مودی حکومت پبلک سیکٹر کی کمپنی سینٹرل الیکٹرانک لمیٹڈ کی 100 فیصد حصےداری بیچ رہی ہے، جس کی مخالفت میں اس کے ملازم تقریباً 2 مہینے سے دھرنے پر ہیں۔
صاحب آباد (اتر پردیش): سرکاری ملکیت والی سینٹرل الیکٹرانک لمیٹڈ(سی ای ایل)کے ملازمین کو اتر پردیش کے صاحب آباد میں اپنے کارخانے کے پھاٹک پر غیر معینہ مدت کے لیےدھرنا دیتے ہوئے 2 مہینے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ہر دن کام کے گھنٹوں کے دوران پھاٹک کے ٹھیک باہر چارپانچ مستقل ملازمین کو ایک عارضی خیمے کے اندر پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔وہ کام کے دوران اپنی بانہوں پر کالی پٹی باندھے رہتے ہیں اور باری باری سے باہر بیٹھتے ہیں، تاکہ دھرنا کے دوران بھی کمپنی کے روزانہ کے کام کاج میں رکاوٹ نہ آئے۔
لنچ کے دوران اور چھٹی ہو جانے کے بعد وہ خیمے کے آس پاس جمع ہوکر نریندر مودی حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں اور ان کی کمپنی کی نجی کاری کرنے کی کوششوں کے خلاف اپنی یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔
کیا ہے سی ای ایل کا کام؟
1974 میں قائم سی ای ایل کا ہدف ہندوستانی تجربہ گاہوں (لیب)اور ریسرچ اداروں کے ذریعے ترقی یافتہ دیسی تکنیک کا تجارتی استعمال کرنا ہے اور یہ شمسی توانائی، ریلوے سگنلنگ، دفاعی الیکٹرانکس اورانٹی گریٹ سکیورٹی اینڈ سرولینس)-ان چار سیکٹر میں کام کرتی ہے۔سی ای ایل نے دور اور پہاڑی علاقوں میں بجلی کی فراہمی میں اہم رول ادا کیا ہے، جہاں پرائیویٹ سیکٹر جانے سے ہچکچاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فیز کنٹرول ماڈیول (پی سی ایم) جیسے بہتر مصنوعات کی بھی پیداوار کرتا ہے، جس کا استعمال میزائل سسٹم میں کیا جاتا ہے اور جو ہندوستان کے لئے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔
مارچ،2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق کمپنی کی اصل جائیداد 50.34 کروڑ روپے ہے۔اس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ (435 مستقل اور 600 ٹھیکے پر)کام کررہے ہیں۔یہ وزارت سائنس اور تکنیک کے محکمہ سائنسی اور صنعتی ریسرچ کے انتظامی کنٹرول کے تحت ہے۔
ملازم کیوں ہیں دھرنے پر؟
2016 میں نیتی آیوگ نے سی ای ایل کو Strategic Disinvestment یا فروخت کے لئے غور کئے جانے والے بیماریا نقصان میں جا رہے 74 مرکزی پرائیویٹ سیکٹر انٹرپرائززکی فہرست میں شامل کیا تھا۔اس کے بعد گزشتہ سال حکومت نے اس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کی منتقلی کے ساتھ 100 فیصد حصےداری کی اسٹریٹجک فروخت کے لئے ایک تجویز کو ہری جھنڈی دکھائی۔
اس وقت سے ہی اس کے ملازم جدو جہد کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سی ای ایل کو غلط طریقے سے نقصان میں جا رہے دوسرے پرائیویٹ سیکٹر انٹرپرائززکے ساتھ رکھ دیا گیا ہے۔ا س کے ملازمین اور افسروں کی دلیل ہے کہ چونکہ سی ای ایل ایک’قومی جائیداد’ہے اور اس نے منافع کمانا بھی شروع کر دیا ہے، اس لئے حکومت کو ا س کے کنٹرول کو اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہیے۔
جب متعلقہ افسروں کے ذریعے بار بار کی گئی اپیلوں کی ان سنی کر دی گئی اور فروخت کے لئے نجی بولی کی آخری تاریخ قریب آنے لگی، تب ملازمین نے اپنی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے مخالفت میں غیر معینہ مدت کے لیےدھرنا شروع کر دیا۔
نقصان میں چلنے کی بات غلط
سی ای ایل کے پچھلے پانچ سال کی بیلینس شیٹ کے مطابق کمپنی کا منافع لگاتار بڑھتا جا رہا ہے (2013سے14)سے ہرسال منافع تقریباً دو گنا ہوا ہے۔ اس نے پچھلے مالی سال (2016سے17)میں ہی16.81 کروڑ روپے کا (ٹیکس کے بعد) منافع کمایا ہے۔
سی ای ایل ملازم یونین کے کارگزار صدر ٹی کے تھامس نے دی وائر کو بتایا، ان سالوں میں ہم نے دیسی تکنیک کی ترقی کے لئے کافی محنت کی ہے اور آخرکار ہماری محنت نے رنگ دکھانا شروع کیا ہے۔ اس سال ہمارے پاس 1000 کروڑ کے آرڈرز ہیں اور ہم اگلےسال کم سے کم ا س کے دو گنے کی امید کر رہے ہیں۔ ‘
سی ای ایل اپنے بننے کے بعد سے زیادہ تر وقت نقصان میں چلی ہے، لیکن پچھلے پانچ سالوں میں حکومت کی طرف سے کوئی حالیہ بحالی پیکیج کے بغیر اس نے فائدہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ملازمین کو بھروسہ ہے کہ یہ ٹرینڈ بنا رہےگا۔سی ای ایل ملازم یونین کے جنرل سکریٹری ویریندر کمار سنگھ کا کہنا ہے، بجلی کی فراہمی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے علاوہ ہم حساس دفاعی آرڈر سے جڑے ہیں جن کو پرائیویٹ کمپنیوں کو منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔ہم ایسے مصنوعات کےامپورٹ پر ہندوستان کے انحصار کو کم کرنا چاہتے ہیں، جن کی پیداوار ہم اپنے یہاں کرنے کے اہل ہیں اور ‘میک ان انڈیا’ کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس مہارت اور وسائل ہیں اور ہم اس کوامپورٹس سے کافی کم خرچ پر کر سکتے ہیں۔ ہمیں بس حکومت کی حمایت کی ضرورت ہے۔ نجی کاری کی خبر نے صرف ہمیں مایوس کرنے کا ہی کام کیا ہے۔ ‘
ملازم سی ای ایل کو ‘قومی ورثہ’ کیوں کہتے ہیں؟
سی ای ایل کو اسٹریٹجک اوزاروں اور کل-پرزوں کے ڈیزائن، ترقی اور فراہمی میں اپنی مہارت کے لئے کافی تعریفیں ملی ہیں۔ اس نے شمسی توانائی اور ریلوے سگنلنگ نظام کے سیکٹر میں کافی اہم کام کیا ہے۔اس کو 2017 میں انسٹی ٹیوٹ آف اکانومک اسٹڈیز کے’لیڈرشپ انوویشن ایوارڈ‘اور 2016 میں اس وقت کے بجلی وزیر پیوش گوئل کے ہاتھوں دئے گئے انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اکاؤنٹس آف انڈیا کے ‘نیشنل ایوارڈ فار ایکسیلنس ان کاسٹ مینجمنٹ‘ کے علاوہ کئی انعامات ملے ہیں۔
شمسی توانائی کے سیکٹر میں، دنیا بھر میں جس طرف دلچسپی بڑھ رہی ہے، سی ای ایل کی مصنوعات عالمی معیارات پر کھرے اترتے ہیں۔ اس نے 1977 میں ہندوستان کے پہلے شمسی سیل اور 1978 میں پہلے شمسی پینل کی ترقی کی اور 1992 میں ہندوستان کے پہلے شمسی کارخانے تنصیب کی۔زیادہ حال میں اس نے 2015 میں خاص طور پر سواری ریل گاڑیوں کی چھتوں پر استعمال کرنے کے لئے پہلے کرسٹلائن فلیکسیبل سولر پینل تیار کیا۔ لیکن، سولر فوٹووالٹک سیکٹر میں سی ای ایل کے کام کاج کو چینی مصنوعات کے ساتھ مقابلہ کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ایک ملازم نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا، ‘پیداواری لاگت کو کم کرنے اور اختراعات پر زیادہ سرمایہ کاری کرنے میں سرکاری گرانٹ ہماری مدد کر سکتی تھی۔شمسی توانائی ہماری مہارت ہے اور ہم پرائیویٹ حریفوں کے برعکس بہترین معیار کی گارنٹی دے سکتے ہیں۔ ہماری حوصلہ افزائی کرنے کی جگہ حکومت ہم سے چھٹکارا پانے کی اسکیم بنا رہی ہے۔ ‘
وزیر اعظم نریندر مودی نے ذاتی طور پر صاف توانائی کی وکالت کرتے ہوئے انٹرنیشنل سولر ایلائنس کو پیرس مذاکرہ کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے اور قومی شمسی مشن کو حال کے 22 گیگاواٹ سے بڑھاکر 2022 تک 100 گیگاواٹ کر دیا ہے۔اس ملازم کا کہنا ہے،ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان اس کے پاس دستیاب تمام مینوفیکچرنگ اور انوویشن صلاحیت کا استعمال کر سکتا تھا، اس سیکٹر میں اہم ترین کردار نبھانے والا ایک سرکاری ادارہ کو بیچا کیوں جا رہا ہے؟ ‘
شمسی توانائی اور ریلوے حفاظتی نظام کے علاوہ سی ای ایل ہندوستان کے دفاعی محکمہ جات کے لئے اوزاروں اور کل-پرزے تیار کرنے کے لئے ڈی آر ڈی او اور ہندوستان الیکٹرانکس لمیٹڈ(بیل)کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہے۔
بیچنے کے مقصد کو لےکر ملازمین کے اندیشے
یہ پوچھے جانے پر کہ حکومت کے اس قدم کے پیچھے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے، ملازمین کا الزام ہے کہ اس کا تعلق سینٹرل پرائیوٹ انٹرپرائزز کے لئے کسی اصل تشویش سے نہ ہوکر سیاستدانوں اور پالیسی میکرس کے ذاتی فائدے سے ہے۔سی ای ایل کے پاس نئی دہلی کے قریب قومی راجدھانی علاقے میں 241614 مربع یارڈ(تقریباً50 ایکڑ)کی اہم جگہ پر بیش قیمتی زمین ہے۔ملازمین کو ڈر ہے کہ کچھ سالوں کے بعد یہ کمپنی شاید بند کر دی جائےگی اور اس کے نئے مالک یا تو اس پر تالا لگا دیںگے یا اس زمین کا استعمال دوسرے مقاصد کے لئے کریںگے۔
ملازمین کے خدشہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ‘ایکسپریشن آف انٹریسٹ’کی دعوت کے دستاویز میں بولی لگانے والے کے لئے صرف دو اہم ضروری اہلیت رکھی گئی ہے-مارچ، 2018 کو ان کی کم از کم کل جائیداد(نیٹ ورتھ) 50 کروڑ ہونی چاہیے اور 31 مارچ، 2018 کو ان کی عمر کم سے کم تین مالی سال کی ہونی چاہیے۔دی وائر نے اس دعویٰ کی تصدیق کرنے کے لئے ابتدائی انفارمیشن نوٹس اور ستمبر، 2018 میں جاری ای او آئی کو حاصل کیا ہے۔
تھامس نے دی وائر کو بتایا،انہوں نے ای او آئی دستاویز میں ریسرچ اور ترقی یا مینوفیکچرنگ میں کسی سابقہ تجربے کی مانگ نہیں کی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ سی ای ایل ایسے پرائیویٹ کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں جا سکتی ہے جس کے یہاں ہمارے ذریعے کئے جا رہے کام میں کوئی دلچسپی نہ ہو اور آخرکار ہمیں باہر کا راستہ دکھایا جا سکتا ہے۔ ‘
سرکاری جواب
ملازمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی شکایتوں کے ساتھ تمام متعلقہ افسروں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، لیکن ان کو کہیں سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا ہے۔سی ای ایل کے ملازمین کے ساتھ سائنس اور تکنیک کے وزیر ہرش وردھن کی ملاقات کے ایک ویڈیو میں، ہرش وردھن کو سی ای ایل کے Disinvestment کا مقابلہ ایئر انڈیا سے کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ‘حکومت صرف سی ای ایل میں ہی سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہے۔ ہمارے پاس ایئر انڈیا جیسی کمپنیاں بھی ہیں۔ ان کی مقابلے میں آپ کی کمپنی بہت چھوٹی ہے۔ ‘
یہ کہے جانے پر کہ ایئر انڈیا نقصان میں چل رہی ہے جبکہ سی ای ایل منافع کما رہی ہے، ان کو یہ دلیل دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ سی ای ایل بھی اپنے بننے کے بعد سے زیادہ تر وقتوں میں نقصان میں چلتی رہی ہے۔ اس کے بعد وہ ان کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ملازمین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر افسر اس کا ٹھیکرا نیتی آیوگ پر پھوڑ رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ مرکزی حکومت کی پالیسی کا فیصلہ ہے اور وہ اس معاملے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
ملازمین اس فیصلے کو واپس لئے جانے تک اپنے دھرنے کو جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر جلدی سے کوئی فیصلہ نہیں لیا جاتا ہے، تو وہ سنسد مارچ کرنے کے لئے مجبور ہو جائیںگے۔دی وائر نے سی ای ایل کے صدر اور ایڈمنسٹریٹو ڈائریکٹر نلین سنگھل، سی ایس آئی آر کے ڈائریکٹر جنرل شیکھر سی مانڈلے، نیتی آیوگ، ڈی ایس آئی آر، ڈی آئی پی اےایم کے افسروں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن اب تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ ان کا جواب آنے پر اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائےگا۔
Categories: خبریں