فکر و نظر

مدھیہ پردیش: کیامشکلات میں گھرے لوگوں کو بی جے پی اور کانگریس نے بھلا دیاہے؟

الیکشن کے ہنگاموں کے دوران مدھیہ پردیش میں کچھ اہم معاملات نظر انداز ہو گئے ہیں۔بی جے پی کی موجودہ سرکار نے ملک کے اس وسطی صوبے کے کچھ اہم مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

ایکاتم یاترا سے پہلے شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے نرمدا سیوا یاترا کا انعقاد کیا تھا۔ اس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہوئے تھے۔  (فائل فوٹو : پی آئی بی)

ایکاتم یاترا سے پہلے شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے نرمدا سیوا یاترا کا انعقاد کیا تھا۔ اس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہوئے تھے۔  (فائل فوٹو : پی آئی بی)

صوبے میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ  شیوراج سنگھ چوہان کئی ایوارڈس و اعزازت حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں’کرشی کرم’ایوارڈ بھی شامل ہے۔ مرکزی زراعت و باغبانی کمشنر کی جانب سے دیا جانے والا یہ ایوارڈ گیہوں کی عمدہ کاشت کے لیے چوہان 5بار جیت چکے ہیں،یہاں تک کہ منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ میں بھی انہیں یہ ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس میں ایوارڈ کے ساتھ سندِ توصیفی اور دو کروڑ روپے نقد دیے جاتے ہیں۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ کو عمدہ زرعی پیداوار کے لیے اعزاز سے سرفراز کیے جانے کے باوجود کئی کسان چاہتے ہیں کہ ان کی اولادیں اب کھیتی کسانی کے کام سے دور رہیں۔ اس کی وجہ انہیں اپنی فصل کا مناسب فائدہ نہ مل پانا اور صوبے کے مختلف علاقوں کے حالات ایک دوسرے سے جدا ہونا ہے۔

صوبے کے 52 ضلعوں میں سے مالوہ کے زرخیز 15 ضلعے گیہوں کی کل پیداوار کا 50 فیصد سے زیادہ دیتے ہیں۔ وہیں بندیل کھنڈ، چمبل و گوالیار علاقے کے وِندھیہ پردیش میں کسان برے حالات کا شکار ہیں۔ وہ اپنی زمینیں کھو رہے اور کھیتی مزدور میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ روزی روٹی کی تلاش میں نقلِ مکانی کا عمل ان علاقوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔ کسانوں میں عدم اطمینان و بے چینی کا یہ عالم ہے کہ جون 2017 میں ان کا احتجاج پرتشدد ہو گیا اور پولیس کی فائرنگ میں 8 کسان مارے گئے۔ کسانوں کی زیادہ تر تنظیمیں و کسان نیتا قرضوں سے دستبرداری و اپنی کاشت کی اچھی قیمتوں کا سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں۔

نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے ایک سروے کے مطابق مدھیہ پردیش میں 32 لاکھ سے زیادہ کسان قرض کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ ایسے ہی ایک اندازے کے مطابق صوبے کے ہر کسان پر 14 ہزار 128 روپے کا قرض ہے۔2017 میں ٹماٹر، پیاز و آلو کی زبردست پیداوار ہوئی، جس سے ان کے دام ایک دم گر گئے۔ اس سے کسان مصیبت میں پھنس گئے لیکن وزیر اعلیٰ چوہان نے ان کے قرض میں کسی بھی طرح کی رو رعایت کرنے سے پرہیز کیا اور ‘بھاونتر بھُگتان یوجنا’لے آئے۔ خاص طور سے سویابین و گیہوں کے لیے لائی گئی اس یوجنا کے تحت کسانوں کو بازار میں ملنے والے دام اور سرکار کے ذریعے طے شدہ کم سے کم قیمت کے بیچ آنے والے فرق کا بھُگتان سرکار کرتی ہے۔ چوہان نے مرکزی سرکار سے گزارش کی تھی کہ “بھاونتر بھگتان یوجنا”کے لیے انہیں 1900 کروڑ روپے کی مدد دی جائے۔

ادھر زمینی حقیقت یہ ہے کہ صوبے کے متعدد چھوٹے و منجھلے کسان کئی طرح کے مسائل سے جوجھ رہے ہیں۔انہیں اپنی پیداوار کی مناسب قیمت ابھی بھی نہیں مل رہی ہے۔ ان پر قرض کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور سے اس لیے بھی کہ پرائیویٹ لونس پر انہیں بھاری سود چکانا پڑتا ہے۔ کھیتی میں بڑھتی لاگت، بِچولیوں کی من مانی، بھاری منڈی ٹیکس، مزدوری کی بڑھتی شرح، فصل کو محفوظ رکھنے کے ذرائع یا کولڈ اسٹوریج کی کمی وغیرہ ایسی وجوہات ہیں جن سے کسانوں کو لگاتار نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

بےروزگاری

مدھیہ پردیش میں بےروزگاری کی شرح زیادہ ہے، کیونکہ جو لوگ کھیتی کسانی کے کاموں میں لگے تھے انہیں انڈسٹریز یا ان سے جڑے کام کاج میں موقعہ نہیں مل پا رہا۔ مدھیہ پردیش ودھان سبھا میں درج ریکارڈ کے مطابق صوبے میں جب سے بی جے پی کی سرکار آئی ہے، یعنی دسمبر 2003 سے ہر سال اوسطاً 17 ہزار 600 روزگار فراہم کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ 2017 کا ایک اِکنامِک سروے کہتا ہے کہ صوبے میں سن 2016 کے آخر تک 11.24 لاکھ تعلیم یافتہ بےوزگار موجود تھے۔ اس میں چوہان سرکار نے مزید حکمت یہ کی کہ رِیٹائرمنٹ کی عمر دو سال بڑھا کر 60 سے 62 سال کر دی۔ اس سے بھی روزگار کے موقعے اور گھٹ گئے۔ ایم پی کی ودھان سبھا میں پیش اعداد وشمار کے مطابق سن 2004 سے 2017 کے درمیان 2 لاکھ 46 ہزار 612 روزگار مہیا کرائے گئے ہیں۔ ان میں سے 2 لاکھ 27 ہزار 386 جابس پرائیویٹ سیکٹر نے دیے۔

بےروزگاری سے لڑنے کے لیے بنائی گئی بےروزگار سینا کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں 2005 سے 2015 کے دوران بے روزگاری 53 فیصدی بڑھی، نیز بےروزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کے معاملات میں 20 گنا اضافہ ہوا ہے۔ صوبے میں فروغِ انسانی وسائل کے کام اطمینان بخش نہیں ہیں۔ صنعتوں اور آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ماہرین کی تیاری کا کام عدم توجہی کا شکار ہے۔

ماحولیات میں خطرناک تبدیلی

 ایم پی کے کچھ حصے جیسے بندیل کھنڈ خوفناک خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں۔ گوالیار، چمبل علاقے کے حالات یہ ہیں کہ گرمیوں میں پانی کے لئے انسان و حیوان نیز حیوان، حیوانوں سے بھڑ جاتے ہیں۔ آئی آئی ایم احمداباد کی ایک اسٹڈی بتاتی ہے کہ ایم پی میں انتہائی درجے کا غیر معمولی قحط حالیہ سالوں میں زبردست ڈھنگ سے پھیلتا جا رہا ہے۔ گرم دنوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان عوامل کا اثر کھیتی، آبی وسائل،انفراسٹرکچر، سیاحت و توانائی کے شعبوں پر پڑ رہا ہے۔ ان حالات کو درست کرنے کے لیے علاقائی سطح پر منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔

شہری ترقی

شہری ترقی سے آگے بڑھنے کی راہیں کھلتی ہیں مگر اس میدان میں بھی مدھیہ پردیش پچھڑا ہوا ہے۔ صوبے کے اندور و بھوپال جیسے شہر جےپور، بڑودہ، لکھنؤیا ناگپور کے مقابلے کمتر نظر آتے ہیں۔ اندور کو آٹوموبائل ہب بنانے کی صرف باتیں ہوئیں۔ اہِلیہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے جنرل سکریٹری سُشیل سُریکا کے مطابق نوٹ بندی و جی ایس ٹی نے اندور کے بزنس کو خاصہ متاثر کیا۔ حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان دونوں عوامل کی وجہ سے بزنس میں 40 سے 50 فیصد کی گراوٹ آئی اور 15 سے 20 فیصد روزگار کم ہو گئے۔

ایک جلسہ کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی، (بائیں سے) جیوترادتیہ سندھیا، دگوجئے سنگھ اور کمل ناتھ (بیٹھے ہوئے) /فوٹو : پی ٹی آئی

ایک جلسہ کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی، (بائیں سے) جیوترادتیہ سندھیا، دگوجئے سنگھ اور کمل ناتھ (بیٹھے ہوئے) /فوٹو : پی ٹی آئی

صوبے میں سرمایہ کاری

شیوراج سنگھ سرکار 2007 سے 2016 کے بیچ صوبے میں پانچ اِنویسٹرس سمِٹ کرا چکی ہے، لیکن سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔ ایک اندازے کے مطابق 2357 قراروں میں سے محض 92 پروجیکٹس ہی آگے بڑھ سکے۔ گلوبل اِنویسٹرس سمِٹ 2016 کے بعد سرکار نے دعویٰ کیا کہ 2630 کمپنیوں نے صوبے میں 5 لاکھ 62 ہزار 887 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے، مگر تا حال اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ ایسوسِئیٹیڈ چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری ان انڈیا کی ایک اسٹڈی کے مطابق صوبے میں بنیادی سہولیات کی کمی نیز سماجی عدم استحکام کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹرز یہاں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔

دونوں پارٹیاں غیر حساس

28 نومبر 2018 کو ہونے والے انتخابات کے لیے کانگریس اور بی جےپی  دونوں پارٹیاں خم ٹھوک رہی ہیں، لیکن دونوں بھوپال گیس حادثے کے متاثرین، نرمدا باندھ کے غرقاب ہونے والے علاقوں سے نکال باہر کئے گئے لوگوں یا معاشرے کے کمزور طبقات کے مسائل کی بابت خاموش ہیں۔ بھوپال گیس حادثے سے تین ودھان سبھا حلقے بری طرح متاثر ہوئے۔ ان علاقوں کا پانی آلودہ ہو چکا ہے۔ متاثرین کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ گیس متاثرہ لوگوں کے یہاں ابھی بھی معذور بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ 2-3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات میں یونین کاربائیڈ نامی کارخانے سے نکلی 40 ٹن زہریلی میتھائیل آئیسوسائینیٹ(ایم آئی سی)نے بھوپال میں قہر مچا دیا تھا۔

سرکاری دستاویز اس گیس حادثے میں 3000 سے زیادہ لوگوں کے مارے جانے کی بات بتاتے ہیں۔ لیکن گیس متاثرین کے لیے کام کرنے والی خدمت گار تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں 25000 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور ساڑھے پانچ لاکھ لوگ زخمی یا معذور ہو چکے ہیں۔ مگر کانگریس کی سابقہ یا بی جےپی کی موجودہ سرکاروں نے ان متاثرین کے بارے میں کوئی خاص سنجیدگی نہیں دکھائی۔ ایسا ہی معاملہ نرمدا پر بنے باندھوں کے غرقاب ہو جانے والے علاقوں کے باشندوں کا ہے کہ ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

(صحافی و قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔)