حکومت نے پیغام دیا ہے کہ گالی اور دھمکیاں دینے والے ہمارے لوگ ہیں۔ان کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔اس کی یہ کارروائی ایک ایماندار اور باضمیر افسر کو مایوس کرتی ہے اور بد قماش لوگوں کی جماعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
گالیاں اور دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بات کرنے والوں کے لئے یہ اطلاع کیسی رہےگی۔ گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ دہرادون میں کنٹرولر آف کمیونی کیشن اکاؤنٹ آشیش جوشی نے ٹرول کرنے والوں کے خلاف ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدایت دئے ہیں کہ کارروائی کریں۔آشیش جوشی نے اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے پولیس کے سربراہ کو بھی لکھ دیا۔ یہی نہیں اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ای میل جاری کر دیا کہ جو کوئی بھی فون نمبر سے کسی کے ساتھ بیہودہ گوئی کرتا ہے، گالیاں دیتا ہے، وہ ان کو لکھ سکتا ہے۔
The inflammatory & incendiary video circulated by one Mr Kapil Mishra has been brought to the notice of Patnaik Sir! @CPDelhi . pic.twitter.com/7d62baw6pX
— Ashish Joshi (@acjoshi) February 25, 2019
مودی حکومت کے دور میں آشیش جوشی پہلے افسر تھے تو کھلکر عوام کے درمیان آئے اور ان کی مدد کی بات کی۔ ان کو اسی دن سسپینڈ کر دیا گیا جس دن ملک کو متحد ہوکر فخر کرنے کا پیغام دیا گیا۔ ان کو صحافیوں کو دھمکانے اور ماں-بہنوں کی گالیاں دینے والوں کے خلاف کارروائی کی سزا دی گئی ہے۔عوامی زندگی میں بیہودہ گوئی کے خلاف رائے رکھنے والوں کی یہ بڑی ہار ہے۔ حکومت نے ایسا کر کے سسٹم کو پیغام دیا ہے کہ گالی دینے والے اور دھمکیاں دینے والے ہمارے لوگ ہیں۔ ان کا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔
اس کی یہ کارروائی ایک ایماندار اور باضمیر افسر کو مایوس کرتی ہے اور بدقماش لوگوں کی جماعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ کم سے کم حکومت 26 فروری کو ایئر اسٹرائیک کی وطن پرستی کی آندھی کی آڑ میں یہ کارروائی نہیں کرتی۔آپ کی خاموشی کا ہر دن امتحان ہے۔ ہر دن آپ خود سے ہی ہار رہے ہیں۔ ٹرولنگ کو سیاسی تحفظ مل جائے تو یہ ہم لوگوں سے بھی زیادہ عام لوگوں کے خلاف ہو جاتی ہے۔ عام لوگ زیادہ غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔
آئی ٹی سیل ایک منظم گروپ ہے۔ جو سیاسی تحفظ، نظریہ اور ادھ کچری اطلاعات سے لیس ہے۔ آشیش جوشی کا جرم کیا تھا؟ اپنے غیر فعال عہدہ اور اصولوں کو بیدار کرکے انہوں نے عوام کو بھروسہ دینے کی کوشش کی کہ ایسے مجرمانہ عناصر کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔حال ہی میں اتر پردیش میں آئی پی ایس جسویر سنگھ کو سسپینڈ کر دیا گیا۔ ان کو میڈیا میں بولنے اور دفتر سے سرکاری طور پرغیر حاضر رہنے کے الزام میں معطل کیا گیا۔ جسویر سنگھ کو بھی سماج بھول گیا۔
وہ ایک ایماندار افسر مانے جاتے ہیں۔ رکن پارلیامان کے طور پر یوگی اور ایم ایل اے راجابھیا کےخلاف ان کی پرانی کارروائی کی سزا کئی سال بعد دی گئی ہے۔دفتر سے غیر حاضر رہنے پر سسپینڈ؟ اس بنیاد پر تو یوپی کیا کسی بھی ریاست میں ہر دن ہزاروں ملازم سسپینڈ ہو جائیں۔ آشیش جوشی کے لئے بھی اصولوں کی گول مول وضاحت کی گئی ہے۔ یہ افسر کے اقبال کی بے عزتی ہے۔
آئی اے ایس افسروں کی تنظیم چاپلوس لوگوں کی تنظیم ہے۔ لوگوں کو چندہ کرکے ایک جھال خریدنی چاہیے۔ یہ جھال آئی اے ایس افسروں کی تنظیم کو دے دینی چاہیے تاکہ وہ حکومت کے آگے بجاتے رہیں۔ اپنے زوال کو جھالکے شور میں جشن کی طرح پیش کرتے رہیں۔آشیش جوشی جیسے افسروں کی ایمانداری سرحد پر مستعید ایک فوجی کی جرأت کے برابر ہے۔ اپنا سب کچھ گنواکر ایماندار رہنے کے عمل سے گزرکر دیکھیے، پاگل ہو جائیںگے۔
ہم سب ہندوستان سے پیار کرتے ہیں۔ اس ہندوستان سے بھی پیار کیجئے جہاں ہر دن سسٹم کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ سرحد پہلے سے بہتر محفوظ ہیں تو سرحد کے اندر دھیان دیجئے۔ سیاسی اوراخلاقی رویے میں گالیوں اور افواہوں کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔اس لئے کہتا ہوں کہ ہندوستان کی جمہوریت میں امتحان کا وقت اس عوام کا ہے جو اپنے رہنماؤں کو سب کچھ سونپکر جمہوریت کو لےکر بےخبر ہونے لگی تھی۔
جو آشیش جوشی کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکیںگے، ان کے ساتھ بھی کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔ ایک دن وہ بھی اکیلے رہ جائیںگے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایماندار افسروں کو عوام چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا عوام بھی اس کو بےایمان اور چاپلوس نہیں بننے کی سزا دیتی ہے؟
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر