موجودہ معاملےمیں اپنے گروہ کے غلطی کر رہے ساتھیوں کی طرفداری کے لئے بے تاب ارنب گوسوامی بہت آسانی سے یہ بھول گئے کہ اب بھی یونیورسٹی میں خبرسازی کےلئے اجازت ضروری ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)ایک بارپھر سے طلبا ء کےدو گروپوں کے درمیان محاذ آرائی کے کچھ واقعات اور پھر طلباء اور سیکورٹی ملازمین کا ری پبلک ٹی وی کے عملہ کے ساتھ ہوئے جھگڑے کے بعد خود کو اختلافات کے گھیرے میں محسوس کررہی ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی یکےبعد دیگرےبحث میں الجھتی نظر آئی ہے خاص طور پر پچھلے کچھ عرصوں میں،یہی معاملہ12 فروری کی صبح میں پیش آیا۔
اس سلسلے میں14 طلباء جس میں علی گڑھ مسسلم یونیورسٹی طلباء یونین کے تین عہدیداران بھی شامل ہیں، بی جے پی کی یوتھ ونگ کے ضلع صدر مکیش لودی اور ایک نیوز چینل کےصحافی کے ذریعہ کی گئی شکایت کی بنیاد پرسیڈیشن اور دوسرے الزامات لگائے گئے ہیں۔ حلانکہ اب پولیس کا کہنا ہے کہ، طلباء کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ نہیں بنتا۔
یہاں کم ازکم دو باتیں قابل غور ہیں۔ پہلا،ری پبلک ٹی وی نے علی گڑھ سےرپورٹنگ کا غیراخلاقی رویہ اختیار کیا جب انہوں نے ناظرین کو یہ بتایاکہ وہ الہٰ آباد سے سیدھے خبر سازی کر رہے تھے۔دوسرا، کسی کو بھی یونیورسٹی کے اندر کسی تقریب یا واقع کی خبر سازی کرنے یا یونیورسٹی احاطے میں جہاز اتارنے کے واسطے یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کی ضرورت ہے۔ ری پبلک ٹی وی معاملے میں یونیورسٹی میں داخل ہونےکےلئے اجازت کا مسئلہ تھا۔طلباء نے اس بات کی تصدیق کی ہے، حالانکہ دونوں صحافیوں نے انکار کر دیا کہ نلنی شرما نے خبر سازی کی شروعات یہ کہتے ہوئے کی کہ’ہم لوگ دہشت گردوں کی یونیورسٹی سےسیدھے خبرسازی کر رہےہیں۔’شام کے شو میں ری پبلک ٹی وی کے اینکر نے اسٹوڈیو میں دقیانوسی الفاظ استعمال کرتے ہوئےطلباء کو جناح اور دہشت گردوں کا ہمدرد بتایا۔بعد میں رات کے وقت ارنب گوسوامی نے اپنےبالکل ہی جارحانہ طریقے سے یورنیورسٹی اور طلباء کو بدنام کیا۔
ارنب، ری پبلک ٹی وی اور اےایم یو
اپنے غیر مہذب انداز اور بی جےپی کے تئیں تقریباً ہرمعاملے میں حمایتی رویّے کی وجہ کرارنب گو سوامی کا ری پبلک ٹی وی بدنام زمانہ ہے ۔ اےایم یو میں اس کے ہتک آمیز طریقے جہاں اگر کوئی اس کی بات سے تھوڑا بھی اتفاق نہ کرے تو موقع نہ دینےکے سبب یونیورسٹی کے نمائندے اکثرارنب کے شو میں نہیں جاتے۔ جب طلباء نے ری پبلک کے عملے سے شرافت سے جانے کے لئے کہا تو اس کا تعلق ری پبلک ٹی وی کے عام موقف سے نہیں تھا اور نیشنل ٹی وی پر مناسب طریقے سےنہ دکھائے جانے کے احساس سے تھا۔
حالانکہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ارنب گوسوامی نےہمیشہ یونیوورسٹی کو منفی طریقے سے ہی پیش کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو تنازعہ : جناح کے بہانے یونیورسٹی پر نشانہ
2014 میں جب مقامی بی جےپی نے پارلیامنٹ کے ممبر ،جناب ستیش گوتم کی سرپرستی میں ،جاٹ راجامہیندر پرتاپ،جو کہ اےایم یو کے سابق طالب علم تھے، کی مورتی یونیورسٹی میں لگانے کےلئے زبردستی یونیورسٹی میں گھسنے کی دھمکی دے کرفرقہ وارانہ جذبات بھڑکایاتھا،تب یہ ارنب کاہی پروگرام تھا جس نے بی جےپی پر اس معاملے کو ختم کرنےکے لئے بہت زوردیاتھا اس پروگرام میں ارنب نے یہ کہہ کر بی جےپی کی تمام دلیلوں کوختم کردیاتھا کہ یونیورسٹی ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس طرح کوئی بھی یونیورسٹی کی دہلیز میں مداخلت نہیں کر سکتا۔کم از کم پارلیامنٹ کا ایک ذمہ دار ممبر تو بالکل نہیں۔موجودہ معاملےمیں اپنے گروہ کے غلطی کر رہے ساتھیوں کی طرفداری کے لئے بے تاب ارنب بہت آسانی سے یہ بھول گئے کہ اب بھی یونیورسٹی میں خبرسازی کےلئے کسی کو بھی اجازت لینا ضروری ہے۔
2019 انتخابات ،انتشار کی سیاست اور مقامی عناصر
فرقہ وارانہ روایات کوقائم کرنےکےلئے یونیورسٹی قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر اہم ہو جاتی ہے۔جہاں یونیورسٹی کا اقلیتی کردار اور گزشتہ سو برسوں میں اِس کی کارِمنصبی،خصوصاً ملک کے بٹوارےسےمتعلق،قومی سطح پر ناقص روایات قائم کرنے کے لئے بارہا استعمال کیاجاتارہاہے۔وہیں مقامی سیاسی رقابت نے بھی یونیورسٹی پر غیر ضروری نشان ِ راہ ڈالنے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ علی گڑھ سے پارلیامنٹ کےممبر جناب ستیش گوتم ،جو کہ علی گڑھ کےلئے ایک نئے امیدوار کی طرح تھے اور مقامی بی جےپی کے گروپوں کو قبول نہیں تھے،اور اپنی مقررہ مدت میں نہ کے برابرکام کیا ہے۔ وہ ہمیشہ یونیورسٹی کونشانہ بنا کر فرقہ وارانہ مسائل کھڑا کرکے میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ چند مہینے قبل جناح کی تصویرکا بالکل ہی غیر اہم مسئلہ ان کا کھڑاکیا ہوا ہے۔
یہ مسئلہ کرناٹک اسمبلی انتخابات سے قبل چند ٹی وی چینلوں کے ذریعہ پانچ گھنٹہ کی اس مسئلہ پر بحث چلانے کے لئے اٹھالیا گیاتھا۔ان تمام میڈیا چینلوں کے پاس اس وقت ذرابھی موقع نہیں تھاجب ہندوسبھا کی سرپرست علی گڑھ کی پوجا پانڈے نے مہاتما گاندھی کے پتلے کو گولی ماری تھی ۔
بی جےپی کے دوسرے ممکن رہنما ،یونیورسٹی میں قانون کے طالب علم اور بی جےپی ایم ایل اے کے پوتےٹھاکر اجے سنگھ گزشتہ ایک برس میں فرقہ وارانہ سیاست میں آگے آ رہے ہیں۔ ابھی موجودہ معاملے میں اِن کے اُوپر مبینہ طور پر الزام ہے کہ انہوں نےبی جے پی کارکن کےایک گروہ کو ،جو کہ غیر قانونی طریقے سے کیمپس میں داخل ہوئےتھےتیار کیا۔ان کےداخل ہونے کےسبب طلباءکےدرمیان محاذ آرائی ہوئی۔اجے سنگھ یوم جمہوریہ سے دو دن قبل یونیورسٹی سے اجازت لئے بغیر اپنے گروہ کےساتھ ترنگا یاترا نکالنے کے لئے بھی خبروں میں رہے تھے۔ یومِ جمہوریہ کے موقع پر یونیورسٹی بہت سارے پروگرام کا انعقاد کرتی ہے جس میں جھنڈا پھہرانا، مشاعرہ،مضمون نگاری مقابلہ اور دوسرے پروگرام شامل ہیں۔ اس طرح ترنگا یااترا کاانعقاد کرناصرف میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کےلئے تھا۔ یہ بھی یاد کریں کہ ایک سال قبل یوم جمہوریہ کے موقع پر کاس گنج میں ترنگا یاترا کی وجہ سے فرقہ وارانہ فساد بھی ہوئے تھے۔اجے کی 2018کےطلباء یونین انتخابات میں شکشت ہوئی تھی۔
اتفاقاً،ری پبلک ٹی وی نے ہی اجے کی ترنگا یاترا کامعاملہ سب سے پہلے اٹھایا تھا۔یہاں پر12فروری 2019 کے قبل اور بعد میں واقعات کاسلسلہ پیش آیا ہے۔اس سے متعلق کچھ اور سوال اٹھتے ہیں۔اگریہ ذرا بھی چینل اور اےایم یو طلباء/اےایم یو سیکورٹی ملازمین کے درمیان تنازعہ تھا تو پھرکیوں اور کیسے یہ دائیں بازوکے کارکنوں بنام اےایم یوطلباءبن گیا؟ کیادائیں بازو کی تنظیموں اور رپی بلک ٹی وی کی کوئی خفیہ سازش چل رہی ہے؟
ویڈیو: کیا اے ایم یو کو جے این یو کی طرح نشانہ بنایا جارہا ہے؟
کیااس پہلو کی تفتیش ضروری نہیں ہے؟کیا ایسا نہیں لگتاہے کہ اس واقعےکے ذریعہ اجے سنگھ اورمکیش لودی اپنےسیاسی مقاصد کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہےہیں؟مذکورہ چینل کیوں شروعاتی دنوں سے ہی ایسے معاملات پر ہی گفتگوکرتا آرہا ہے؟علی گڑھ پولیس اےایم یو کی شکایت کی بنیاد پر ری پبلک بھارت ٹی وی کے مداخلت کرنےوالے اور دائیں بازوکے بدمعاشوں کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کررہی؟کیا اس سے تعصب کی بو نہیں آتی کہ ان کی طرف سے(بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کے مکیش لودی) کی گئی ایف آئی آر دج کرلی گئی۔ جس کی بناپر بغاوت کے الزامات لگے جو اب ہٹا لئے گئے ہیں؟لیکن یہ حقیقت کہ الزامات لگائے گئے تھےجوپولیس کی نیت پر بڑا سوال کھڑا کرتی ہے۔
مکیش لودی وہ ہےجس نے ایک ہفتے قبل اےایم یو کےآگے 15 دن کے اندرکیمپس میں مندر بنانے کی شرط رکھی تھا۔اس کی تفتیش ہوناضروری ہے کہ کس کی گاڑیاں جلائی گئیں؟ یہ گاڑیاں کیمپس کےاندر کیسے آئیں؟ کس نے جلایا ان گاڑیوں کو؟دوسرے کئی معاملات جیسے کھانے میں بیف استعمال کرنے کی بے بنیاد افواہ یا رمضان میں ہندو طلباء کے بھوکے رہنے کی بات کا بھی استعمال ماضی میں کیمپس کا ماحول بگاڑنےکے لئےکیاگیا۔
دوسرے طلباء رہنمابھی اپنے سیاسی مقاصدرکھتے ہیں اور صوبائی اور قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنےکےلئے بیتاب ہیں۔12فروری کی طلباء یونین میں اسدالدین اویسی کے شرکت کرنے کی بھی غیر مصدقہ خبریں تھیں،بلکہ اجے سنگھ اور مقا می بی جےپی حلقہ نے اویسی کوروکنے کےلئے ہی ایک گروہ کو تیار کیا تھا۔
حالانکہ طلباء کے عہد یداران نےکہا کہ جناب اویسی کی شرکت کے کوئی امکانات نہیں تھے۔ یہاں پر اسد الدین اویسی کی مسلمان نوجوانوں سے اپیل پر سوال کیا جا سکتا ہے۔حال کے برسوں میں بی جے پی کے مسلم مخالف رویوں کے بعد دوسری سیاسی پارٹیاں بھی مسلمانوں کے اندر اعتماد پیدا نہیں کر پائی ہیں۔اکثر سیاسی پارٹیوں سے دوری کی وجہ کر مسلمان نوجوانوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ اپنی شکایتیں سنانے کےلئے اویسی کی طرف دیکھتا ہے، جبکہ ان کا ریکارڈ جذبات انگیز اور انتشار پسند رہنمائی کاہے۔
اے ایم یو کو دیکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اےایم یو کم سےکم2019 انتخابات تک نشانے پر رہے گی۔
(محمد عاصم صدیقی اور محمد سجاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر