بیورو کی آپسی لڑائی بد عنوانی کے بدنما چہرے کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کی اعلیٰ کمان پر بھی سوال قائم کرتاہے۔
نئی دہلی: سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما نے پی ایم او سے تحریری طور پر سفارش کی ہے کہ سی بی آئی کے اسپیشل ڈائریکٹر اور مبینہ بد عنوانی کے معاملے کے ملزم راکیش استھانا کو کروڑوں کی رشوت کے اس معاملے میں چل رہی جانچ پوری ہونے تک معطل کیا جائے، ساتھ ہی ان کو واپس ان کے اصل کیڈر گجرات بھیجا جائے کیونکہ وہ سی بی آئی میں کام کرنے کے لئے ‘نااہل ‘ہیں۔
پی ایم او کو بھیجا گیا مکتوب یا پیغام اس لئے اہم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے تئیں وزیر اعظم کی سیدھی جوابدہی بنتی ہے۔آلوک ورما یہ بات وزیر اعظم کو دو بار بتا چکے ہیں-پہلی بار اتوار شام ہوئی ایک ملاقات میں اور دوسری بار سوموار کو تحریری طور پر۔ ورما نے ‘بڑھتے ہوئے انفیکشن ‘ کے بارے میں بتایا ہے، جو کابینہ سکریٹریٹ کی ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (را) سمیت جانچ اور سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔
اس کا ذمہ نریندر مودی کے سر آتا ہے کیونکہ مرکزی حکومت کے ملازم اورڈی او پی ٹی سیدھے پی ایم او کے ماتحت ہے۔آلوک ورما جنوری میں ریٹائر ہونے والے ہیں اور استھانا، جو مودی-امت شاہ دونوں کے قریبی مانے جاتے ہیں، ورما کے بعد ڈائریکٹر کے لئے پہلی پسند ہوںگے۔اصل میں، آلوک ورما کی تقرری سے پہلے ہی استھانا کو کچھ مہینوں کے لئے سی بی آئی ڈائریکٹر بنایا گیا تھا۔
15 اکتوبر کو ایک غیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے سی بی آئی نے حیدر آباد کے کاروباری ستیش بابو سنا کی شکایت پر راکیش استھانا کو اہم ملزم بناتے ہوئے ایک ایف آئی آر درج کی۔اس معاملے میں معاون-ملزم دبئی کے ایک انویسٹ منٹ بینکر منوج پرساد ہیں، جن کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔سوموار کو سی بی آئی نے اپنے ڈپٹی ایس پی دیویندر کمار کو گرفتار کیا، جن پر سنا سے 3 کروڑ روپے کی رشوت لینے کا الزام ہے۔
سی بی آئی کے اندر مچا یہ گھماسان بد عنوانی کے بدنما چہرے کو سامنے لاتا ہے اور مودی کے ‘ گڈ گورننس’کے دعوے کا مذاق اڑاتا ہے۔اس سے راکیش استھانا کے ذریعے جانچے گئے ہائی-پروفائل معاملوں، جس میں وجئے مالیا(دی وائر کے ذریعے اس معاملے کو کمزور کرنے کے بارے میں بتایا گیا تھا)اور اگستا ویسٹ لینڈ کے معاملے شامل ہیں، کی تفتیش پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ آلوک ورما سی بی آئی کے کام کاج میں غیر-آئینی دخل کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، وہیں راکیش استھانا کو، سینئر افسروں کے مطابق ‘ گجرات ماڈل ‘، کے ساتھ کام کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔موجودہ بحران کا خلاصہ یہی ہے۔یہاں تک کہ پی ایم او بھی غیر جانبدار نہیں ہے،بلکہ ان سب میں ایک فعال کھلاڑی کے بطور شامل ہے۔ راکیش استھانا کو پی ایم او کے اعلیٰ افسروں کا تعاون حاصل ہے اور باقیوں کا رویہ ان کے تئیں نرم ہے۔
سی بی آئی ڈائریکٹر حکمراں جماعت کی قیادت کے ذریعے حزب مخالف رہنماؤں کو ڈرانے کے لئے چھاپے مارنے کے من مانے استعمال کے بھی خلاف بھی ہیں۔ سی بی آئی کے ایک معاملے میں فردجرم داخل کر دینے کے باوجود سی بی آئی کو ایک اہم حزب مخالف رہنما کے یہاں چھاپا مارنے کا حکم ملا تھا۔آلوک ورما نے یہ کہتے ہوئے اس سے انکار کر دیا تھا کہ ثبوت جمع کرنے کے لئے چھاپے مارنے کی مدت ختم ہو چکی ہے اور کسی نئی جانکاری کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح، ورما نے حزب مخالف کے کم سے کم تین وزیراعلیٰ پر چھاپے اور گرفتاریوں کو روکا تھا۔ایک معاملے میں چیف سکریٹری کو گرفتار کیا گیا تھا اور وزیراعلیٰ کے یہاں چھاپا پڑا۔ وہیں ایک دیگر وزیراعلیٰ کے بھتیجے کے خلاف آمدنی سے زیادہ جائیداد رکھنے کے معاملے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔حزب مخالف کی ایک اہم خاتون رہنما کے بھائی کو سی بی آئی کے ذریعے جب تب نشانہ بنایا جاتا ہے اور جب بھی وہ ایک اہم اتحاد سے جڑنے کو لےکر فیصلہ کرنے والی ہوتی ہیں، ان کے بھائی کو دو دن کے لئے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
ایک دوسری مثال بھی ہے، جہاں بتایا جاتا ہے کہ استھانا بد عنوانی کے ایک معاملے 70 سال کی ایک حزب مخالف رہنما اور ان کے بیٹے کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔آلوک ورما نے تب دلیل دی تھی کہ یہ اقتصادی جرم ہے اس لئے اس میں حراست کے بجائے پیسے کے لین دین کی جانکاری کی ضرورت ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بالکل واضح ہے کہ سی بی آئی کے اندر چل رہی یہ کھینچ تان، اس سیاست سے جڑی ہے، جس کو کچھ لوگ گجرات سے درآمد شدہ بتاتے ہیں۔ اور یہ کھینچ تان صرف سی بی آئی سے جڑی نہیں ہے، بلکہ اس میں ای ڈی اور راء بھی شامل ہیں۔
(سواتی چترویدی سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر