فکر و نظر

ایسا کیا ہے جس نے کشمیر کو’جنازوں کا شہر‘ بنا دیا ہے؟

اگر جذباتی ہو کر نعرے لگانے  اور گالیاں بکنے سے فرصت مل جائے تو ہمیں اپنے حکمرانوں سے پوچھنا چاہیے کہ کشمیر کو لے کر ان کی پالیسی کیا ہے؟ کیوں کشمیر آج بھی’جنازوں کا شہر‘ بنا ہوا ہے؟ کیا ہم یہ  پوچھ سکتے ہیں، شاید نہیں کیونکہ ہمارے  اندر ہندو مسلم کا اتنا زہر بھر دیا گیا ہے کہ ہم  اس سے اوپراٹھ کر سوچ ہی نہیں سکتے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

میں کشمیر اور کشمیر کی سیاست کے بارے میں نہیں جانتی۔ لیکن 14 فروری کو پلواما میں ہوئے حملے نے ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے،جس سے باہر نکلنا اس وقت میرے بس میں نہیں۔ 40 جوانوں کی موت …شہادت…،ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے ، ان سب  کے درمیان ایک کردار بار بار میرے سامنے آتا ہے اور کہتا ہے…میں موسیٰ کی بات کر رہی ہوں ،وہ کہتا ہے؛

ایک نہ ایک دن کشمیر بھی انڈیا کو خود کو اسی طرح تباہ کرنے پر مجبور کر دے گا۔ ہو سکتا ہے تب تک تم لوگ ہم سب کو اندھا کر چکو، ہم میں سے ہر آدمی کو، اپنی پیلیٹ گنوں سے۔ لیکن تمھارے پاس پھر بھی آنکھیں ہوں گی ، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم نے ہمارے ساتھ کیا کچھ کیا ہے۔ تم ہمیں تباہ نہیں کر رہے ہو۔بلکہ ہماری تعمیر کر رہے ہو۔ تباہ تو تم خود کو خود ہی کر رہے ہو۔(ص: 477)

موسیٰ ارندھتی رائے کے  ناول بے پناہ شادمانی کی مملکت (The Ministry of Utmost Happiness)کا ایک خیالی کردار ہے ، لیکن اس کی باتیں تخیلی نہیں ہیں ۔بہر کیف اس  ناول کو پڑھنے کے بعدسے ہی کشمیر کی سیاست اور وہاں کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کر تی رہی ہوں۔ اس ناول میں ملک کے مختلف  حصوں کی کہانیوں کے درمیان کشمیر اور اس کے نام  پر ہونے والی سیاست کو بہت بے باکی  سے پیش کیا گیا ہے۔

لیکن اس ناول کا تذکرہ یہاں کیوں ؟ اور ان  جوانوں کی موت کا اس ناول سے کیا رشتہ ہے؟ یوں تو رشتہ کچھ بھی نہیں ۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا میں کشمیر کی سیاست کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی، اس لیے سمجھنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ آج اچانک سبزی والے کے پاس کھڑا بندہ ،اس سے باتیں کرتے ہوئے مسلمانوں کو جن الفاظ سے نواز رہا تھا، اس سے مجھے لگا جیسے میں واقعی کشمیر کی سیاست ،اس کے مسئلے کو نہیں سمجھتی۔ یہاں سب کچھ اب ہندو –مسلم ہو گیا ہے۔ اور سارے مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمانوں کو قتل کر کے ان کی عورتوں سے ریپ کر کے حرامی بچے پیدا کیے جائیں؟

پتہ نہیں کیوں ایسے میں مجھے یہ ناول، اس کےکردار شدت سے یاد آئے۔ وہ سیاست جو کشمیر کوہمیشہ استعمال کرتی رہے گی اپنے مفاد میں اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ شہریوں  کی موت؟جوانوں کی شہادت؟ اور جنازے؟

ایسا کیا ہے جس نے کشمیر کو’جنازوں کا شہر‘ بنا دیا ہے۔ کشمیر کی آگ میں اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے والے یہ جانتے ہیں کہ اگر یہ آگ بجھ گئی تو شاید سب سے زیادہ نقصان انھیں کا ہوگا۔ شاید اسی لیے وہ اس آگ کو جلائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی کرسی سلامت رہے۔ اور اقتدار کا کھیل جاری رہے۔ کیا اس کا کوئی حل ہے؟


یہ بھی پڑھیں:  پلواما حملے کے بعد کشمیر کے اصلی مدعے کو پھر سے نظرانداز کیا جا رہا ہے


 کب تک جوان اپنی جان قربان کرتے رہیں گے اور کب تک کشمیر ی عوام اس سیاست کی شکار رہے گی؟ شاید یہ سوال کوئی نہیں کرے گا۔ ہاں شاید ایک بار پھر جوانوں کی لاشیں بھی سیاسی درندے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ عوام کے جذبات کو سیاست کے لیے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔میڈیا، عوام کے جذبات،سب کچھ استعمال کیا جائے گا پھر میڈیا بھول جائے گا کہ کیا ہوا تھا، کیوں ہوا تھا اور شاید عوام بھی بھول جائے گی۔سب بھول جائیں گے لیکن جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے وہ یہ سب بھولیں گے؟ انھیں ان کے عزیزوں کی قربانی کے  بدلے معاوضہ کا اعلان کر کے حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپائے گی۔ انتخابات  میں دہشت گردی اور  ہندو مسلمانوں کے ٹاپک خوب استعمال کیے جائیں گے۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ کیونکہ سیاست  کا دھرم ستا ہے اور کچھ نہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

آپ ان باتوں کو میرا فرسٹریشن کہہ سکتے ہیں تب بھی میں یہی کہوں گی۔ سکیورٹی فورسز کی لاشوں پر سیاست کرنے کو آپ کیا کہیں گے؟ جو  جوان پلواما میں شہید ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے جذبے کو میں بھی سلام کرتی ہوں۔لیکن میں یہ سوال بھی کرنا چاہتی ہوں کہ ان سبھی لوگوں کی ڈیڈ باڈی کو کیا دہلی لانے سے زیادہ ضروری یہ نہیں تھا کہ ان کو ان کے عزیزوں تک پہنچایا جائے۔جو اپنے پیاروں کو گنوا چکے ہیں اور شاید ان کے آخری دیدار  کے لیے بے چینی سے اپنی آنکھوں کو رستہ بنائے بیٹھے تھے۔ کیا ان کی موت کا دکھ ان سیاست دانوں کو ان کے گھر والوں سے زیادہ ہے؟ شاید اس کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے۔ ہم  سب بھول جاتے ہیں صرف و ہی یاد رکھتے ہیں جنھوں نے اپنوں کو کھویا ہے۔

خود حکومت کے اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ 2014 سے 2018 کے درمیان شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد میں 94 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔ کیا اب بھی یہ سمجھنا مشکل ہے کہ سیاست کے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ اگر حکومت کو شہید ہونے والے جوانوں کی اتنی ہی فکر ہے تو یہ اعداد و شمار بڑھ کیوں رہے ہیں؟ صرف جموں کشمیر میں گزشتہ 4 سالوں میں دہشت گردانہ حملوں میں 177 فیصدی سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار بہت کچھ کہتے ہیں۔ اگر جذباتی ہو کر نعرے لگانے  اور گالیاں بکنے سے فرصت مل جائے تو ہمیں اپنے حکمرانوں سے پوچھنا چاہیے کہ کشمیر کو لے کر ان کی پالیسی کیا ہے؟ کیوں کشمیر آج بھی’جنازوں کا شہر‘ بنا ہوا ہے؟ کیا ہم یہ  پوچھ سکتے ہیں؟ شاید نہیں کیونکہ ہمارے اندر ہندو مسلم کا وہ زہر بھر دیا گیا ہے کہ ہم  اس سے اوپر اٹھ کر سوچ ہی نہیں سکتے۔

  جموں کے مسلمانوں پر حملے کی خبر آرہی ہےاور انہیں اپنے گھروں کو  چھوڑ کر مسجدوں میں  پناہ لینا پڑ  رہا ہے۔ تو کیا اس ملک کو، ہماری جمہوریت کو یہ سوچنانہیں  ہوگا کہ  ہم اپنے شہریوں کے لیے کتنے ایماندار ہیں۔کیا یہاں بھی  صرف بیان بازی ہوگی اور جوشیلے نعرے لگائے جائیں گے۔ اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو سمجھنا چاہیے کہ دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

سیاست دانوں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ  عوام اور اس کے جذبات کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ آج ماحول ایسا ہے کہ میری بڑی  بہن کو کہنا پڑتا ہے کہ راستے میں سلام مت کیا کرو، اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم مسلمان ہو۔ یہ کیسا ڈر ہے؟ کیا ہم سب اسی ڈر کے ساتھ جینے کے عادی ہو گئے ہیں۔ کیا اس طرح ہم اس ڈر کو صحیح ثابت نہیں کر رہے؟ ہاں شاید یہ ڈر صحیح بھی ہے کہ حکومت بھی پاکستان سے الگ دہشت گردی کو تصور ہی  نہیں کر پاتی۔ اس کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کرنا چاہتی ۔ کشمیر کو آج اپنے ہمدرد اور مخلص حکمراں کی ضرورت ہے ۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

میں یہ نہیں کہتی کہ پاکستان کا ہاتھ اس میں نہیں ہو سکتا یا نہیں ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟کیا پبلک ریلیاں کر کے عوام کے جذبات کو استعمال کرنا بھر ہے؟جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک خود یہ بات مان رہے ہیں کہ غلطی صرف انٹلی جنس کی نہیں ،غلطی ہم سے بھی ہوئی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ان غلطیوں کا سلسلہ تھمتا کیوں نہیں؟حکومت نے 11 جولائی 2018 کو ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ سی آر پی ایف کے جوانوں کو شہید کا درجہ نہیں دیا گیا ہے؟ پھر ان جوانوں کی شہادت کس خانے میں گئی ؟

کیا کسی مذہب کو گالی دے کر ،ہندو مسلم فسادات کرا کے یہ مسئلے حل ہو جائیں گے۔ کیا اصل مدعا یہی ہےکہ حملہ کرنے والا کس مذہب کا تھا؟ کیا مذہب کو سیاست  نے اتنا بڑا بنا دیا ہے کہ اب ہر سوال یہیں سے شروع ہو کر یہیں ختم ہونے لگا ہے؟ اگر آپ کی سوچ ایسی ہے تو کوئی خدا، کوئی بھگوان آپ کی سوچ نہیں بدل سکتاکہ اندھی آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں۔