آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں وزیر اعظم نریندر مودی بےروزگاری پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ پلواما کے بعد ایئر اسٹرائک ان کے لئے بہانہ بن گیا ہے۔راشٹر واد راشٹر واد کرتے ہوئے انتخاب نکال لیںگے اور اپنی جیتکے پیچھے خوفناک بےروزگاری چھوڑ جائیںگے۔
ایک طرف بےروزگاری بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف کام مانگنے والوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ کام مانگنے والوں کی تعداد کوLabour Participation Rate کہتے ہیں مطلب یہ ریٹ تبھی بڑھتا ہے جب کام ملنے کی امید ہو۔2018 کے مقابلے میں 2019 کے پہلے دو مہینے میں کام مانگنے والوں کی تعداد گھٹی ہے۔ سینٹر فار مانٹیرنگ انڈین اکانومی کی تازہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ Labour Participation Rate اب 43.2 سے 42.5 کے رینج میں ہی رہنے لگا ہے۔
دو سال تک اس شرح میں گراوٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بےروزگاری کتنی خوفناک شکل لے چکی ہے۔اب آپ اس طرح سے سمجھیے۔ کم لوگ کام مانگنے آ رہے ہیں تب بھی کام نہیں مل رہا ہے۔Labour Participation Rateکی گنتی میں 15 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ جنوری 2019 میں بےروزگاری کی شرح 7.1 فیصد تھی فروری میں بڑھکر7.2 فیصد ہو گئی ہے۔ فروری 2018 میں 5.9 فیصد تھی۔ فروری 2017 فروری میں 5 فیصد تھی۔
یہی حالت شرح نمو کی ہے۔ لگاتار گراوٹ ہی آتی جا رہی ہے۔ اقتصادی صورت حال میں گراوٹ کا اثر استعمال پر پڑا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں اقتصادی رفتار کافی بگڑی ہے۔ آج کے بزنس اسٹینڈرڈ میں نیل کنٹھ مشرا نے لکھا ہے۔ کچے تیل کے داموں میں کمی کے بعد بھی اقتصادی رفتار تیزی نہیں پکڑ سکی ہے۔ جبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ مودی حکومت میں اقتصادی شعبے میں بنیادی طورپر کئی ٹھوس قدم اٹھائے گئے مگر ان کا کوئی خاص اثر ہوتا نہیں دکھ رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن تبدیلیوں کو مثبت بتایا جا رہا ہے ان میں ہی بہت زیادہ امکان نہیں ہے۔
بینکوں کی حالت یہ ہے کہ ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کا سرمایہ دینے کے بعد بھی خاص سدھار نہیں ہے۔ بینک سرمایہ جمع کرنے کے لئے اپنے ملازمین پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ان کی ردی ہو چکے شیئر کو خریدیں۔ بینکر آئے دن اپنے دفتر کے حکم کی کاپی بھیجتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے بینک کا شیئر خریدنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔
ہندو مسلمان کے چکر میں بینکروں نے اپنے لئے غلامی اوڑھ لی۔ کمپنیاں شیئر دیتی ہیں لیکن 1500شیئر خریدنا ہی پڑےگا، پیسے نہیں ہوںگے تو لون لےکرخریدنا پڑےگا، یہ سیدھاسیدھا اقتصادی جرم ہے۔ جو مل گیا اس کو لُٹنے کا سسٹم ہے تاکہ بینکوں کے شیئر کو اچھلتا ہوا بتایا جا سکے۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں وزیر اعظم نریندر مودی بےروزگاری پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ پلواما کے بعد ایئر اسٹرائک ان کے لئے بہانہ بن گیا ہے۔راشٹر واد راشٹر واد کرتے ہوئے انتخاب نکال لیںگے اور اپنی جیتکے پیچھے خوفناک بےروزگاری چھوڑ جائیںگے۔وزیر اعظم کی ایک ہی حب الوطنی ہے جو انتخاب میں ‘جیت پریم’ ہے۔
مودی حکومت کے پانچ سال میں تعلیمی شعبے کا کباڑا ہوا۔ جو یو پی اے کے وقت سے ہوتا چلا آ رہا تھا۔ دہلی سے باہر کے کالجوں کی سطح پر کوئی اصلاح نہیں ہوا۔ کلاس روم بغیر اساتذہ کے چلتے رہے۔ایک سال پہلے بھی 13 پوائنٹ روسٹر سسٹم کے خلاف فرمان لایا جا سکتا تھا مگر اس کی وجہ سے حکومت کو یونیورسٹیوں میں نوکری نہیں دینے کا بہانہ مل گیا۔
پانچ سال میں یہ حکومت نئی تعلیم پالیسی نہیں لا سکی۔ امیر لوگوں کے لئے انسٹی ٹیوٹ آف امی ننس کا ڈراما کیا۔ مگر معمولی گھروں کے بچوں کو اچھا کالج ملے اس کے لئے وزیر اعظم مودی نے زیرو کوشش کی۔ آپ ہمیشہ مسکراتے رہو کے ٹیگ لائن کی طرح مسکراتے رہنے والے ایم ایچ آر ڈی منسٹر پرکاش جاوڈیکر سے بھی پوچھکے دیکھ لیجئے۔
انڈین کاؤنسل آف اگریکلچر ریسرچ کے 103 ادارے ہیں۔ ان میں سے 63 اداروں کے پاس 2 سے 4 سالوں سے باقاعدہ ڈائریکٹر نہیں ہے۔ آئی سی اے آر کا سالانہ بجٹ 8000 کروڑ ہے۔ 5 مارچ کے انڈین ایکسپریس میں چھپی خبر کے مطابق سابق زراعتی وزیر شرد پوار نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے۔
کیا آپ یقین کریںگے کہ دہلی میں جو پوسا انسٹی ٹیوٹ ہے وہاں پچھلے چار سال سے کوئی باقاعدہ ڈائریکٹر کی تقرری نہیں ہو سکی۔ 100 سے زیادہ پرانے اس ادارے کے ملک کےزراعتی تحقیقی نظام میں اہم ترین کردار رہا ہے۔ کرنال واقع نیشنل ڈیری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بھی ڈائریکٹر نہیں ہے۔ یہی نہیں ریسرچ کرنے والوں کے 350 عہدے ہیں مگر 55 فیصد خالی ہیں۔
اس ملک کی زراعت بحران میں ہے۔ کیا کسی کو نہیں دکھتا ہے کہ زراعت کو لےکر حکومت اتنی لاپرواہ کیسے ہو سکتی ہے؟ وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ پٹنہ میں مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد 400 بتا رہے تھے۔بہتر ہے دہشت گرد گننے کی جگہ وہ اپنے محکمے کا کام گنیں اور اس کو کریں۔ 103 ریسرچ اداروں میں سے 63 اداروں کا کوئی باقاعدہ ڈائریکٹر نہ ہو، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کی زراعت کو لےکے حکومت کتنی سنجیدہ ہے۔ تشہیرو توسیع کی بھی حد ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پوری حکومت کو پلواما کے بعد آپریشن بالاکوٹ بہانہ مل گیا ہے۔ پبلک کے درمیان جاکر اسی پر نعرے لگواکرسوالوں سے بچ نکلنا ہے۔ ملک کی سلامتی کو لےکر جتنا سوال اپوزیشن سے نہیں آ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کی اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے سلامتی کا سوال اہم ہو گیا ہے۔
بےروزگاری انتہا پر ہے۔ تعلیمی نظام چرمرا گیا ہے۔ زراعت میں کوئی اصلاح نہیں ہے۔ اب ایسے میں راشٹرواد ہی وزیر اعظم کی تقریر میں کچھ نیا پن پیدا کر سکتا ہے۔ مگر ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے راشٹرواد کا استعمال ہی بتا رہا ہے کہ وزیر اعظم کا راشٹرواد سچ سے بھاگنے کا راستہ ہے۔ ووٹ پانے کا راستہ ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر