آج تین دہائیوں سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی یونین کاربایئڈ فیکٹری کا دیا ہوا زخم تازہ ہے، خاص طور پر ان ہزاروں متاثرین کے لیے جن کی زندگی اس حادثہ نے مکمل طور پر بدل دی۔
آج سے 34 سال پہلے، بھوپال شہر میں دنیا کا سب سے بڑا صنعتی حادثہ ہوا تھا جب ایک امریکی ملٹی نیشنل کمپنی کے لوکل پلانٹ سے زہریلی گیس کے اخراج کے باعث ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے تھے اور لاکھوں لوگ مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو گئے –یہ امراض آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوئے ۔ وہ 2 اور3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات تھی جب بھوپال پر قیا مت ٹوٹی تھی جس کے نتیجے میں کئی ہزار لوگ تو نیند میں ہی موت کی آغوش میں چلے گئے ،اور زہریلی گیس کے اثرات کی وجہ سے کل اموات کی تعدادبعد میں 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
آج تین دہائیوں سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی یونین کاربایئڈ فیکٹری کا دیا ہوا زخم تازہ ہے، خاص طور پر ان ہزاروں متاثرین کے لیے جن کی زندگی اس حادثہ نے مکمل طور پر بدل دی۔پلانٹ میں لیکیج کے سبب تقریباً 40 ٹن زہریلی گیس فضا میں پھیل گئی تھی۔اتنی موتیں ہوئی تھیں کہ ایک ایک قبر میں درجنوں لوگ دفن کئے گئےتھے ، شمشان کئی دنوں تک مستقل جلتے رہے-کتنی ہی عورتوں کی شناخت نہ ہو سکی اور ان کی آخری رسوم لباس اور پہناوے کے انداز سے کی گئی تھیں-
ڈاکٹروں کا عالم تو یہ تھا کہ ان کے زہر کا ‘اینٹی ڈوٹ’یا صحیح علاج ہی نہیں معلوم تھا۔ ہزاروں لوگ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ بہت دنوں تک ٹرینیں شہر سے گزرتی تھیں تو لوگ کمپارٹمنٹس کا دروازہ نہیں کھولتے تھے۔ ایک عجیب ہیبت تھی۔ بعد میں بھی شہر کو سنبھلنے میں کئی سال لگ گئے تھے۔شروعاتی طور پر لوگوں کو سانس اور پھیپھڑے کی بیماریاں ہوئیں یا بینائی متاثر ہوئی۔ مگر دھیرے دھیرے اس کے مکمل اثرات سامنے آنے لگے۔ گیس متاثرین مختلف بیماریوں کے شکار ہونے لگےجیسے گردے کی تکلیف اورکینسر۔ زنانہ امراض کی شرح بھی بیحد بڑھ گئی۔
افسوس کی بات یہ تھی کہ اتنے بڑے صنعتی حاثہ کے با وجود متاثرین کے علاج پر کوئی خصوصی توجہ نہیں دی گئی۔ حتیٰ کہ ایک قاعدے کا ‘لائن آف ٹریٹمینٹ’ بھی وضع نہیں کیا جا سکا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غلط علاج اور صحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا۔گیس ٹریجڈی کے بعد بھوپال میں جو مسائل پیدا ہوئے ان کا سد باب کرنے میں حکومتیں ناکام ثابت ہوئیں۔ ہزاروں لوگوں کی جان گئی لیکن ان کے لواحقین کو مناسب معاوضہ نہیں ملا۔ وہ خواتین جو اس حادثے میں بیوہ ہوئیں ان کے لیے کوئی باعدہ پلان نہیں بنااور جو نام نہاد ماہانہ پینشن ان کو دی گئے وہ بھی اتنی قلیل تھی کہ اس میں ان کا خرچ پورا ہونا نا ممکن تھا۔
متاثرین کو جس طرح کا علاج درکار تھا،، وہ نہیں ملا۔ سرکاری ہسپتالوں میں دوائیں نہیں ملتی تھیں اور مہنگی دوائیں خریدنے کے لئے ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ یہ حالات آج بھی بدستور ہیں۔ایک طرف ہیلتھ کا انفرا اسٹرکچر نہیں تیار ہو سکا تو دوسری طرف انتہا یہ ہوئی کہ اس سانحے کے بعد متاثرین کی باز آبادکاری اور ان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ پھیپھڑوں کے عارضے کی وجہ سے گیس متاثرین کے لئے جسمانی محنت کا کام کرنا تقریباً نا ممکن تھا-انگنت لوگ بےروزگار ہو گئے اور علاج کے اخراجات کی وجہ سے سڑک پر آ گئے۔
مدھیہ پردیش کی دار الحکومت ہونے کے باوجود گیس سانحہ کبھی بھی سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک مدعا نہیں رہا۔ 1989 میں حکومت ہند اور یونین کاربائیڈ کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے بعد، جو رقم ملی اس سے معاوضہ تقسیم ہوا ور بھوپال میں ہسپتال بنے۔ گیس متاثرین کے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والی تنظیمیں کہتی ہیں کہ یہ سمجھوتا ایسا تھا جس میں متاثرین کے ساتھ نا انصافی ہوئی۔ جو ہسپتال تعمیر ہوئے ان میں سے کئی ایسے ہیں جو بند ہونے کی حالت میں ہیں یا صرف بنیادی علاج دے رہے ہیں، وہ ٹریٹمینٹ نہیں جو سنگین بیماریوں میں مبتلا گیس متاثرین کو درکار ہے۔
بھوپال گیس ٹریجڈی کے بہت سے پہلو ہیں۔ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرنے والے اس حادثے کے بعد، آج بھی ہزاروں لوگ یونین کاربائیڈ پلانٹ کے زہر کا شکار ہیں۔ سیکڑوں ٹن زہریلا کچرا جو کاربایئڈ فیکٹری کے کیمپس میں موجود ہے اسے بھی بھی ہٹایا نہیں گیا ہے اور ہر سال بارش کے بعد، یہ زمین میں جذب ہوتا رہا، جس کی وجہ سے پلانٹ کے آس پاس کی تمام بستیوں میں انڈر گرواؤنڈ واٹر میں اس کی آمیزش ہو گئی۔
اس کے علاوہ، گیس متاثرین کی ایک بہت بڑی امید سپر اسپیشلٹی بھوپال میموریل ہسپتال سے تھی۔ مگر قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی یہ ہسپتال علاج سے زیادہ تنازعات کا شکار ہو گیا۔ ڈاکٹروں کی کمی اور محکمہ جاتی مسائل کے علاوہ شہر کے جن پرایئویٹ ہسپتالوں کواس کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا، انہوں نے مختلف حربے آزمائے تا کہ ہسپتال مسائل میں گھرا رہے۔
ایک اور بیحد شرمناک پہلو یہ ہے کہ گیس متاثرین پر بغیر اجازت کے ڈرگ ٹرائل کئے گئے اور سنگین امراض جھیل رہے ان لوگوں کو تختہ مشق بنایا گیا۔نا انصافی کا اندازہ تو اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گیس ٹریجڈی کے بعد جو مجرمانہ کیس چلا اس میں کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی جبکہ حفاظتی اسٹینڈرڈس کو جان بوجھ کر کم کرنے کی وجہ سے گیس لیک ہوئی تھی۔
سیاسی رہنماؤں نے بھی گیس ٹریجڈی پر حیرت انگیز کردار ادا کیا۔ بڑی پارٹیوں کے لیڈران یونین کاربایئڈ اور ڈاؤ کیمیکل کی پیروی کرتے رہے اور ان کی پارٹیاں مقامی لیول پر گیس متاثرین کے مسائل کو اپنے انتخابی منشور میں جگہ دینے سے بچتی رہیں۔ یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ چیرنوبیل جہاں ہوئے حادثہ میں 56 لوگ مارے گئے تھے، اور اس نے پوری دنیا کا دھیان کھینچا تھا، اس کے مقابلے بھوپال گیس ٹریجڈی جس میں تقریباً 25 ہزار جانیں گیئں اور پوری دنیا پر اثر ہوا، اس پر ملک میں لیڈرشپ کا رویہ دیانت دار نہیں رہا۔
بھوپال گیس متاثرین کے لئے جد و جہد کرنے والی تنظیموں کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں این ڈی جئے پرکاش اور عبدالجبار نے کہا ہے کہ مرکزی سرکار نے متاثرین کے تیئں بے حسی کا رویہ رکھا اور عدالت کے احکام کے بعد بھی، گیس المیہ کے سنگین اثرات کے سلسلے میں خاطر دھیان نہیں دیا- ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متاثرین کوبیحد کم معاوضہ ملا—جو اموات کےصحیح اعداد و شمار کے مطابق نہیں تھا۔اس معاملے میں کورٹ میں دائر کی گئی ‘کیوریٹو پٹیشن’ ابھی تک سنی نہیں جا سکی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ اس پٹیشن پر جلد از جلد ہیئرنگ ہوگی اور متاثرین کے ساتھ انصاف ہوگا۔
یوں تو بھوپال اب 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے جہاں بادی النظر میں تعمیرات اور ترقی نظر آتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ زہریلی میتھائل آئی سو سائنیٹ گیس سے متاثرہ افراد کے لئے 2دسمبر کی وہ رات اب تک بیتی نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر