نریندر مودی حکومت کی پچھلی کئی اسکیموں کی طرح یہ نئی اسکیم بھی دکھاتی ہے کہ لٹین دہلی اصلی ہندوستان کی سچائی سے کتنی دور ہے۔
این ڈی اے حکومت نے انتخاب سے پہلے اپنے آخری بجٹ میں ان آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لئے ایک پنشن اسکیم اعلان کیا ہے۔مبالغہ آرائی کی عادت کی وجہ سے اس اسکیم کو دنیا کی سب سے بڑی پنشن اسکیم بتایا جا رہا ہے جس سے 10 کروڑ لوگ مستفید ہوںگے۔ یہاں پر مودی حکومت کے شروعاتی سالوں میں اس طبقے کے لئے شروع کی گئی اسکیموں پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا۔ان میں اہم ہے شرمیو جیتے اور اٹل پنشن یوجنا ۔ شرمیو جیتے اسکیم کے تحت ہرایک ان آرگنائزڈ مزدور کو ایک سماجی حفاظتی کارڈ (ان آرگنائزڈمزدور پہچان نمبر کارڈ)دیا جانا تھا۔
منٹ اخبار کی فروری 2015 کی رپورٹ کے مطابق مزدوروں کو اس مخصوص شناختی کارڈ کے ذریعے سماجی حفاظت دی جائےگی جس میں پنشن بھی شامل ہوگی۔ بی جے پی کے وزراء نے میلہ لگاکر ایسے ہزاروں لاکھوں فارم جمع کئے جو اب دھول کھا رہے ہیں۔اس نئی اسکیم کا حشر بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ اس نئی اسکیم کے جیسے مقاصد کی طرح ہی9 مئی 2015 کو اٹل پنشن یوجنا شروع کی گئی۔ اسکیم کا ہدف تھا کہ دسمبر 2015 تک 2.2 کروڑ لوگوں تک پہنچانا۔ طےشدہ تاریخ تک اس ہدف کا 6.5 فیصدہی حاصل ہو پایا۔
شروع ہونے کے تین سال بعد اسکیم میں 1.1 کروڑ لوگ شامل ہیں۔ یہ یقینی طور پر ایک بڑی تعداد ہے لیکن این ایس ایس او کا 66 واں دائرہ 2011سے12 کے مطابق ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والے 41.6 کروڑ مزدوروں کی تعداد کا بہت چھوٹا حصہ۔یہ آج کے وقت کا المیہ ہے کہ انتخاب سے پہلے سیاسی سرجیکل اسٹرائک کرنے کی جلدی میں حکومت نے پرانی فیل اسکیم جیسی ہی ایک نئی اسکیم کااعلان کر دیا۔
ناقابل عمل ہدف
نئی اسکیم کی دو اہم بنیادوں پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ پہلی تو یہ کہ مزدوروں کے ذریعے دی جانے والی خدمات ان کے روزگار سے نہیں جڑی ہے اور پوری طرح رضاکارانہ ہیں۔کئی وجہوں سے جس کا نیچے ذکر کیا گیا ہے، اس بات کا پورا امکان ہے کہ مزدور اس اسکیم میں پیسہ جمع کرنے کے لئے آگے نہ آئے۔ دوسری وجہ ہے کہ 60 سال کی عمر تک جب پنشن کا فائدہ ملنا شروع ہوگا، مزدوروں کی ایک بڑی تعداد یہ فائدہ اٹھانے کے لئے زندہ نہیں ہوگی۔
پوری دنیا میں اور ہندوستان میں بھی، سماجی حفاظتی اسکیمیں روزگار سے جڑی ہوتی ہیں۔ سماجی حفاظت کے لئے مزدوروں کی تنخواہ سے کٹوتی ہوتی ہے اور کچھ پیسہ تقرری کرنے والا دیتا ہے۔ لیکن نئی اسکیم میں ساری خدمات مزدوروں کی ہے۔مزدوروں سے یہ امید کرنا کہ وہ بیس سے تیس سال تک باقاعدگی سے اپنی شراکت جمع کریںگے، بالکل عملی نہیں ہوگا۔ ریاست کا اس معاملے میں ریکارڈ اتنا خراب ہے اور اتنا مزدور مخالف ہے کہ مزدور ایسی اسکیم میں جس میں 20سے30 سال بعد فائدہ ملنا شروع ہوگا، اپنی گاڑھی محنت کی کمائی کبھی نہیں لگائےگا۔
مثال کے لئے آج بھی لاکھوں ٹھیکہ مزدوروں کا پرویڈنٹ فنڈ کا حصہ کاٹکر جمع ہوتا ہے لیکن مزدوروں کو اس کی جانکاری نہیں ہوتی۔ ملازم پرویڈنٹ فنڈ تنظیم کے پاس ان آرگنائزڈ مزدوروں کا سیکڑو کروڑوں روپیہ پڑا ہے، جس کو کوئی لینے والا نہیں۔ایک اور مثال کے طور پر، تقریباً تمام ریاستوں نے اس طرح کی شراکت کرنے والی پنشن اسکیمیں شروع کی۔ آج ان میں سے زیادہ تر اسکیمیں بند پڑی ہیں اور مزدوروں کا پیسہ ان میں پھنسا پڑا ہے۔
اسکیم کی تنقید کی دوسری اہم بنیاد ہے کہ زیادہ تر مزدور جو 20 سے 30 سال تک قسط بھریں گے 60 سال کی عمر تک اسکیم کا فائدہ اٹھانے کے لئے زندہ نہیں رہیںگے۔ یہ دکھاتا ہے کہ لٹین دہلی اصلی ہندوستان کی سچائی سے کتنی دور ہے۔60 سال کی عمر متوسط طبقہ کے لئے سبکدوشی کا فائدہ اٹھاناشروع کرنے کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن ان آرگنائزڈ سیکٹرمیں جی توڑ محنت کرنے والے اہلکاروں کے لئے بالکل ناقابل عمل ہے۔
فی الحال ہندوستان میں اوسط عمر 68.8 سال ہے۔ دیہی مردوں کے لئے یہ 65 سال ہے۔ لیکن ہندوستان میں اوسط عمر سماجی اقتصادی حالات پر منحصر ہے۔ایس سی –ایس ٹی میں اوسط عمر اعلیٰ متوسط طبقہ کے لوگوں میں کم ہوگی جبکہ زیادہ تران آرگنائزڈ مزدور اسی طبقے سے آتے ہیں۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے ایس کے موہنتی اور ایف رام کے ذریعے لکھے ریسرچ پیپر ‘ ہندوستان کے سماجی اقتصادی گروہوں میں پیدائش کی زندگی کی توقع ‘دکھلاتا ہے کہ 2006 میں فہرست شدہ قبائل میں اوسط عمر 60.3 سال کی تھی جبکہ اسی کمیونٹی میں غریب لوگوں کے لئے یہ 56.9 سال کی تھی۔
پچھلی دہائی میں اس میں کچھ اضافہ ہوا ہوگا، لیکن دوسری طرف مردوں کی عمر اور کم ہوگی۔ ان اعداد و شمار کو کئی طرح سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن ایک بات طے ہے ان آرگنائزڈ مزدوروں کا ایک بڑا طبقہ 60 سال کی عمر تک پنشن کا فائدہ اٹھانے کے لئے زندہ نہیں رہےگا۔حقیقت میں محنت کش مزدور جو تعمیر، اینٹ بھٹوں، کان میں کام کرتے ہیں ان کی اوسط عمر اور کم ہوگی۔ ایسے کسی بھی کام کے مقام کو دیکھنےپر معلوم پڑےگا کہ وہاں 40 سال کے اوپر کا کوئی مزدور کام نہیں کر رہا ہے۔ اس عمر کے بعد کام ملنا کم پڑ جاتا ہے۔
ان آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لئے پنشن اسکیم 55 سال یا اس سے بھی پہلے شروع ہونی چاہیے۔ تو کیا اس کا معنی یہ لگایا جائے کہ ان آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کو سماجی حفاظت دینا ممکن ہی نہیں ہے۔اصل میں ایسے ماڈل موجود ہیں جو اچھے سے کام کر رہے ہیں۔ مہاراشٹر ماتھاڈی اور دیگر جسمانی اہلکار ایکٹ (1969)اس طرح کے ماڈل کی مثال ہے۔ اس قانون کے تحت مہاراشٹر میں 30 ماتھاڈی بورڈ کارگزار ہیں جو لاکھوں حمال مزدوروں کو سماجی حفاظت عطا کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہاں بھی اس قانون کو کمزور کرنے کی کوشش چل رہی ہے۔
یہ قانون روزگار کو مستقل کرتا ہے، مزدور اور مالک کا تعلق قائم کرتا ہے اور سماجی حفاظت کو روزگار سے جوڑتا ہے۔یہ تین عناصر-روزگار کے ادارے، مالک مزدور سے تعلق اور سماجی حفاظت کے روزگار سے جڑاؤ-وہ تین محور ہیں جن پر ان آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کی سماجی حفاظت کا ڈھانچہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ان کے فقدان میں صرف جملےبازی ہی ہو سکتی ہیں۔
(سدھیر کمار کٹیار سینٹر فار لیبر ریسرچ اینڈ ایکشن، احمد آباد سے وابستہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر