتین کے ذریعے مجسمہ پر سیاہی پوتنے کے بعد معاملہ پھر گرما گیا ہے۔
مہاراشٹر کے اورنگ آباد شہر کی کانتا رمیش اہیرے اور شیلا بائی پنوار نے گزشتہ 8 اکتوبر کو راجستھان ہائی کورٹ میں لگے منو کے مجسمہ پر سیاہی پوت دی۔پونے کی ایک منو مخالف تنظیم ری پبلکن پارٹی آف انڈیا سے منسلک ان خواتین نے ہائی کورٹ احاطے سے مجسمہ کو ہٹانے کی مانگکی حمایت میں ایسا کیا۔جئے پور کے اشوک نگر تھانہ پولیس نے ان خواتین کے علاوہ مہاراشٹر کے آزاد نگر کے باشندہ محمد شیخ داؤد کو گرفتار کیا ہے۔ اے سی پی دنیش شرما کے مطابق داؤد کے کہنے پر ہی اس واقعہ کو انجام دیا گیا۔ اسی نے ان دونوں خواتین کے علاوہ اورنگ آباد سے اور 6 لوگوں کو جئے پور لایا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے سیاسی سازش ہے، جس کا مقصد اسمبلی انتخاب سے پہلے نسلی نفرت پھیلانا تھا۔اس واقعہ کے بعدپچھلے 29 سال سے چل رہا تنازعہ پھر سےتازہ ہو گیا ہے۔غور طلب ہے کہ راجستھان ہائی کورٹ میں منو کے مجسمہ کا قیام 28 جولائی،1989 کو ہوا تھا۔اس کو راجستھان ہائی جسٹس سروس ایسوسی ایشن نے لائنس کلب کے مالی تعاون سے لگوایا تھا۔
اس وقت اس کی خوب مخالفت ہوئی۔ ہائی کورٹ نے ایک ایڈمنسٹرٹیو فیصلے کے تحت اس کو عدالت کے احاطے سے ہٹانے کی ہدایت بھی دی، لیکن وشو ہندو پرشد کے رہنما آچاریہ دھرمیندر نے اس فیصلے کو چیلنج دیتے ہوئے عرضی دائر کر دی۔اس پر سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے اس وقت کے جج مہیندر بھوشن نے مجسمہ ہٹانے پر عبوری روک لگا دی۔انہوں نے معاملے کو بڑے بنچ کو بھیجتے ہوئے کہا کہ آخری فیصلہ آنے تک مجسمہ ہٹانے پر لگی روک برقرار رہےگی۔
حیرت کی بات ہے کہ بڑے بنچ نے اس معاملے کا حل تلاش کرنے کے بجائے اس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ اس دوران مجسمہ کے خلاف اور حق میں کئی عرضیاں ضرور دائر ہوئیں۔2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس سنیل انبوانی نے پہلی بار اس معاملے میں دلچسپی لی۔ ان کی رہنمائی میں بڑے بنچ نے 13 اگست، 2015 کو معاملے کی سماعت کی، جو اتنی ہنگامہ خیز رہی کہ اس کے بعد آج تک اس پر بحث نہیں ہو پائی ہے۔
ہوایوں کہ مجسمہ کی مخالفت میں عرضی دائر کرنے والے پی ایل میم روٹھ کی طرف سے وکیل اجئے کمار جین نے جیسے ہی ہائی کورٹ کے احاطے میں منو کے مجسمہ پر سوالیہ نشان لگانا شروع کیا، بڑی تعداد میں وکیلوں نے ان کی مخالفت شروع کر دی۔ ان میں سے کئی زور زور سے چلانے لگے۔
جج سنیل انبوانی نے وکیلوں کو خاموش کرنے کی کافی کوشش کی، لیکن ان کو اس میں کامیابی نہیں ملی۔ آخر میں وہ اٹھکر چلے گئے۔ اس دن کے بعد سے اس معاملے میں آج تک سماعت نہیں ہوئی ہے۔ ہائی کورٹ کے سینئر وکیلوں کی مانیں تو یہ معاملہ شہد کی مکھی کے چھتے جیسا ہے، جس میں شاید ہی کوئی جج ہاتھ ڈالے۔
درخواست گزار پی ایل میم روٹھ کورٹ کے اس رویے سے پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’انصاف میں دیری ایک طرح سے ناانصافی ہوتی ہے۔اس معاملے کو کورٹ میں چلتے ہوئے 29 سال ہو گئے ہیں۔ کورٹ انصاف کرنے کے بجائے کہتا ہے کہ جب اس موضوع پر کسی قسم کا عوامی غصہ نہیں ظاہر ہوتا ہے تو بےوجہ گڑے مردے کیوں اکھاڑے جا رہے ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’آخری سماعت کے دوران مجسمہ کو قائم رکھنے کے لئے بڑی تعداد میں وکیل کورٹ روم میں آ گئے اور انہوں نے ہمارے وکیل کو بولنے نہیں دیا۔ کورٹ نے تعصب آمیز طریقے سے اس مدعے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے جو کہ مایوس کن ہے۔عبوری حکم کی آڑ میں منو کا مجسمہ عدالت میں 29 سال سے کھڑا ہے۔ ‘مجسمہ کے حق میں عرضی دائر کرنے والے آچاریہ دھرمیندر آج بھی منو کے مجسمہ کی حمایت میں کھڑے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،’بھگوان منو نے سب سے پہلے یہ قانون بنایا کہ انسان کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔یہ ایک قسم کا آئین ہے۔اس عظیم گرنتھ کے تخلیق کار کا مجسمہ ہائی کورٹ میں ہونے پر سب کو فخر ہونا چاہیے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں،’منواسمرتی کی مخالفت وہی کرتے ہیں،جنہوں نے اس کو پڑھا نہیں ہے۔ جو بھگوان منو کو نہیں مانتا ہے اس کو خود کو انسان نہیں کہنا چاہیے۔اس کو خود کو شیطان ماننا چاہیے۔ جو لوگ بھگوان منو کے مجسمہ کو ہٹانے کی مانگکررہے ہیں، میں ان کو منواسمرتی پڑھنے کی صلاح دیتا ہوں۔ اس میں کسی کے بارے میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں لکھا ہوا ہے۔ ‘
مذہبی کتابوں کے عالم کوسلیندرداس کے مطابق منواسمرتی میں صرف ذات-پات اور چھوٹا-بڑا نہیں ہے، بلکہ وہاں ایسے کئی جواب ہیں، جو سبھی کوقبول ہیں۔وہ کہتے ہیں،’خواتین کے اعزاز میں یہ بات منو نے ہی کہی ہےکہ ؛ جہاں جہاں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے، وہاں دیوتا رمن کرتے ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’منو سے پوچھا گیا کہ مذہب کو کہاں کھوجیں تو جواب ملا-وید مذہب کا اصل ہے، اس میں تلاش کرو۔ کیا کسی نے سوچا کہ والدہ دیوی کیوں ہیں؟ والد دیوتا کیوں ہیں؟ ماں باپ کا قرض کیسے اتارنا ہے؟ ایسے ڈھیر سارے سوالوں کو منو نے سلجھایا۔ ہمیں تعصبات کو چھوڑکر ہندوستان کی کتابی روایت کو کھلے دل سے پڑھنا چاہیے، جس سے آپسی سمجھ اور اچھائی کا نتیجہ نکل سکے۔ ‘
وہیں، جگدگرو رامانندآچاریہ راجستھان سنسکرت یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امیش نیپال کہتے ہیں،’منو کا آئین آج کے آئین سے میل نہیں کھاتا، لیکن دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کو خوبصورتی سے ترقی دینے کے لئے ایک آئین کی تعمیر منو کے ذریعے کی گئی، جو ملینیا تک چلا۔ اس لئے انہیں انکار نہیں کیاجا سکتا۔ ‘
اس مدعے پر کئی تحریکوں میں حصہ لے چکے دلت کارکن بھنور میگھ ونشی ہائی کورٹ کے احاطے میں منو کے مجسمہ کو بدنما داغ مانتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،’منواسمرتی خواتین اور شودروں کے بارے میں بےحد توہین آمیز اور غیر منصفانہ سسٹم کا تحریر شدہ قانون ہے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ انسانی مساوات کے دشمن منو کا مجسمہ عدالت میں لگا ہوا ہے جبکہ آئین ساز ڈاکٹر امبیڈکر کا مجسمہ عدالت کے باہر چوراہے پرنظرانداز کھڑا ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’ ڈاکٹرامبیڈکر کے مطابق منواسمرتی طبقہ اور ذات کی اونچ-نیچ سے معمور انتظام کو کلاسیکی بنیاد عطا کرتی ہے۔ اس لئے انہوں نے 25 دسمبر 1927 کو عوامی طور سے منواسمرتی کو جلا یا تھا۔ اس کتاب کے مصنف کا مجسمہ عدالت میں لگانا، سب کو مساوات کا حق دینے والے آئین کی بے عزتی ہے۔ ہم پچھلے 29 سال سے اس مجسمہ کو ہٹانے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ ‘
غور طلب ہے کہ قانونی لڑائی کے علاوہ مختلف دلت اور خواتین تنظیم پچھلے 29 سال سے ہائی کورٹ سے منو کے مجسمہ کو ہٹانے کی مانگکر رہے ہیں۔سال 1996 میں کانشی رام، سال 2000 میں مزدور رہنما بابا آڈھو اور جسٹس کرشنا نیر اس تحریک کے حصہ بن چکے ہیں۔ جنوری2017 میں یہ تحریک اس وقت بحث میں آئی جب اونا دلت اتیاچار لڑت سمیتی کے جگنیش میوانی نے جئے پور میں ہوئے منوواد مخالف کانفرنس میں حصہ لیا۔
اس کانفرنس کے بعد پورے ملک میں یہ مدعا پھر سے زندہ ہو گیا۔ گزشتہ آٹھ اکتوبر کو اورنگ آباد کی جن دو خواتین نے منو کے مجسمہ پر سیاہی پوتی وہ مہاراشٹر کے دلت رہنما سچن کھرات کے ساتھ کام کرتی ہیں۔یعنی یہ مدعا وہاں بھی اتنا اپیل کر رہا ہے کہ دو خواتین مجسمہ پر سیاہی پوتنے کے لئے 1250 کلومیٹر دور جئے پور پہنچ گئیں۔
ان خواتین کی جب ہائی کورٹ میں وکیلوں سے تکرار ہوئی تو انہوں نے منو کے مجسمہ کے خلاف زوردار دلیل دیے۔ یہی نہیں، کئی وکیلوں نے ان کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ حالانکہ پولیس بیچ-بچاؤ کرتے ہوئے دونوں کو اشوک نگر تھانے لے گئی۔
اس واقعہ کو دلتوں کی ناامیدی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔جے این یو میں پروفیسر گنگاسہائے مینا کہتے ہیں،’جب کورٹ میں ہمیں 29 سال سے نہیں سنا جا رہا تو ناامیدی تو ہوگی ہی۔اس کے برے انجام بھی ہوںگے۔اس طرح کے واقعات سے بےوجہ کی کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ کورٹ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس معاملے میں جلد فیصلہ سنانا چاہیے۔ ‘
اس تحریک سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ 8 اکتوبر کے واقعہ سے منو کے مجسمہ کی مخالفت اور تیز ہوگی۔ دلت مفکر ایم ایل پریہار کہتے ہیں،’سماج میں عدم مساوات کو قائم کرنے والے منو کےمجسمہ کا انصاف کے دربار میں ہونے کی کوئی مناسبت نہیں ہے۔ اگر عدالت میں مجسمہ ہی لگانا ہی ہے تو ایسی عظیم شخصیت کا لگانا چاہیے جنہوں نے سماج میں مساوات، یکسانیت اور بھائی چارہ قائم کرنے کے لئے کام کیا۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر