ساہتیہ سنستھا کے جنرل سکریٹری دنیش چندر اوستھی نے کہا کہ سیاسی تنازعے سے بچنے کے لئے لکھنؤ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر روی کانت کے ایوارڈ کو ردکیا گیا۔
نئی دہلی: اتر پردیش کی لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکز اور ریاستی حکومتوں کے خلاف فیس بک پوسٹ لکھنے کی وجہ سے ان کا نام اتر پردیش حکومت کے ذریعے اسپانسر ایک ایوارڈ سے ہٹا دیا گیا۔ہندی کے اسسٹنٹ پروفیسر روی کانت کو راجیہ کرمچاری ساہتیہ سنستھا (State Employees Literary Association)کے ذریعے ہرسال دئے جانے والے رمن لال اگروال ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔
راجیہ کرمچاری ساہتیہ سنستھا ریاست کے سرکاری افسروں کا ایک گروپ ہے۔1996 میں قائم یہ ادارہ ہندی میں لکھنے والے مشہور ادیبوں کو ہر سال 25 سے زیادہ ایوارڈ دیتا ہے۔ حال ہی میں اس نے دو غیر ہندی شعرا یا ناول نگاروں کو بھی ایوارڈ دینا شروع کر دیا۔ ان میں سے زیادہ تر ایوارڈ ریاستی حکومت کے ذریعےا سپانسر ہیں۔
روی کانت کو اس مہینے کے آخر تک یہ ایوارڈ ملنا تھا۔ لیکن 6 مارچ کو فون کرکے ان کو جانکاری دی گئی کہ ان کا نام اس فہرست سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ادارہ نے ان کو بتایا کہ نئی دہلی واقع این جی او ہیومن اینڈ اینمل کرائم کنٹرول ایسوسی ایشن کے چیف مینجنگ ڈائریکٹر شیلندر سنگھ نے ان کے فیس بک پوسٹ پر اعتراض کیا۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے روی کانت نے کہا، ‘ مجھے 17 مارچ 2019 کو یہ ایوارڈ ملنے والا تھا۔ خط میں میرے فیس بک پوسٹ کا ذکر کیا گیا ہے جس سے مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی اتر پردیش اور مرکزی حکومت کے خلاف لکھنے کی وجہ سے مجھے سزا دی گئی ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ وہ ہندی رسالہ ادہن میں فرقہ پرستی کے خلاف ایک کالم لکھتے ہیں۔ گزشتہ سال راج کمل پرکاشن نے میری دو کتابیں آزادی اور راشٹرواد اور آج کے آئینے میں راشٹرواد شائع کی تھی۔ دونوں کتابیں بیسٹ سیلرس تھیں۔ ‘انہوں نے مزید کہا، ‘ اس لئے میرے سیاسی نظریہ سے عوام واقف ہے۔ مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ ادارہ نے ایک ایسے آدمی کی شکایت پر میرا ایوارڈ رد کر دیا جس کا ادب یا سوشل سائنس کی دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ‘
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ساہتیہ سنستھا کے جنرل سکریٹری دنیش چندر اوستھی نے کہا کہ سیاسی تنازعے سے بچنے کے لئے روی کانت کے ایوارڈ کو رد کیا گیا۔انہوں نے کہا، ‘ ہمیں پروفیسر سے کوئی ذاتی شکایت نہیں ہے لیکن جب ان کی نامزدگی کے خلاف اعتراضات کیے گئے، تو ہماری کمیٹی نے ان کا انعام رد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ ہم سبھی سرکاری ملازم ہیں۔ ہم ایک ایوارڈ کو لےکر کوئی تنازعہ نہیں چاہتے ہیں۔ ‘انہوں نے مزید کہا کہ ادارہ جو دیگر ایوارڈ دیتا ہے اس میں یہ ایسا ایوارڈ ہے جو مالی طور پر نجی اور خود مختارہے۔ رمن اگروال لکھنؤ کے مشہور شاعر ہیں۔ ان کے بیٹے نے گزشتہ سال اس انعام کی شروعات کی تھی اور اس کو ہمارے پلیٹ فارم سے دیا جاتا ہے۔انھوں نے کہا،’الہ آباد کے ہندی شاعر شلیش گوتم کو اب اس ایوارڈ کے لیے چنا گیا ہے۔’
Categories: فکر و نظر