مجلس فروغ اردو ادب، دوحہ قطر کے ایوارڈ کو ادبی خدمات کے مستند اورباوقار اعتراف کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔اس سال ہندوستان کے ممتاز فکشن نگار سید محمد اشرف اور پاکستان کے ممتاز محقق اور عالم ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔
زمانہ قدیم سے شاعری کو تخلیقی تازہ کاری اور فنی ہنر مندی کا امتیازی نشان سمجھا جاتا رہا ہے ۔ انسان کے حسیاتی، جمالیاتی اور جذباتی وجود کا خمیر فنون لطیفہ ، علی الخصوص شاعری میں گہری دلچسپی سے اٹھا ہے۔ فن شعر پر قدرت کی پذیرائی عام طور پر کی جاتی ہے اور صاحبان اقتدار شعرا کی سرپرستی خود کے علم و ادب سے شغف کو منکشف کرنے والے سب سے مؤثر وسیلہ کے طور پر کرتے رہے۔ عوام بھی شعرا کی تحسین کو ایک پسندیدہ فعل سمجھتے ہیں۔ درباروں سے شعرا کی وابستگی اور عوامی مشاعروں کی مقبولیت اس اجمال کی تفصیل پر گواہ ہیں۔
شاعری کے مقابلے میں نثر کو سرکاری اورعوامی سطح پر لائق اعتنا کم ہی سمجھا جاتا ہے۔ تخلیقی نثر مثلاً افسانہ اور ناول کی تو عوامی سطح پر تحسین کی مثالیں ملتی ہیں مگر تنقید اور تحقیق کو عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ملک اور بیرون ملک میں ادب کے لیے مختص ایوارڈوں پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتاہے کہ نثر کے لیے کوئی ایوارڈ مخصوص نہیں کیا گیا۔ نثر سے بے اعتنائی کسی ایک مخصوص زبان تک محدود نہیں ہے اور کم وبیش یہی صورت اردو میں بھی نظر آتی ہے۔
مجلس فروغ اردو ادب، دوحہ قطر نے انعام او اعزاز کی اس مروجہ روش سے انحراف کرتے ہوئے دو نثر نگاروں کو فی کس ڈیڑھ لاکھ کی خطیر رقم پر مشتمل ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھا۔ ہر سال ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی نثر نگار کو اس ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد مدت سے جاری ہے۔ یہ ایوارڈ اردو کے ممتاز مزاح نگار اور صاحب طرز نثر نگار مشتاق احمد یوسفی کی ایما پر شروع کیے گئے تھے اور مجلس کے روح رواں محمد عتیق صاحب کے مطابق سب سے پہلا ایوارڈ پروفیسر آل احمد سرور (ہندوستان) اور احمد ندیم قاسمی (پاکستان)کو دیا گیا تھا اور اب تک کے ایوارڈ یافتگان میں اشفاق احمد، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، مختار مسعود، کالی داس گپتا رضا، جوگیندر پال، مغنی تبسم، گلزار، شوکت صدیقی، گوپی چندنارنگ، وارث علوی، جمیل جالبی، عبد اللہ حسین، رتن سنگھ، نثار احمد فاروقی، شریف حسین قاسمی، اسد محمد خاں، عطاء الحق قاسمی، مشرف عالم ذوقی اور عبدالصمد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
مجلس کے ایوارڈ کو ادبی خدمات کے مستند اورباوقار اعتراف کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ محمد عتیق صاحب کی ادارت میں ایک یادگار مجلہ بھی شائع کیا جاتا ہے جس میں ایورڈ یافتگان کا تعارف محض رسمی انداز میں نہیں کرایا جاتا بلکہ متعلقہ ادیب کی تخلیقات کے معروضی جائزے کو محیط ادبی مضامین بھی شائع کیے جاتے ہیں اور ایوارڈ حاصل کرنے والے ادیب کی تخلیقات کے اقتباسات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
اس سال ہندوستان کے ممتاز فکشن نگار سید محمد اشرف اور پاکستان کے ممتاز محقق اور عالم ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سید محمد اشرف ہمارے عہد کے ممتاز فکشن نگار ہیں جنہیں اس سے قبل ساہتیہ اکادمی اور اقبال سمان جیسے باوقار ایوارڈ مل چکےہیں۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ان کو افسانوی مجموعے ’’بادِ صباکا انتظار‘‘پر دیا گیاتھا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل سیدمحمد اشرف کا ناول’’آخری سواریاں‘‘ شائع ہوا ہے ۔ برصغیر کے ادبی حلقوں میں اس کی عام طور پر تحسین کی جارہی ہے۔
اس ناول کو عام طور پر تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی مشترکہ تہذیب اور مٹے ہوئے اقدار کے پہلو دار حتمی بیانیہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے مگر سید محمد اشرف نے گنگا جمنی تہذیب کے بعض نمایاں مظاہرکو اپنے تخلیقی ارتکاز کا محور نہیں بنایا ہے۔ ناول کے مطالعے سے منکشف ہوتا ہے کہ صدیوں پرانی تہذیب کا مفہوم محض یہ نہیں ہے کہ مسلمان اور ہندو رواداری اور خوش خلقی کے عمومی مظاہر کی پاسداری کریں اور عید، دیوالی اور اس نوع کے دیگر مذہبی تہواروں اور تقریبات کے موقع پر ایک دوسرے کے ہاں جا کر، مبارکباد دے کر اور مٹھائی کھا کر پڑوسی ہونے کے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ ناول مشترکہ تہذیب کے وسیع تر ثقافتی تناظر کو فنی شعور کے ساتھ اجاگر کرتا ہے۔
مجلس فروغ اردو ادب کے سووینیر میں اشرف کے دو افسانے ’طوفان‘ ، ’روگی‘ اور ان کے ناول ’’نمبردار کانیلا‘‘ کا اقتباس شامل ہے اور ممتاز افسانہ نگار پروفیسر طارق چھتاری کا مضمون ’’سید محمد اشرف: ماحول اور اپنی تخلیقات کے آئینہ میں‘‘ اور معروف فکشن نگار غضنفر کا خاکہ ’’شعاع رنگ رائیگاں‘‘ شامل ہیں۔ سووینیر میں اشرف کے افسانوں سے متعلق قرۃ العین کی یہ رائے بھی درج کی گئی ہے: ’’یہ ایک بڑے ہی گہرے کرائسس کا ادب ہے اور مصنف نے دکھوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر دکھ کی نگاہوں سے دکھ کا تماشہ کیا ہے۔ اس صدی کے اختتام پر ایک سفاک، بے حس ، بے علم جرائم پیشہ دنیا ظہورمیں آ چکی ہے، انسانوں کی کایاکلپ ہو رہی ہے، جب بھی اس نئی دنیا کی پنچ تنتر لکھی جائے گی، سید محمد اشرف کی چند کہانیاں اس میں ضرور جگہ پائیں گی‘‘۔
اردو تحقیق کو جن اہم نامو ں نے اعتبار بخشا ان میں حافظ محمود خاں شیرانی کا نام سر فہرست ہے۔مجلس فروغ اردو ادب نے اس سال اس ایوارڈ کے لیے محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرنی کے بیٹے ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کا انتخاب کیا جنہوں نے تحقیق و تدوین میں اپنے اسلاف کی درخشندہ روایات کو استحکام بخشا۔ ڈاکٹر مظہر شیرانی کا سب سے اہم تحقیقی کارنامہ مقالات حافظ محمود شیرانی کی ترتیب و تدوین ہے جس کی دس جلدیں شائع ہوئی ہیں۔ علاوہ بریں ، ڈاکٹر شیرانی کی پچاس سے زائد تحقیقی کتابیں اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔ انہوں نے احمد ندیم قاسمی، رشید حسن خان اور مرزا ادیب کے خطوط بھی مرتب کیے ہیں۔
ڈاکٹر شیرانی محض تحقیق کے شناور نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اپنی تخلیقی فطانت کے اظہارکے لیے خاکے بھی لکھے ہیں اور یہ خاکے بر صغیر کے موقر ادبی جریدے ’فنون‘ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ انہوں نے مشاہیر کے علاوہ عام اور گمنام کرداروں پر بھی بے مثال خاکے لکھے اور عوامی شہرت سے محروم ان عام انسانوں کے خاکے ان کی کتاب ’بے نشانوں کا نشان‘ میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر مظہر شیرانی کی قوت مشاہدہ اور زبان و بیان پر ان کی دسترس قابل رشک ہے۔ انہوں نے ریڈیو ڈھاکہ سے متعلق ایک کلاسیکی گلوکار مستان گاما (جن سے واقفیت عام نہیں ہے)پر ایک بہت دلچسپ خاکہ لکھا ہے جو زبان پر ان کی ماہرانہ قدرت اور موسیقی کے رموز و نکات سے ان کی گہری واقفیت کو ظاہر کرتا ہے ؛
’ ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ سے منسلک ایک کلاسیکی گویے تھے مستان گاما۔ ریڈیو کے پندرہ روزہ رسالے آہنگ میں ان کا فوٹو چھپا تھا۔ پکا رنگ، کترواں داڑھی، درویشانہ وضع قطع اور موسیقی کے نشے میں غرق معلوم ہوتے تھے، گویا اسم بامسمّی تھے۔ باتیں ذرا رک رک کر کرتے تھے اور لہجے میں امریکنوں کی طرح ہلکی سی غناہٹ تھی۔ عجب بات یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں واقعات کی تصویر کشی میں مزاحم ہونے کے بجائے معاون ثابت ہوتی تھیں۔‘
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کے علمی، ادبی اور تحقیقی اکتباسات پر روشنی ڈالنے کے لیے ممتاز ناقد شاعر خورشید رضوی اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے مضامین شامل ہیں۔اس مجلے میں ڈاکٹر شیرانی کا مشفق خواجہ پر بے مثال خاکہ ’’بن ٹھن کے کہاں چلے‘‘ شائع ہواہے۔یہ مجلہ نہ صرف ڈاکٹر محمود شیرانی کی گرانقدر علمی، تحقیقی اور ادبی خدمات کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کرتا ہے بلکہ سید محمد اشرف کے فن کے مبسوط جائزہ سے بھی ہم کو واقف کراتا ہے۔ اس نوع کی ادبی تقریب اور باوقار یادگاری مجلہ کی اشاعت اردو ادب کے لیے ایک فال نیک ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
Categories: ادبستان