2016 – 2015 سےتین سال تک 10.4 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے پر ہی ہم زراعتی شعبے میں دوگنی آمدنی کے ہدف کو پا سکتے تھے۔ اس وقت یہ 2.9 فیصد ہے۔ مطلب صاف ہے ہدف تو چھوڑئیے، آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اب بھی اگر اس کو حاصل کرنا ہوگا تو باقی کے چار سال میں 15 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنی ہوگی جو کہ موجودہ آثار کے حساب سے ناممکن ہے۔
ہندوستان میں ورکنگ فورس کا 47 فیصد زراعت سے متعلق ہے۔ 2018سے19 میں زراعت، ماہی پروری،جنگل کی پیداوار کی جی وی اے 2.7 ہو گئی ہے۔ 2017سے18 میں 5 فیصد تھی۔ ایک سال میں 46 فیصد کی یہ کمی تشویشناک ہے۔یہ اعداد و شمار سینٹرل اسٹیٹسٹک آفس کے ہیں۔ زراعت کے معاملے میں اس سال کا گزشتہ سال سے موازنہ کرنے میں دقت ہوتی ہے کیونکہ 52 فیصد زراعت مانسون پر منحصر رہتی ہے۔ اس لئے پانچ سال کا اوسط دیکھا جاتا ہے۔
زراعتی ماہر اقتصادیات اشوک گلاٹی اور رنجنا رائے نے انڈین ایکسپریس میں پانچ سال کے اوسط کے حساب سے زراعتی شعبے کی آمدنی پر ایک لمبا مضمون لکھا ہے۔ دونوں ماہر اقتصادیات نے 04-2003-1998(واجپائی حکومت)، 05-2004سے 09-2008(یو پی اے-1)، 10-2009سے14-2013(یو پی اے-2)اور 15-2014 سے 19-2018(مودی حکومت) کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔زراعت کے معاملے میں مودی حکومت کا مظاہرہ اوسط ہے۔ ان کا اوسط مظاہرہ 2.9 فیصد ہے۔ نرسمہا راؤ حکومت کا اوسط مظاہرہ 2.4 فیصد تھا اور واجپائی حکومت کے وقت 2.9 فیصد،یو پی اے-1 کے وقت 3.1 فیصد اور یو پی اے-2 کے وقت 4.3 فیصد تھا۔
زراعت کے معاملے میں لمبے وقت کا اوسط اس لئے بھی بہتر تصویر پیش کرتا ہے کیونکہ کئی تدبیروں کا اثر دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ مودی حکومت 23-2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، اس روشنی میں بھی یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کی حکومت کی زراعتی شعبے میں کتنا اوسط مظاہرہ رہا ہے۔این اے بی اے آرڈی نے 16-2015 کے لئے ہندوستان کی اہم ریاستوں میں زراعت پر منحصر فیملی کی ماہوار آمدنی کا حساب نکالا ہے۔ پنجاب میں زراعت پر منحصر فیملی (agriculture household) کی آمدنی سب سے زیادہ 23133 روپے ہے اور یوپی میں 6668 روپے ہے۔
اتر پردیش میں یہ سب سے کم ہے۔ 16-2015کے لئے تمام ہندوستانی سطح پر اوسط ماہوار آمدنی 8931 روپے ہے۔ ایک کسان فیملی محض اتنا کماتی ہے۔ 03-2002 اور 16-2015میں اصل آمدنی کا کمپاؤنڈ اینول گروتھ تمام ہندوستانی سطح پر 3.7 ہی ہوتا ہے۔23-2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لئے ایکسپرٹ کمیٹی بنی ہے۔ اس کے چیف اشوک دلوائی کا اندازہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے زراعتی شعبے میں 10.4 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنی ہوگی۔
2015-16 سے تین سال تک 10.4 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے پر ہی ہم زراعتی شعبے میں دوگنی آمدنی کے ہدف کو پا سکتے تھے۔ اس وقت یہ 2.9 فیصد ہے۔ مطلب صاف ہے ہدف تو چھوڑئیے، آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔اب بھی اگر اس کو حاصل کرنا ہوگا تو باقی کے چار سال میں 15 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنی ہوگی جو کہ موجودہ آثار کے حساب سے ناممکن ہے۔
اشوک گلاٹی اور رنجنا رائے نے لکھا ہے کہ کسانوں کو 6000 روپے سالانہ دینے کی پالیسی کا بھی کوئی پختہ نتیجہ نہیں نکلتا دکھ رہا ہے۔ خواب دیکھنا اچھا ہے بشرطیکہ کوئی پورا کرنے کے لئے وسائل کو اکٹھا کرے۔ پوری طاقت سے اس میں جھونک دے۔مودی حکومت کے لئے وقت جا چکا ہے۔ زراعت میں آمدنی دوگنی کرنے کا نعرہ جھانسا ہی رہےگا۔
مودی کہتے ہیں کہ 2024 تک وہی وزیر اعظم ہوںگے۔ ہوںگے تو ان کی مدت کار کے دوسرے حصے میں بھی زراعت کی ناکامیابی منھ کھولے کھڑی رہےگی۔ کسان ہاہاکار کر رہے ہوںگے۔ان کو بھٹکانے کے لئے جنگ کا ناٹک رچا جا رہا ہوگا یا فرقہ پرستی کا ابال پیدا کیا جا رہا ہوگا۔ تب کسان دس سال کے وہاٹس ایپ میسیج پلٹکردیکھ رہے ہوںگے کہ انہوں نے اپنی زندگی کی ایک دہائی کن باتوں میں نکال دی۔
ریلی اور مظاہرہ کریںگے تو میڈیا ان کو غدار وطن اعلان کر دےگا اور پولیس لاٹھیوں سے ان کا حوصلہ توڑ چکی ہوگی۔ بات مودی یا کسی اور حکومت کی نہیں ہے، زراعت کی یہ حالت ملک میں جو عدم استحکام پیدا کرےگی، اس کی ہے۔ کیا کسانوں کو اس دھوکے کا پتہ بھی ہے؟
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر