ہریانہ کے فریدآباد کی ایک نابالغ دلت لڑکی کا الزام ہے کہ اغوا کرنے کے بعد ڈیڑھ لاکھ روپے میں اس کاسودا کر کےجبراً شادی کروائی گئی، جس کے بعد لگاتار ریپ کیا گیا۔ پولیس میں معاملہ درج ہونے کے بعد اثر ورسوخ والے ملزم معاملہ واپس لینے کا دباؤ بنا رہے ہیں۔
میں ایک لڑکی ہوں، لیکن مجھے مویشیوں کی طرح بیچا گیا اور میرے جسم کو نوچا گیا۔ میری شادی بھی جبراً کروائی گئی۔ جس سے شادی کروائی گئی، اس نے تو میرے ساتھ ریپ کیا ہی، اس کے چھوٹے بھائی نے بھی میرے ساتھ ریپ کیا۔ دونوں بھائی باری باری سے میرا ریپ کرتے تھے۔
یہ کہنا ہے ہریانہ کے فریدآباد کی 17 سالہ نہا(تبدیل شدہ نام )کا،جن کا الزام ہے کہ اس کو تین مہینوں تک گروی بناکر رکھا گیا، لگاتارریپ کیاگیا اور ڈیڑھ لاکھ روپے میں بیچکر اس کی جبراً شادی کروائی گئی۔نہا کے رشتہ داروں کا یہ بھی الزام ہے کہ پولیس میں معاملہ جانے کے بعد اب ملزمین کے رشتہ داروں کے ذریعے دھمکاکر معاملہ واپس لینے کا دباؤ بنایا جا رہا ہے۔نہا نے بتایا کہ معاملے کی شروعات 24 اگست 2018 کی شام کو تب ہوئی، جب وہ ایک پہچان والے آدمی سے ملنے گئی تھیں۔ نہا اس شخص ونود عرف ونئے گرجر کو دو مہینے سے جانتی تھیں اور اس نے نہا سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے بتایا،اس شام ونئے نے مجھے فریدآباد کے آکاش ہوٹل کے باہر ملنے بلایا اور وہاں سے مجھے کار میں بٹھاکر اپنے دفتر لے گیا۔ وہاں لے جاکر اس نے مجھے جبراً شراب پلائی اورریپ کیا۔نہا کے رشتہ دار بتاتے ہیں کہ نہا 24 اگست کی شام گھر سے باہر گئی تھی اور واپس نہیں لوٹی۔ اس بارے میں فیملی نے فریدآباد کوتوالی میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔ نہا کے پھوپھا وجے (تبدیل شدہ نام) بتاتے ہیں کہ اس کے بعد 20 نومبر کو ان کی بیٹی پلول میں ملیں۔
نہا کی آپ بیتی
نہا کا الزام ہے کہ ان تین مہینوں کے دوران اس کو الگ الگ جگہوں پر گروی بناکر رکھا گیا، باقاعدگی سے الگ الگ لوگوں نے ریپ کیا اور اذیتیں دی گئیں۔ نہا کا یہ بھی الزام ہے کہ اس کو پلول کے ایک تمسرا گاؤں میں ڈیڑھ لاکھ روپے میں بیچکر جبراً شادی کروائی گئی۔اس نے بتایا، فریدآباد کے دفتر میں ونئے نے مجھے قریب ڈیڑھ مہینے تک گروی بناکر رکھا۔ اس دوران وہ مجھے ہر دن زبردستی شراب پلاتا۔ اس کے بعد نشے کی حالت میں میرے ساتھ ریپ ہوتا تھا۔ ‘
نہا نے بتایا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کون کیا کر رہا ہے۔ مجھے صرف یہ سمجھ میں آتا تھا کہ میرے ساتھ غلط کام ہو رہا ہے۔ مجھے بند کرکے رکھا جاتا تھا۔نہا کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ان کو جسانا گاؤں کے ایک جوڑے کے حوالے کر دیا گیا، جہاں اس کو گروی بناکر رکھا گیا اور بد سلوکی کی گئی۔
انہوں نے بتایا،تقریباً ڈیڑھ مہینے اپنے پاس رکھنے کے بعد ونئے نے مجھے جسانا گاؤں کے ویجیندر عرف ہلن کو سونپ دیا، جہاں اس کے گھر پر مجھے 8 دن گروی بناکر رکھا گیا۔ وہاں اس کی بیوی متھلیش بھی تھی، جو میرے ساتھ بد سلوکی کرتی تھی۔ ایک وقت کھانے کو دیتے تھے اور باقی ٹائم کمرے میں بند رکھتے تھے۔ ایک دن میں نے سنا کہ وہ پلول میں کہیں ڈیڑھ لاکھ روپے میں میرا سودا کرنے والے ہیں۔نہا نے ہلن کے گھر پربدسلوکی کی بات کہی، لیکن یہ بھی واضح کیا کہ یہاں اس کے ساتھ ریپ یا کوئی جنسی زیادتی نہیں کی گئی۔
ہریانہ اور خرید کی بہو کا چلن
خواتین کی حفاظت اور بیٹی بچاؤ کے نعرے کے درمیان ہریانہ کی ایک سچائی ریاست کے جنسی تناسب سے سامنے آتی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق یہاں 1000 مردوں پر 879 خواتین تھیں، جو 940 کے قومی اوسط سے کافی کم ہے۔گزشتہ ایک دہائی میں ریاست میں باہری ریاستوں سے لڑکیاں لاکر یا جبراً شادی کرنے کا رجحان غیر متوقع طور پر بڑھا ہے۔ کئی ریسرچ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خراب جنسی شرح ہی ریاست میں ہونے والی شادیوں کو متاثر کرتی ہے اور یہ جبراً یا خریدکر لائی گئی خواتین سے شادی کے طور پر سامنے آتی ہے۔
ہریانہ میں‘مول کی بہو ‘ یا ‘پارو ‘ ایسی ہی خواتین کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ 2013 کے ایک مطالعے کے مطابق 10000 گھروں پر کئے گئے ایک سروے میں سامنے آیا تھا کہ ریاست میں تقریباً 9000 شادی شدہ خواتین باہری ریاستوں سے لائی گئی تھیں۔اس طرح کی شادیاں اور خواتین کی اسمگلنگ ہندوستانی قانون کی نظر میں جرم کے زمرےمیں آتی ہیں، لیکن پھر بھی ایسا لگاتار ہو رہا ہے اور وقت وقت پر میڈیا ایسی خواتین کی ظلم و ستم کی داستان پیش کرتاہے۔
جبراً شادیوں کے علاوہ خواتین کے خلاف جرائم کے معاملے میں بھی ہریانہ کا ریکارڈ کچھ بہتر نہیں ہے۔ این سی آر بی کی 2016 کی رپورٹ میں گینگ ریپ کے معاملوں میں ہریانہ سرفہرست تھا۔اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ریاست میں ہر دو دن میں ایک گینگ ریپ ہوتا ہے۔ نہا کی آپ بیتی انہی اعداد و شمار کی تصدیق کرتی دکھائی دیتی ہے۔نہا نے آگے بتایا کہ جسانا گاؤں سے ہلن اس کو گروگرام لےکر گیا جہاں کسی مندر میں جبراً اس کی شادی پلول کے تمسر گاؤں کے جسبیر سے کروائی گئی۔ اس شادی کے وقت اس کی عمر 19 سال بتائی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ پنجابی ہے۔
شادی کے دوران ہلن کے علاوہ جسبیر کی بہن سرتا بھی موجود تھیں۔ نہا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے عوض میں جسبیر نے ہلن کو ڈیڑھ لاکھ روپے دئے تھے۔ اس کے بعد اس کو جسبیر کے گاؤں تمسر لے جایا گیا۔نہا بتاتی ہیں کہ یہاں اس کے ظلم وستم کی ایک الگ کہانی شروع ہوئی۔ جسبیر کے گھر میں اس کی ماں دیاوتی اور بھائی راہل رہتے تھے۔ نہا بتاتی ہیں کہ جسبیر ان کے ساتھ زبردستی جسمانی تعلق بناتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا چھوٹا بھائی راہل بھی اس کے ساتھ ریپ کرتا تھا۔
نہا بتاتی ہیں، دونوں بھائی باری باری سے میرے ساتھ ریپ کرتے تھے۔ میرے ساتھ مارپیٹ کی جاتی۔ میں ان کی ماں دیاوتی سے کہتی مجھے گھر جانا ہے تو وہ میری نہیں سنتی۔ مجھے پیٹا جاتا۔ ہر بات پر ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ تجھ کو تو خریدکرلائے ہیں، پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے دے، پھر جا، جہاں جانا ہے۔نہا نے بتایا کہ ایسا ہی چلتا رہا کہ ایک دن (20 نومبر کو)اس نے چوری چھپے دیاوتی کے فون سے 100 نمبر پر ڈائل کرکے پولیس کو بلا لیا۔ لیکن پولیس کے پہنچنے پر دیاوتی نے میاں بیوی کا آپسی جھگڑا بتاکر ان کو واپس لوٹانے کی کوشش کی۔
اس بیچ نہا نے اپنے ہاتھ کی نبض کاٹنے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس وہاں رکی اور نہا سے پوچھ تاچھ کی۔ نہا کی آپ بیتی سنکر اس کے کہنے پر پولیس نے پلول میں ہی رہنے والے نہا کے پھوپھا وجے کو فون کر کے بلایا۔وجے بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے پلول پولیس کو بتایا کہ نہا 24 اگست سے لاپتہ تھی اور اس کو اپنے گھر لے گئے۔ اس کے ساتھ ہی فریدآباد پولیس کو بھی مطلع کیا گیا، جہاں 21 نومبر کو نہا کو بلاکر اس کا بیان لیا گیا۔
اسی شام ایس پی اور مجسٹریٹ کے سامنے اس کا بیان درج ہوا، ساتھ ہی میڈیکل جانچ کے لئے ضلع ہسپتال بھیجا گیا۔نہا نے اپنی شکایت میں ونئے، ہلّن، اس کی بیوی متھلیش، جسبیر، اس کے بھائی راہل اور ماں دیاوتی کا نام لیا ہے۔ فریدآباد پولیس نے 23 نومبر کو راہل کو گرفتار کر لیا تھا اور اب تک وہ پولیس حراست میں ہے۔پولیس کو دئے بیان میں راہل نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ نہا سے جسبیر کی شادی کے لئے ہلّن کو ڈیڑھ لاکھ روپے دئے گئے تھے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی قبول کیا کہ جسبیر اور وہ نہا کے ساتھ ریپ کیا کرتے تھے، جس میں ان کی ماں دیاوتی بھی ساتھ دیتی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دیگر تمام ملزم فرار ہیں۔ پولیس نے راہل کے خلاف فرد جرم بھی دائر کر دیا ہے، جس میں اس پر پاکسو ایکٹ کی دفعہ 6 سمیت تعزیرات ہند کی دفعہ 363 (اغوا)، 366 اے (نابالغ لڑکی کو گروی بنانا)، 370 (انسانی اسمگلر کے طور پر کسی آدمی کو خریدنا یا بیچنا)، 342(غلط طریقے سے قید کرنے کے لئے سزا)اور ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس کا ‘عدم تعاون ‘اور ملزمین کی دھمکیاں
نہا کی ماں بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر میکینک کا کام کرتے ہیں اور بمشکل مہینے کے 8سے9 ہزار روپے کماتے ہیں۔انہوں نے بتایا، جب اگست کی اس شام نہا نہیں لوٹی تب ہم نے اسی شام فریدآباد کوتوالی میں شکایت درج کروائی، لیکن پولیس نے ایف آئی آر 15 ستمبر کو درج کی۔وہ کہتی ہیں، ہم نے تو سوچا کہ نہ جانے ہماری بیٹی کہاں چلی گئی، کیا ہو گیا، لیکن جب ا س کے پھوپھا نے ہمیں بتایا کہ یہ مل گئی ہے اور اس کے ساتھ یہ سب ہوا، تو ہمارے پیروں تلے زمین خسک گئی۔ ہم اب کچھ نہیں چاہتے بس ہمیں انصاف چاہیے۔ اور پولیس نے ہماری بچی نہیں ڈھونڈی بلکہ اتفاق سے وہ مل گئی۔ اس کے ساتھ اتنا ظلم ہوا اور انتظامیہ اس کو انصاف دلانےکی نیت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے والد اس واقعہ کے بعد ٹوٹ چکے ہیں اور شراب کے نشے میں رہتے ہیں۔ ہمیں تو بس انصاف چاہیے اور قصورواروں کو سزا دلوانی ہے۔
وجے بتاتے ہیں، جب سے یہ معاملہ پولیس کے علم میں آیا، تب سے میں سمجھ چکا تھا کہ نہا اب محفوظ نہیں ہے اور اس لئے میں نے اس کو، اس کے گھروالوں کو اپنے گھر بلا لیا اور کسی کو بتایا نہیں۔ پر پتہ نہیں کیسے ان لوگوں کو میرے دفتر کا پتا پڑ گیا اور وہ وہاں بھی آنے لگے۔ پہلے تو معاملہ نپٹانے کے لئے بولتے تھے، پھر ہلن کی بیوی متھلیش ایک دن دفتر آئی اور کہنے لگی کہ میرے شوہر کا نام واپس لے لو ورنہ میں زہر کھا لوںگی۔
نہا کی ماں کہتی ہیں،ہم اپنے گھر نہیں لوٹ پا رہے ہیں کیونکہ وہ لوگ ہمیں دھمکا رہے ہیں۔ ملزم فریدآباد کے رسوخ دار فیملیوں سے ہیں اور جس کی وجہ سے ہمارا گھر لوٹنا خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ جب تک وہ تمام گرفتار نہیں ہو جاتے، تب تک ہمارا گھر لوٹنا ممکن نہیں ہے۔وجے بتاتے ہیں، ملزم ونئے کا بہنوئی، جو ٹیگاؤں کا سرپنچ ہے، وہ بھی کچھ لوگوں کے ساتھ میرے دفتر آکر دھمکی بھرے لہجے میں معاملہ واپس لینے کا دباؤ بناتا رہا۔ وہ لےدےکر معاملے کو ختم کرنے کی بات کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا، ایک بار پولیس نے نشاندہی کرنے کے لئے فریدآباد تھانے بلایا اور اس کے بعد ہماری غیرموجودگی میں 10سے15 آدمی ہمارے گھر پلول پہنچ گئے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ جب جب ہم پولیس کے پاس معاملے کے بارے میں بات کرنے جاتے تھے، تو اسی وقت 20سے25 آدمی ہمارے گھر پہنچ جاتے۔وجے کا کہنا ہے،فریدآباد میں نہا کا گھر جس علاقے میں ہے، وہ گرجر اکثریت علاقہ ہے اور ملزم بھی اسی کمیونٹی سے ہے۔ ہم دلت سماج سے ہیں اور ایسے میں اس علاقے میں بھی جانے سے ڈر لگتا ہے۔
نہا کے رشتہ داروں نے پولیس کے عدم تعاون بھرے رویے پر بھی سوال کھڑے کئے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ پولس تفتیش میں تعاون نہیں کر رہی ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ جب انہوں نے فریدآباد کوتوالی میں ایف آئی آر اور میڈیکل جانچ کی کاپی مانگی تب انسپکٹر مکیش نے اس کو دینے سے انکار کر دیا۔ رشتہ داروں کے زور دینے پر انہوں نے کہا کہ جاؤ کورٹ سے لے لو، یہاں نہیں ملےگا۔وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ایک مقامی وکیل کو لےکر تھانے گئے اور پولیس سے ایف آئی آر، میڈیکل جانچ اور مجسٹریٹ کے سامنے دئے گئے بیان کی کاپی مانگی، تو پولیس نے وکیل کو بھی کاپی دینے سے منع کر دیا۔
نہا کی فیملی کا کہنا ہے کہ وہ نہا کی حفاظت کو لےکر فکرمند ہیں۔ وجے کہتے ہیں،ہمیں اپنی بیٹی کی حفاظت کے لئے بہت خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ پولیس کا رویہ اس معاملے میں بےحد کمزور ہے اور ان میں انصاف دینے کی نیت نہیں دکھتی۔فیملی کا کہنا ہے کیونکہ ملزم پیسے والے اور رسوخ دار فیملی سے ہیں، اس لئے ان کے معاملے میں پولیس اس طرح سے کام نہیں کر رہی ہے، جیسا اس کو کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی الزام ہے کہ معاملے سے ملزم خواتین کا نام نکالا جا رہا ہے۔
فریدآباد کے پولیس کمشنر سنجے سنگھ نے 29 جنوری کو نہا کے رشتہ داروں سے ملاقات کی تھی۔ فیملی کا کہنا ہے کہ انہوں نے انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے اور خواتین کا نام معاملے سے نکالے جانے کی بات پر تفتیش کرنے کی بات کہی ہے۔حالانکہ اس بیچ یہ تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ راہل کے علاوہ کن لوگوں کو ایف آئی آر میں ملزم بنایا گیا ہے۔نہا کے پھوپھا وجے نے بتایا کہ فریدآباد کوتوالی کے ایس ایچ او بھارت بھوشن اور اے سی پی (خاتون سیل) پوجا ڈاولا نے ایف آئی آر اور میڈیکل جانچ کی کاپی دینے سے یہ کہہکر انکار کیا کہ گمشدگی کے ایف آئی آر میں جو بھی جوڑا گیا ہے، وہ پولیس ڈائری کا حصہ ہے، جس کو شیئر نہیں کیا جا سکتا۔
پولیس کا ایف آئی آر دینے سے انکار
جب دی وائر کے ذریعے فریدآباد پولس سے ایف آئی آر کی کاپی مانگی گئی، تب اس سے انکار کر دیا گیا۔ فریدآباد کوتوالی کے ایس ایچ او بھارت بھوشن نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ہم ابھی معاملے کی جانچکر رہے ہیں اور اس معاملے کو لےکر ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل بھی کی گئی ہے۔ معاملے میں ایک ملزم راہل کی گرفتاری ہوئی اور اس کی چارج شیٹ بھی دائر کی جا چکی ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملزمین پر تعزیرات ہندکی دفعہ 363، 366 اے، 376ڈی(گینگ ریپ)، 370،دفعہ 120بی(مجرمانہ سازش)، پاکسو ایکٹ اور ایس سی/ایس ٹی کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
انسپکٹر بھارت بھوشن کا کہنا ہے کہ تمام ملزمین کے خلاف وارنٹ نکالا جا چکا ہے، وہ تمام فرار ہیں اور پولیس تلاشکر رہی ہے۔حالانکہ انہوں نے بھی اس بارے میں جانکاری نہیں دی کہ کن کن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ اے سی پی پوجا ڈاولا کو سونپا گیا ہے اور باقی جانکاری ان سے لی جا سکتی ہے۔دی وائر کے ذریعے جب اے سی پی پوجا ڈاولا سے رابطہ کیا گیا تب پہلے انہوں نے یہ کہتے ہوئے بات کرنے سے منع کر دیا کہ ایسے معاملوں کی رپورٹنگ نہیں کی جا سکتی۔
جب ان کو بتایا گیا کہ حکومت کی ہدایات متاثرہ اور اس کے رشتہ داروں کی پہچان کی رازداری کو لےکر ہے، معاملے کو لےکر نہیں تب انہوں نے کہا، ہم نے ایس آئی ٹی تشکیل کی ہے اور ہر روز چھاپے مار رہے ہیں۔ تمام ملزمین کو جلد گرفتار کر لیا جائےگا۔ڈاولا سے ایف آئی آر کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے کہا، جو پہلی گمشدگی کی رپورٹ لکھوائی گئی تھی، وہ عوامی ہے۔ باقی پورے معاملے کو پولیس ڈائری میں لکھا گیا ہے اور اس کو عام نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ان سے جب ملزمین کے ناموں کی تصدیق کرنے کو کہا گیا، تب انہوں نے کہا کہ متاثرہ نے جن لوگوں کا نام لیا ہے، ان سبھی کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ڈاولا نے آگے کہا، ابھی معاملے کی تفتیش چل رہی ہے اور ہم جلدہی ا س کے نتیجہ پر پہنچیںگے۔ ایسے معاملوں میں ابھی زیادہ کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
Categories: گراؤنڈ رپورٹ