آخر کیوں مقامی کشمیری، جو نسبتاً پڑھے لکھے اور بھرے پرے ہیں، اس طرح اپنی جان داؤ پر لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں؟
پلواما میں 14 فروری کو سی آر پی ایف کے قافلے پر فدائین حملے نے ایک بار پھر ہندوستان کو اس بات کا احساس کرایا ہے کہ پچھلے ایک سال میں دہشت گردوں کے خلاف حفاظتی دستہ کی کامیابیوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جموں اور کشمیر میں سب کچھ صحیح ہے۔لیکن اس حملے کے بعد ٹی وی اور دوسرے ذرائع میں ہونے والے بحث و مباحثے کے گمراہ کن رویے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ہم ابھی بھی مسائل کی طرف صحیح طریقے سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ فی الحال ہم ایک اکادمک بحث سے روبرو ہیں، جس میں ماہرین اپنی بات کو مضبوطی سے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں-لیکن اس سے ملک کو کوئی بھی مدد نہیں ملنے والی۔
ماہرین کے ذریعے جن مسائل پر زور دیا جا رہا ہے، ان میں سے کچھ اس طرح ہیں :
جیش محمد کے مسعود اظہر اور اس کا بچاؤ کرنے میں چین کا کردار
استعمال کئے گئے دھماکہ خیز مواد کی تشویشناک مقدار-جو مبینہ طور پر 350 کلوگرام تھا۔
دہشت گردوں کو مبینہ طور پر بڑھاوا دینے میں جموں اور کشمیر کے سیاسی جماعتوں کا کردار۔
جموں سے سرینگر تک زمین کے راستے سے جوانوں کے نقل وحمل میں لازمی طور سے شامل جوکھم اور ہوائی راستے سے فوجیوں کےنقل وحمل کی ضرورت۔
وہ Geo-strategicحالات، جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ افغانستان سے باہر نکلنے والا ہے، جبکہ ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔
فوجیوں کی ٹریننگ یا ٹریننگ کی کمی، جس کا نتیجہ کمزور آر او پی( روڈ اوپننگ پارٹی)ڈیوٹی کے طور پر نکلا۔
دہشت گردوں کے ذریعے نئی حکمت عملی کے تحت دھماکہ خیزمواد سے بھری گاڑی کا استعمال۔
اس میں کوئی شک نہیں یہ تشویش واجب ہیں، لیکن یہ اس کہاوت کو پختہ کرتی ہیں کہ جب آپ کے پاس صرف ایک نظریہ ہوتا ہے، تب آپ ہر مسئلہ کو اسی چشمے سے دیکھتے ہیں۔ ماہرین کی عادت کسی مسئلہ کو اپنی مہارت کے تناظر میں دیکھنے کی ہوتی ہے۔اصلی سوال یہ ہے کہ آخر وہ ایک مسئلہ کیا ہے، جس کو حل کرنے سے سب سے بہتر نتائج حاصل ہوںگے؟جمعرات کا حملہ آور پلواما کا عادل احمد تھا۔ وہ پاکستانی نہیں تھا، نہ ہی وہ پاکستان مقبوضہ کشمیر سے آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 2018 کشمیر کے لئے اس دہائی کا سب سے خونی سال کیوں ثابت ہوا ؟
میرا ماننا ہے کہ احمد کے خودکش دھماکہ سے ہوئے خون خرابے سے سامنے آیا اہم سوال یہ ہے؛ آخر مقامی کشمیری، جن میں سے کئی پڑھے لکھے اور بھرے پرے ہیں ، اس طرح سے اپنی جان دینے کے لئے کیوں تیار ہیں؟اگر اس سوال کا تھوڑا ہی صحیح، جواب دے دیا جاتا ہے، تو باقی ساری چیزوں کا بھی حل نکل جائےگا۔ میں نے ایک بھی ماہر کو، جن میں جموں اور کشمیر کے سیاستدان بھی شامل ہیں، اس اصل مسئلے پر بات کرتے ہوئے نہیں سنا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ان میں یہ ڈر ہو کہ اس وقت عوام کاجذبہ اس طرح کا ہے کہ جو کوئی بھی اس راستے پر چلےگا، وہ ہمدردی اور اس سے بھی بڑھکر ووٹ گنوا بیٹھےگا۔
ہندوستان نے پہلے ہی پاکستان کے موسٹ فیورڈ نیشن کے کاروباری درجے کو رد کر دیا ہے۔ جس وقت میں یہ لکھ رہا ہوں، وزیر اعظم کو ٹی وی پر کہتے ہوئے سن رہا ہوں، ‘عوام کا خون کھول رہا ہے۔ یہ قربانی بےکار نہیں جائےگی۔ ہم سبھی کو سیاست سے اوپر اٹھنا چاہیے۔ ‘میں تہہ دل سے وزیر اعظم کے آخری بیان سے اتفاق رکھتا ہوں۔ ہم سب کو سیاست سے اوپر اٹھنا چاہیے، جو بس ووٹ کا دوسرا نام ہے۔
یہاں کون-سی سیاست ہے؟ یہ اصل مسئلے سے یا ایک مرکزی حل کی طرف سے آنکھیں موندنا ہے کیونکہ ان کے بارے میں بات کرنے سے عوامی حمایت یا ووٹ کا نقصان ہونے کا امکان ہے۔راہل گاندھی نے پہلے ہی اپوزیشن کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کہہکر مدافعتی رخ اختیار کر لیا ہے۔ کوئی بھی جوکھم مول نہیں لے رہا ہے۔ لیکن اس کا خمیازہ ہندوستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
زیادہ ووٹ کی خواہش کے سامنے ملک پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ ایسا لگاتار ہو رہا ہے-لیکن ایک دن ایسا آئےگا، جب ہمارے پاس اس کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی اور چارا نہیں ہوگا۔تب تک ہم دوسری سرجیکل اسٹرائک کی اسکیم بنا سکتے ہیں، مانو اس سے جموں و کشمیر میں کشمیری-جو بھی ہندوستان کے شہری ہیں، کی کچھ شکایتوں کا حل ہو جائےگا۔
ان کو اس بات سے ضرور پریشانی ہو رہی ہوگی کہ ان کی حکومت ملک کے دوسرے شہریوں کو مطمئن کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے، بھلےہی اس کے لئے اس کو قرض معاف کرنا پڑا، جس کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت معیشت میں نہیں ہے یا نوکری میں ریزرویشن کا ایسا اہتمام کرنا پڑے، جس کو آئین اور سپریم کورٹ سے منظوری نہیں ملےگی۔کشمیری کے لئے کچھ دینے کی بات کرنے کے لئے بھلےہی یہ معقول وقت نہ ہو، لیکن سوال اٹھا ہے کہ کیا ایسا وقت کبھی آئےگا بھی؟ بے شک اس مسئلہ کے پھر سے ابھرنے پر صحیح حالات پیدا ہو جائیں گے، جن سے اصل مدعے کا حل ہوگا۔
(مضمون نگار انڈین آرمی کے سابق کرنل ہیں۔)
Categories: فکر و نظر