حقوق انسانی

ہمانشو کمارکا مضمون؛ سدھا بھاردواج ہمارے سارے مقدمے مفت میں لڑتی تھیں

 میں جانتا ہوں وہ بےقصور ثابت ہوکر جیل سے باہر آئیں‌گی۔ ان کی پوری زندگی کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے ہم کوئی کہانی پڑھ رہے ہیں جس میں ایک سنت کو ظالم راجا ستاتا ہے۔

SudhaBhardwaj_Mahtab

فوٹو : مہتاب عالم

آج سےتقریباًدس سال پہلے امریکہ کی پیپلس ہسٹری کی کتاب دکھاتے ہوئے سدھا نے مجھ سے کہا، ہمانشو میں جب جیل جاؤں‌گی تو اس کتاب کا ہندی ترجمہ کروں‌گی۔  سدھا بھاردواج سے میری ملاقات میرے بستر میں کام شروع کرنے کے کئی سال بعد ایک میٹنگ میں ہوئی۔  سدھا حقوق انسانی کے لئے کام کرتی تھیں۔  تب تک میں اور ہمارے دوست حکومت کی اسکیموں کو آدیواسیوں تک پہنچانے میں حکومت کی مدد کرتے تھے۔  میرے ایک ہزار دوست بستر بھر میں صحت، تعلیم، پانی بچانے، جنگل لگانے، نوجوانوں کو روزگار مبنی تربیت دینے اور خواتین کے لیے ایس ایچ جی کے ذریعے ان کی آمدنی بڑھانے کے لئے کام کر رہے تھے۔

ویسے تو بستر دستور کی پانچویں فہرست میں آتا تھا۔  پانچویں فہرست کے علاقے میں حکومت بنا آدیواسیوں کی گرام سبھا کی اجازت کے کوئی کھدائی یا صنعت نہیں لگا سکتی تھی۔  لیکن حکومت نے آئین کو نہیں مانا۔  حکومت نے 5 ہزار آدیواسی نوجوانوں کو بندوقیں دےکر گاؤں والوں کو پیٹ‌کر-مار‌کر ان کو گاؤں خالی کرنے کے کام پر لگا دیا۔  ان کو حکومت نے اسپیشل پولیس افسر کہا۔  اس کام میں ان کے ساتھ نیم فوجی دستہ اور پولیس کو بھی شامل کر دیا گیا۔  ان سب نے مل‌کر آدیواسیوں کے ساڑھے 6سو گاؤں کو جلا دیا۔  آزادی کے بعد یہ آدیواسیوں پر حکومت کا سب سے بڑا حملہ تھا۔  بچوں کے ڈاکٹر بنایک سین کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے حکومت نے جیل میں ڈال دیا تھا۔

اسی دوران میری ملاقات سدھا سے ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں سدھا خاکساری سے بات کرنے والی بہت عقلمندخاتون  لگیں۔  اس کے بعد کئی سال تک ہم لوگوں نے ساتھ میں کام کیا۔  زیادہ سچ تو یہ کہنا ہوگا کہ اس کے بعد سدھا نے کئی سالوں تک میری بہت مدد کی۔

چھتیس گڑھ کی بی جے پی حکومت آدیواسیوں کی زمینوں پر کمپنیوں کا قبضہ کرانے کے لئے آدیواسیوں کے گاؤں کو جلا رہی تھی۔قبائلی خواتین کے ساتھ سیکورٹی اہلکار اور اسپیشل پولیس افسر  ر ریپ کر رہے تھے۔ حکومت بےقصور بچوں اور نوجوانوں کو قتل کر رہی تھی۔  اس طرح کے واقعات کی اطلاع ملتے ہی ہمارے دوست متاثرہ  آدیواسیوں سے ملتے تھے۔

سدھا آکر ان لوگوں کو قانونی مدد دینے کے لئے کاغذات تیار کرتی تھیں۔  سدھا ہمارے پاس پانچ سو کلومیٹر بس سے سفر کرکے بلاس پور سے آتی تھیں۔  سدھا نے کبھی ہم سے کرایہ نہیں مانگا۔  سدھا ہمارے سارے مقدمے مفت میں لڑتی تھیں۔  کئی سارے معاملوں میں سدھا ہمارے ساتھ گاؤں میں جاکر متاثر ہ آدیواسیوں سے ملتی تھیں۔

سام سیٹی گاؤں میں چار ریپ متاثرہ لڑکیوں کے ساتھ پولیس والوں نے گینگ ریپ کیا تھا۔  پولیس معاملے کو دبانے میں پوری طاقت لگا رہی تھی۔  لیکن سدھا نے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لےکر پولیس والوں کے وارنٹ نکلوا دئے۔  لیکن بعد میں حکومت نے پوری فورس لگاکر لڑکیوں کا اغوا کروا لیا اور تھانے میں لاکر دوبارہ ریپ  کروایا۔  اس بیچ مجھے چھتیس گڑھ سے نکال دیا گیا اس کے بعد ان لڑکیوں کا پولیس نے تیسری بار اغوا کرکے ان سے زبردستی مقدمہ واپس کروا دیا۔

ان کے ساتھ مجھے ملک کے الگ الگ شہروں میں جاکر جلسوں کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔  سدھا بہت اچھی مقرر ہیں۔ وہ بہت سیدھے سادے طریقے سے اپنی بات سامعین تک پہنچا دیتی ہیں۔سدھا امریکہ میں پیدا ہوئی اور لندن میں پڑھیں لیکن ان کے بارے میں پوچھنے پر وہ  بہت شرماکر ہی یہ بات بتاتی ہیں۔  وہ کبھی نہیں چاہتیں کے گاؤں سے آئے کارکن سدھا کو خود سے بڑا سمجھیں۔

ان  کا رہن سہن بہت سادہ ہے۔  کھادی کی سوتی دھوتی اور پیر میں سستی سی چپل۔  نیند آنے پر وہ  زمین پر چادر بچھاکر چپ چاپ سو جاتی ہیں۔  کچھ بھی کھا لیتی ہیں۔  سنتوں کے بیان کے مطابق سدھا اس زمانے کی سنت ہیں۔  جو عوام کے لئے تکلیف برداشت کرتی ہیں۔  سب کچھ قربان کردیتی ہیں اور اس سبب جن کو اقتدار پریشان کرتاہے۔

آج ان کو اقتدار پریشان کر رہا ہے۔  مودی حکومت نے سدھا کو جیل میں ڈال دیا ہے۔  میں جانتا ہوں وہ بےقصور ثابت ہوکر جیل سے باہر آئیں‌گی۔ ان کی پوری زندگی کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے ہم کوئی کہانی پڑھ رہے ہیں جس میں ایک سنت کو ظالم راجا ستاتا ہے۔  کبھی وقت ملا تو سدھاکے اوپر ایک ناول لکھوں‌گا۔

بشکریہ: جن چوک