جھارکھنڈ کی رگھوبر داس حکومت غذائیت پرزوردے رہی ہے۔ پورا ستمبر غذائیت کے مہینے کے طور پر منایا گیا۔تقریبات کی ہوڑ رہی، وزیر اور افسر لگے رہے، لیکن 4 مہینے سے آنگن باڑی مراکز میں حاملہ خواتین اور بچوں کو غذا نہیں مل پا رہی ہے۔
پنکی دیوی حاملہ ہیں۔ہم جب ان کے گھر پہنچے تھے،تو وہ سرپرلکڑی اور پتوں کا بوجھ لئے جنگلوں سے لوٹ رہی تھیں۔ آنگن باڑی سے ملنے والی غذا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بغل میں بیٹھی ساس کے پاس روتی اپنی بچی کو گود میں لیتے ہوئے کہا، ‘جو پاکٹ بند (ریڈی ٹو ایٹ فوڈ)آتا تھا، وہ پچھلے کئی مہینے سے نہیں ملا ہے۔ ‘پنکی کہتی ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ ریڈی ٹو ایٹ فوڈ اوپر سے نہیں آیا ہے۔ اب سچ کیا ہے کیسے جانیں۔تب تک گاؤں کی کئی خواتین جمع ہو جاتی ہیں اور گنوئی لہجے میں بخیہ ادھیڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔
جھارکھنڈ میں رانچی ضلع کے دوردراز گاؤں چندراٹولی کی رہنے والی یہ خاتون اس حال میں اکیلی نہیں۔ غذائیت سے ریاست بھر میں لاکھوں بچے اور حاملہ خواتین محروم ہیں۔ یہ اس ریاست کی بھی تصویر ہے جہاں بھوک اور غذائی قلت بڑا سوال ہے۔اس بیچ ریاست کی بی جے پی حکومت کی طرف سے ستمبر کو غذائیت کے مہینہ کے طور پر منایا گیا۔ اس کو عوامی تحریک بتایا گیا۔ اس سے جڑے پوسٹربینر اب بھی آنگن باڑی مراکز میں لگے نظر آتے ہیں۔
ڈیپارٹمنٹ آف سوشل ویلفیئر کے ڈائریکٹر منوج کمار نے اس سلسلے میں ہوئی بات چیت میں جانکاری دی کہ ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کی فراہمی ابھی بند ہے۔آنگن باڑی مراکز میں جن حاملہ خواتین کا نام درج ہے ان کی تعداد 3 لاکھ 66 ہزار اور بچوں کی تعداد 17 لاکھ 26 ہزار ہے۔ فی الحال یہی لوگ اس غذا ئیت سے محروم ہیں۔منوج کمار کا کہنا ہے کہ اس غذا کی فراہمی کے لئے ٹینڈر فائنل کرنے کی کوشش جاری ہیں۔ تکنیکی پہلوؤں کی جانچکر لی گئی ہے۔جلدہی اس کو آخری شکل دی جا سکتی ہے، لیکن کوئی طےشدہ وقت نہیں بتایا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے بھی اس معاملے میں ٹینڈر نکالا گیا تھا، جس کو جانچکے بعد کچھ کمیوں کی وجہ سے منسوخ کیا گیا۔4مہینے کے اس لیپس کو محکمہ کس طریقے سے دیکھ رہا ہے، اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ضرور ہے کہ وقت پر غذا کی فراہمی نہیں ہو سکی ہے۔ جبکہ خواتین اوربچوں کا یہ حق ہے۔ تبھی وہ لوگ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔
کیا ہے ریڈی ٹو ایٹ فوڈ
آنگن باڑی مراکز میں حاملہ خواتین اور ایسی خواتین جن کے 6 مہینے تک کے بچے ہیں کے علاوہ سات مہینے سے تین سال کی عمر والے بچوں کو ریڈی ٹو ایٹ فوڈ (فورٹیفائڈ نیوٹرو پنجری جس کو اُپما بھی کہا جاتا ہے)دستیاب کرائی جاتی ہے۔
ریاست میں اس پیکٹ بند غذا کی فراہمی تین کمپنیوں کی ذمہ تھی۔ ان کی مدت گزشتہ سال ہی ختم ہو گئی تھی۔ اس کی فراہمی کے لئے ان کمپنیوں کوایکسٹینشن بھی دیا گیا۔ توسیع کی میعاد ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے ٹینڈر نکالا گیا ہے۔ لیکن 5 مہینے میں یہ عمل پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔آنگن باڑی خادماؤں کا کہنا ہے کہ ایک کلو کے چار پیکیٹ ان کو دیا جاتا ہے۔ لیکن پچھلے 4 مہینے سے اس کی فراہمی نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کی فراہمی بند ہونے سے اکثر حاملہ خواتین اور بچے پوچھتے ہیں۔اس کی کمی کے بعد وہ لوگ آنگن باڑی مرکز آکر وزن کرانے میں بھی دلچسپی نہیں لے رہے۔
ڈیپارٹمنٹ آف سوشل ویلفیئر کی ڈپٹی ڈائریکٹر پریتی کماری بتاتی ہیں کہ جھارکھنڈ میں38 ہزار 432 آنگن باڑی مراکز ہیں۔ان کو سنبھالنے کی ذمہ داری خادمہ اور معاون پر ہوتی ہے۔ ان کے اوپر مشاہدہ کرنے والی اور پھر بلاک سطح پر سماجی بہبود کے اہلکار ہوتے ہیں۔آنگن باڑی خادمہ اور معاون کو بچے’دیدی’کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔ Integrated Child Development Services(آئی سی ڈی ایس)کے تحت چلنے والے ان آنگن باڑی مراکز کا کردار چھوٹے بچے، بچیوں، حاملہ کے علاوہ دایہ خواتین کے لئے بےحد اہم ہے۔
غور طلب ہے کہ آنگن باڑی مراکز کے ذریعے خصوصی طور پر چھ خدمات-اضافی غذا کے علاوہ ٹیکہ کاری، صحت جانچ، ریفرل خدمات، اسکول سابقہ تعلیم اور صحت بیداری اور تعلیم دستیاب کرانا ہے۔اور ا س کے مرکز میں ہے-حاملہ خواتین اور بچوں کے درمیان غذائی قلت اور اموات کی شرح میں کمی لانا۔
ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کبھی نہیں چکھا
چندراٹولی کی ہی جیوتی دیوی نے گریجویشن تک پڑھائی کی ہے۔ ان کو یہ کھٹکتا ہے کہ ان کے گاؤں سے آنگن باڑی مرکز قریب تین کلومیٹر دور واقع گاؤں مہولی ہہو میں ہے۔ جیوتی کا کہنا تھا کہ کم عمر کا کوئی بچہ کیسے اتنی دوری طے کر کے سینٹر تک جائےگا۔ گاؤں کی حاملہ خواتین کے لئے بھی جانا آسان نہیں ہوتا۔گود میں اپنی ڈھائی سال کی بیٹی اونتکا کو دکھاتے ہوئے جیوتی کہتی ہیں،’یہ بچی بھی ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کے لئے جب تب ضد کرتی ہے۔ جیوتی کے سوال بھی ہیں کہ آخر یہ آنگن باڑی کس کام کے ہیں،جہاں کبھی چاول کی دقت ہو،کبھی انڈے تھالی سے دور ہو جائیں اور کبھی ریڈی ٹو ایٹ۔ ‘
وہ بتانے لگیں کہ گاؤں کی سہیااکثر اس کی یاد کراتی ہیں کہ باقاعدہ طور پر غذا بچوں کو کھلاتے رہنا ہے، لیکن وہ تو مہینوں سے میسر نہیں ہے۔اسی علاقے کی قبائلی خاتون گربالا6 مہینے کی حاملہ ہیں۔تین مہینے پہلے انہوں نے آنگن باڑی میں اپنا نام درج کرایا ہے۔ ان کی تکلیف ہے کہ کبھی ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کا ذائقہ چکھا نہیں اور اب اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کیا دوران حمل یہ اضافی غذا ضروری ہوتی ہے۔
مہلی ہہو آنگن باڑی کی خادمہ کوشلیا دیوی کی الگ پریشانی ہے۔ کوشلیا دیوی کہتی ہیں،’گاؤں میں اس کی بات ہوتی ہے کہ میں نے ریڈی ٹو ایٹ فوڈ دینا بند کر دیا ہے یا پھر اوپر (بلاک) سے لانے نہیں جاتی ہوں۔ اب فراہمی بند ہے تو وہ بھی اٹھتے سوالوں پر چپ لگا جاتی ہیں۔ ‘تب غذا کا کیسے خیال رکھتی ہیں، اس سوال پر گربالا کہتی ہیں،’زمین تو بہت تھوڑی ہے۔ جو ساگ سبزی اپجا پاتے ہیں، چاول کے ساتھ وہی کھاتی ہوں۔ ویسے ٹیکہ وقت پر ضرور لگوا لیتی ہوں۔ ‘
غور طلب ہے کہ پچھلے دسمبر-جنوری مہینے میں ریاست کے زیادہ تر آنگن باڑی مراکز میں طےشدہ وقت پر چاول کی فراہمی نہیں ہونے سے لاکھوں بچوں کے گرم کھانےکا بحران ہو گیا تھا۔ ان حالات کو سدھارنے میں حکومت کو کئی مہینے لگ گئے تھے۔اس سلسلے میں کئی آنگن باڑی خادمہ-معاون کی فکر جھلکتی رہی کہ ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کی طرح کہیں چاول کا بحران نہ پیدا ہو جائے، کیونکہ ابھی تین سے چھ سال کے بچوں کو کھچڑی دی جا رہی ہے۔
اوبڑکھابڑ، کچےپکے راستوں سے گزرتے ہوئے ہم کئی آنگن باڑی مراکز تک پہنچے۔ کئی جگہ بچے کم دکھے تو کئی گاؤں میں بچوں کو غذا نہ ملنے کی اطلاع ملیں۔رانچی ضلع کے سدور ڈھیلواکھونٹا آنگن باڑی کی خادمہ انتا کچھوا ٹولےگلیوں سے بچوں کو لےکر آ رہی تھیں۔ پیشانی سے پسینہ پوچھتی ہوئی انتا کہتی ہیں،’مشکلیں اکثر آتی رہتی ہیں، لیکن یہ معصوم بچے اپنے گھرگاؤں کے ہیں تو ہر حال میں ان کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ‘
ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 4 مہینے سے نہیں بھیجا گیا ہے۔ حاملہ خواتین اور بچوں کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں کہ اوپر سے آئےگا تو ضرور دیںگے۔اس کے بعد بچوں کو وہ گیت گاکر سناتی ہیں۔ پھر حرف کی پہچان کرانے کی کوشش میں جٹ جاتی ہیں۔ادھر سینٹر کی معاون کھچڑی پکانے کے لئے ایندھن کی لکڑیاں چنکے آتی ہوئی دکھیں۔ وہ بتانے لگیں کہ ایندھن کا یہی ذریعہ ہے۔لال گنج گاؤں کی خادمہ آشا دیوی بتاتی ہیں کہ ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کو لےکر بچے خواتین اکثر سوال پوچھتے ہیں۔ان کے سینٹر میں 48 بچوں اور 11 حاملہ خواتین کو یہ غذا نہیں مل رہی ہے۔ ان کو اس کے ملنے کا انتظار ہے۔ آتے ہی جلدی سے بانٹ دوںگی۔
آدیواسی اکثریتی کھونٹی ضلع میں کالاماٹی آنگن باڑی کی خادمہ سروج بتاتی ہیں کہ واقعی ان حالات میں مشکلوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔حال ہی میں ان کی پنچایت کے مکھیا نے بھی اس بارے میں پوچھ تاچھ کی ہے۔سروج کا کہنا تھا،’پہلے ہی بچوں اور حاملہ خواتین کو ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کی کتنی مقدار میں اور کس کس طریقے سے استعمال کرنے کو لےکر گاؤں گاؤں میں گھومکر جانکاری دیتی رہی ہوں۔ اب بچوں کو یہ نہیں ملنے سے وہ وزن کرانے نہیں آ رہے۔ تب ان کو کھوجکرلانا ہوتا ہے۔ ‘
اٹھتے سوال
حال ہی میں پبلک ہیلتھ ری سورس نیٹ ورک اور موبائل کریچ نے جھارکھنڈ کے آنگن باڑی مراکز پر کئے گئے مطالعے پر ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آنگن باڑی خدمات میں کیرل، تمل ناڈو، آندھر پردیش سمیت کئی ریاستوں سے جھارکھنڈ پیچھے ہے۔جھارکھنڈ میں آنگن باڑی کارکنوں پر کام کا بوجھ زیادہ ہے۔زیادہ تر آنگن باڑی میں اسکول سابقہ تعلیم کی اندیکھی کی جاتی ہے۔ جبکہ یہ مقوی غذا کی طرح ہی ضروری ہے۔ ان کے علاوہ لامرکزیت اور عمومی شراکت داری کے شعبے میں بھی یہاں آنگن باڑی پیچھے ہیں۔
غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ میں آنگن باڑی خادماؤں کے ذمے الگ سے کم سے کم درجن بھر کام ہیں جس سے ان کا اصل کام متاثر ہوتا رہا ہے۔ساتھ ہی مستقل نوکری اور اعزازیہ بڑھانے کو لےکر خادمہ و معاون جب تب تحریک بھی کرتی رہی ہیں۔اسی مہینے گورنر دروپدی مرمو نے ریاست میں غذا کی حالت پر اعلیٰ سطحی اجلاس کی تھی۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں غذائی قلت اور خون کی کمی جیسے مسئلہ سے جوجھ رہے ہیں۔
بچوں کے لئے عالمی سطح پر کام کرنے والے ادارہ یونیسیف کے اعلیٰ افسروں نے یہ جانکاری دی تھی کہ آدیواسیوں کے درمیان غذائی قلت کا مسئلہ عام طبقے سے 15 فیصدی اور درج فہرست ذات میں10 فیصدی زیادہ ہے۔کھانے کے حق پر کام کرتے رہے سماجی کارکن بلرام کہتے ہیں،’ریڈی ٹو ایٹ فوڈ غذا کے بدلے حکومت کو مقامی سطح پر اس کی اختیاری غذا دینے کا انتظام کرنا چاہیے۔ پہلے ہی ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کی کوالٹی کو لےکر کافی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ ‘
بلرام بتاتے ہیں،’گاؤں میں اس غذا کو لےکر ہضم ایک بڑا مسئلہ کے طور پر ابھرا تھا۔ ساتھ ہی اکثر یہ شکایتں ملتی رہیں ہیں کہ استعمال کرنے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی دوردراز کے علاقوں میں اس کی فراہمی کی جاتی تھی۔ کئی جگہوں سے غذا میں بہت زیادہ نمک کے ملنے کی شکایتں ملی تھیں۔ ‘بلرام کہتے ہیں،’23 ستمبر کو رانچی میں منعقد وزیر اعظم کے آیوشمان بھارت پروگرام میں بڑی تعداد میں آنگن باڑی خادماؤں کو بلایا گیا تھا۔وزیر اعظم نے آنگن باڑی خادماؤں سے باتیں بھی کی۔تب حکومت اورسسٹم کو آنگن باڑی مراکز کی ذمہ داری بھی نبھانی چاہیے۔ آخر کن حالات میں ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کی فراہمی ٹھپ ہوئی اس کی جوابدہی بھی طے ہونی چاہیے۔ ‘
کھانے کے حق پر کام کر رہے سماجی کارکن اسرفی نند پرساد کا کہنا ہے، ‘محض اعداد و شمار کی بازیگری کے ذریعے اس اہم پروگرام کے مقصد کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے مسئلہ سے سب سے زیادہ اثر کمزور اور محروم طبقے کے بچوں پر پڑتا ہے۔ ‘
یہ ہیں ریاست کے حالات
جہاں 5سال تک کے 48.7 فیصدی بچے انڈر ویٹ ہیں۔
5سال پہلے کے 45.3 بچے کم لمبائی اور 29فیصدی بے حد کمزور ہیں ۔
6سے23مہینے کے 67فیصدی بچوں کو ہی خاطر خواہ کھانا ملتا ہے ۔
اوسطاً 66فیصدی خواتین خون کی کمی سے جوجھ رہی ہیں۔
(نوٹ :اعداد و شمار جھارکھنڈ اکونومک سروے اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے سے لئے گئے ہیں۔)
انڈے کی غیرمتعینہ سپلائی
ویسے آنگن باڑی مراکز کی دیواروں پر لکھے نعرے، کھانے کے چارٹ (مینو) دیکھکر پہلی نظر میں یقین کیا جا سکتا ہے کہ واقعی غذا کو لےکے سرکاری نظام بےحد سنجیدہ ہیں اور یہ پروگرام جھارکھنڈ میں خاتون اوربچوں کی ترقی کے شعبے میں تبدیلی کی کہانی لکھتا رہا ہے، لیکن تہہ میں جانے کی کوششوں کے ساتھ ہی حقیقت اس کے الٹ دکھیںگے۔
پچھلے جون مہینے سے آنگن باڑی مراکز میں تین سے پانچ سال کے بچوں کو ہفتے میں تین دن انڈے دینے کی اسکیم بھی نافذ کی گئی ہے۔اس اسکیم کے تحت 9 لاکھ 27 ہزار بچوں کے درمیان مہینے میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ انڈوں کی فراہمی کی جانی ہے۔ ریاستی حکومت نے انڈوں کی فراہمی کا کام تمل ناڈو کی ایک فرم کو دیا ہے۔ فراہم کنندہ کو ہی آنگن باڑی تک انڈا پہنچانا ہے۔
کئی گاؤں میں بچوں، ان کے گھروالوں اور آنگن باڑی کی خادماؤں سے اس بارے میں بات کرنے پر پتا چلا کہ زیادہ تر آنگن باڑی مراکز میں انڈے کی باقاعدہ فراہمی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس سے حساب-کتاب رکھنے میں بھی پریشانی ہے۔ایک آنگن باڑی خادمہ نام نہیں چھاپنے کی گزارش کے ساتھ کہتی ہیں کہ یہ ایسی غذا ہے کہ ایک ہفتے نہیں ملنے سے لوگوں کو لگتا ہے کہ خادمہ نے حصہ دبا دیا۔
مہلی ہہو کی خادمہ کوشلیا دیوی کہتی ہیں کہ وقت پر انڈے نہیں ملتے، جس سے بچوں کے ساتھ ان کے گھر والے کو سمجھانا بتانا مشکل ہو جاتا ہے۔کھانے کے حق کو لےکر کام کرنے والے سماجی کارکن سراج دتا کہتے ہیں کہ سال 2016 کے فروری مہینے میں ہی رانچی، جمشیدپور اور دمکا میں پائلٹ پروگام کے تحت انڈا دینے کی اسکیم شروع کی گئی تھی۔تب کہا گیا تھا کہ اسکیم کامیاب رہی تو اس کو تمام ضلعوں میں نافذ کیا جائےگا۔ دو سال بعد یہ نافذ بھی ہوا۔ ‘
وہ کہتے ہیں،’آنگن باڑی میں انڈا دینے کا مقصد یہی تھا کہ بچّوں کو ایک ساتھ کئی قوت بخش غذا مل سکے۔لیکن اسکیم کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی اس کی آدھی-ادھوری تیاریاں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔ انڈے کی غیر متعینہ فراہمی سنگین سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ دوردراز کے علاقوں سے یہ خبریں بھی مل رہی ہیں کہ بہت سے آنگن باڑی مراکز میں ایک-دو دفعہ ہی انڈے تقسیم کیے گئے، جبکہ کئی جگہ اب تک بچوں کو میسر نہیں ہوئے۔ شروعاتی دور میں اس سسٹم کو درست نہیں کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ‘
سراج سوال اٹھاتے ہیں کہ آدیواسی اور درج فہرست قبائل والے علاقے میں غذائی قلت، خون کی کمی اور اشیائےخوردنی تحفظ سے جوجھتے لوگوں کے درمیان پروگراموں اور اسکیموں کی قاعدے سے مانیٹرنگ نہیں ہونے اور ریاستی صدر دفتر میں اعداد و شمار کی بازیگری کرنے سے لگاتار بدتر حالت بنتی جا رہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ لہذا ان حالات اور غذا کو لےکر حکومت کے نظریہ پر بھی سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔تین سے چھے سال کے بچوں کو صبح کے ناشتہ میں دلیا، ستو کا گھول اور بارہ بجے گرم کھانا دال-چاول، سبزی یا کھچڑی دینے کا اہتمام ہے۔ ان کے علاوہ آنگن باڑی میں بچوں کو غذا کے طور پر میٹھی دلیا یا ستّو اور ہری سبزی دینے کا بھی اہتمام ہے۔ اب بازار میں 51 روپے کلو ستّو ملتا نہیں جبکہ سرکاری ریٹ وہی طے کیا گیا ہے۔ کم وبیش یہی حال دلیا کا ہے۔سراج کا کہنا ہے کہ ہرایک بچّے کی سبزی کے لئے تیس پیسے دئے جاتے ہیں۔ اب بیس بچّوں کی سبزی 6 روپے میں کیسے بنے۔ ایک بچّے پر ایندھن، نمک اور ہلدی کے نام پر 24 پیسے ملتے ہیں۔
ان کے مطابق، ریڈی ٹو ایٹ فوڈ کے بند ہونے کا ذکر گاؤں میں ہوتا رہا ہے اور حکومت کے کام کے طریقہ پر عام لوگ سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ ویسے بھی بھوک سے موت کو لےکر جھارکھنڈ ملک میں سرخیوں میں رہا ہے۔ جبکہ کئی علاقے میں آنگن باڑی مرکز گاؤں-ٹولوں سے کئی کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے ضرورت مند بچے غذا اور دیگر سہولیات سے لگاتار محروم ہوتے رہے ہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور رانچی میں رہتے ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ