گاسپ کی تخلیق کے کچھ غیر محررہ اصول ہوتے ہیں، جیسے اسے وہیں نوٹ نہ کریں یا اس سے متعلق سوال جواب نہ کریں۔ بتانے والے یعنی ذرائع کا تحفظ یقینی ہونا چاہیے۔ گاسپ یا گپ شپ لکھنے والے کو آزادی حاصل ہوتی ہے، مگر اس میں حقائق کا متاثر نہ ہونا ایک اہم شرط ہے۔
Gossip needn’t be false to be evil — there’s a lot of truth that shouldn’t be passed around. ~Frank A. Clark
یہ بلاگ (مضمون) گاسپ ہینڈلس کی حمایت میں ہے، جو اچانک ٹوئٹر ہینڈلس میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ لُٹینس کی چٹ پٹی باتیں، ان میں مرچ مسالہ اور اندر کی خبریں ٹوئٹر کے میدانِ جنگ میں نظر آ رہی ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر یہ بہت معلومات افزا نہیں ہوتیں، لیکن مستقبل میں ضرور ان سے امیدیں لگائی جا سکتی ہیں۔
یہ امرِ واقعہ ہے کہ گاسپ پھیلانے والے پُر اسرار قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ان کی پہچان مشکل ہوتی ہے۔ اخباروں میں چھپنے والی گپ شپ نما خبریں تک عموماً بغیر نام کے شائع کی جاتی ہیں۔ جو با ہمت لوگ ایسی خبروں پر اپنا نام دے دیتے ہیں، انہیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور در کنار کیا جاتا ہے، گوکہ لوگ پس پردہ ان کے معترف بھی ہوتے ہیں۔
مغربی ممالک کے مقابلے ہندوستان میں سیاسی گاسپ جمع کرنا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ ہندوستانی سیاستداں صحافیوں سے بات کرتے وقت عموماً محتاط رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کی منفی باتوں کو عام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسی باتوں کی سچائی جاننے کا یا ان کی توثیق کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کابینہ کی، پارٹیز کی، پارلیامنٹری بورڈ یا مجلسِ عاملہ کی میٹنگس ہوں، گاسپ لکھنے والوں کو عموماً ادھ بیچ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب آیا وہ اس ادھ کچری جانکاری کو لے کر قیاس آرائی کریں، اندازے سے لکھ دیں یا خاموشی اختیار کر لیں۔
خوش قسمتی سے لُٹینس کی دہلی میں چند ایسے سیاستداں ہیں جو میڈیا سے اچھے تعلقات رکھنے کے لیے صحافیوں کے ساتھ گاسپ کے تبادلے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ملاقات بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ ایسے درباروں میں ابتدائی طور پر شرکاء کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ادھر کی اُدھر کرنے والوں کی پہچان کی جاتی ہے۔ اگلا قدم انتظار کا ہوتا ہے تاکہ مخالف کیمپ تک خبر پہنچا دینے یا بات بگاڑنے کا جن سے اندیشہ ہے، وہ چلے جائیں۔ جیسے ہی میدان صاف ہوتا ہے، سب ایک دوسرے کی طرف جھک جاتے ہیں، کیونکہ بند ہونٹوں سے پھسپھساہٹ نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ سیاست کی رپورٹنگ کرنے والے زیادہ تر صحافی ان قیمتی لمحات کے منتظر رہتے ہیں اور کھانے یا پینے کسی بھی قسم کی پُر تکلف دعوت پر ان لمحاتِ منتظرہ کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔
گاسپ کی تخلیق کے کچھ غیر محررہ اصول ہوتے ہیں، جیسے اسے وہیں نوٹ نہ کریں یا اس سے متعلق سوال جواب نہ کریں۔ بتانے والے یعنی ذرائع کا تحفظ یقینی ہونا چاہیے۔ گاسپ یا گپ شپ لکھنے والے کو آزادی حاصل ہوتی ہے، مگر اس میں حقائق کا متاثر نہ ہونا ایک اہم شرط ہے۔
منفیانہ یا بری خبروں کی طرح ہی گاسپ بھی روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرتی ہے۔ ایک کان سے دوسرے کان یا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک یہ مانو اڑ کر پہنچ جاتی ہے۔ ایسے منجھے ہوئے صحافیوں کی کوئی کمی نہیں ہے، جو ان سرگوشیوں کو “عادتاً” بزرگ صحافیوں تک فوراً پہنچا دیتے ہیں۔ ایسے بزرگ و تجربہ کار صحافی جو کرسیوں میں دھنسے ایسی بیش قیمتی معلومات کی سدا راہ تکتے رہتے ہیں۔ گاسپ ادھر سے ادھر کرنے کے شوقین ایسے پردہ پوش جیالوں کی کمی نہیں ہے، جنہیں اپنے ذریعے پھیلائی گئی سرگوشیاں چھپے ہوئے حروف میں دیکھ کر دلی تسکین ملتی ہے۔
کبھی کبھی اس معاملے میں دھوکےبازی بھی ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک واقعہ کا راقم السطور شاہد ہے۔ ایک بار کسی پارٹی کے ترجمان، پارٹی میں اپنے حریف کے ‘اوصاف’ بیان کر رہے تھے کہ ان کا موبائل بج اٹھا۔ دوسری طرف ان کے وہی حریف تھے، جن کا ذکر محفل میں چل رہا تھا۔ اصل میں مذکورہ حریف کے ایک جرنلسٹ دوست نے، جو شریکِ محفل تھے، موبائل آن کر کے انہیں سب کچھ سنوا دیا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ مگر اس کا دوسروں کو نقصان یہ ہوا کہ “آف د ی یکارڈ” کی شکل میں ملنے والی تمام معلومات کا دروازہ بند ہو گیا۔
بنا مانگے کی صلاح ناپسندیدہ عمل تصور کیا جاتا ہے، مگر تجربہ کار صحافی ہونے کی حیثیت سے ناچیز کی چند گزارشات ہیں۔ لُٹینس کے نمک مرچ لگے ہوئے مسالوں میں بھی کچھ بنیادی باتوں کا دھیان رکھا جانا چاہیے۔
1۔ کسی پر ذاتی حملہ نہ ہو یا بدلہ نکالنے کے لیے اس صنف کا استعمال نہ کیا جائے۔
2۔ عوام الناس کے وسیع تر مفادات ہمیشہ ذہن میں رکھے جائیں۔
3۔ گپ شپ کو پھیلانے سے پہلے اسے پرکھ لیں، اس کی توثیق کرلیں، دوبارہ جانچ کرنے کے بعد ہی اُسے آگے بڑھائیں۔
4۔ اپنی فہم کا استعمال کریں۔ تجربہ آپ کو بتا دے گا کہ ان باتوں پر ایک سیاستداں کا کیا ردِّعمل ہو سکتا ہے یا وہ کیا جواب دے سکتا ہے۔
5۔ اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔
6۔ میڈیا میں کام کرنے والوں کے بارے میں گاسپ اُڑانے سے جتنا ممکن ہو اتنا بچیں۔ ہم نہ تو سیلیبریٹیز ہیں نہ ہی خبروں میں رہنے والے۔
Categories: فکر و نظر