ایران کی اسلامی حکومت آ ئے دن حقوق انسانی اور آزادی کے لئے آ واز بلند کرنے والے دانشوروں اور طلباء کو ہراساں کرتی رہتی ہے، یہ خبر سب سے زیا دہ افسوس ناک ہے۔
ایران کی مشہور حقو ق انسانی کی وکیل اور حقوق نسواں کی علم بردار نسرین ستودہ کو ملک کی عدالت نے گزشتہ سوموار کو 38 سال قید کی سزا سنائی ہے۔حکم یہ بھی ہوا ہے کہ انہیں 148کوڑے مارے جائیں۔نسرین ستودہ نے گزشتہ سال ایران کے لازمی ڈریس کوڈ یعنی حجاب کی مخالفت کی تھی۔ وہ خواتین کے اس گروپ کی نمائندہ تھیں، جنہوں نے حجاب کے لازمی استعمال کے خلاف مظاہرہ کیا تھا ۔
گزشتہ جون میں انہیں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر چھپی خبر کے مطابق عدالت نے انہیں سات الزامات میں قصور وار ٹھہرا یا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ڈائرکٹر فلپ لوتھر نے کہا ہے کہ ؛یہ نہایت ہی حیران کن بات ہے کہ نسرین ستودہ کو پر امن طور پرانسانی حقوق کے لئے کام کرنے اوران خواتین کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے ،جو لازمی حجاب کے خلاف مظاہر ہ کر رہی تھیں، قریب چار دہائی قید اور 148کوڑے کی سزا سنائی گئی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ حقوق انسانی کی وکیل کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے ذریعے اٹھا ئے گئے اس قدم کی چو طرفہ مذمت نہیں ہو رہی ہے۔دوسری طرف ، چونکہ یہ فرمان یا سزا اسلام کے نام پر سنائی گئی ہے،لہذا مسلم دانشوران اور خصوصی طور پر علماء کی جانب سے مذمت کی کسی خبر کا نہ آ نابھی تکلیف دہ ہے۔عینی زیدی نے اپنے فیس بک پیج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوے بجا لکھا ہے کہ عام طور پر بھارت کے مذہبی لیڈرز دنیا کے ہر کونے(فلسطین، عراق، چین وغیرہ) میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہیں، مگر جب معاملہ ایک خاتون کی آ زادی کا ہے، اس کی عظمت کا ہے،تو سارے مرد خاموش ہیں۔انہوں نے مردوں کے ا س امتیازی رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے یہ لکھا ہے کہ مرد یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام کا یہ بنیادی قانون ہے کہ مذہب میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
A prominent Iranian human rights lawyer Nasrin Sotoudeh was sentenced to 33 years in prison & 148 lashes, bringing her total sentence up to 38 years in prison. She has dedicated her life to defending women's rights & protesting against forced hijab laws. https://t.co/AfT8YCnyJh
— Amnesty International (@amnesty) March 11, 2019
یہ بات درست ہے کہ ایران کی اسلامی حکومت آ ئے دن حقوق انسانی اور آزادی کے لئے آ واز بلند کرنے والے دانشوروں اور طلباء کو ہراساں کرتی رہتی ہے، مگر یہ خبر سب سے زیا دہ افسوس ناک ہے۔ شاید اسی لئے ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی یہ رپورٹ کیا ہے کہ گزشتہ چند سا لوں میں ایران میں حقوق انسانی کے کارکنوں کے خلاف لئے جانے والے فیصلوں میں یہ سخت ترین ہے۔
یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ یہ خبر تب آئی ہے، جب ایران اپنے انقلاب کے چالیس سال پورے ہونے کا جشن منا رہا ہے۔ اوردوسری طرف تب جب ملک کے صد(حسن روحانی) کا شمار ایک ’ریفارمر‘ اور ’لبرل‘ کے طور پر کیا جا تاہے۔
ایران کے انقلاب(1979) میں ملک کی خواتین نے برابر کی حصہ داری نبھا ئی تھی۔مگر افسوسناک ہے کہ آج وہ اپنے ’آزاد‘ ملک میں بد ترین قسم کے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ پردہ یا حجاب کا استعمال گرچہ بہت حد تک ایران کے کلچر کا حصہ ہے،لیکن یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ایرانی انقلاب سے قبل اس کا استعمال لازمی با لکل بھی نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی انقلاب میں مردوں کے ساتھ ساتھ جب خواتین بھی سڑکوں پر اترآئیں، تو ان میں نہ صرف وہ خواتین تھیں جن کے سرچادر یا حجاب سے ڈھکے تھے بلکہ ایسی خواتین بھی نمایاں تھیں جن کے لباس مغربی تھے۔یعنی باحجاب اور بے حجاب، مذہبی اور سیکولر ، امیر اور غریب سبھی عورتوں نے انقلاب میں حصہ لیا۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ملک ’ آزاد ‘ ہوا، مگر دوسری طرف ملک کی خواتین پر ’غلامی‘ کے نئے روپ نے دستک دے دیا۔باحجاب عورتیں ’پاک‘ سمجھی جانے لگیں، جبکہ سیکولر اور ماڈرن خواتین کے ساتھ ’مغربی‘ اور ’بے حیا‘ جیسے القاب مسلط کردیے گئے۔انقلاب کے لیڈر آیت اللہ خمینی نے 6مارچ1979کویہ فرمان جاری کیا کہ اب ہر خاتون کے لئے حجاب اوڑھنا لازمی ہوگا۔1983میں اس فرمان کو قانونی شکل بھی دے دیا گیا جب ایران کی پارلیامنٹ نےIslamic Punishment Law پاس کر دیا اور حجاب کی خلاف ورزی کرنے پر 74 کوڑوں کی سزا مقرر کر دی۔اتنا ہی نہیں، 1995میں اس سزا میں اور اضافہ کر دیا گیا۔حجاب کے استعمال سے انکار کرنے اور اس کی مخالفت میں سرعام مظاہرہ کرنے پر 10-60 دنوں کی سزا متعین کر دی گئی۔
امام خمینی نے فروری 1979میں ایک انٹرویو میں خواتین اور حجاب کے حوالے سے جو کہا، وہ ملاحظہ کریں؛
وہ خواتین جنہوں نے انقلاب میں حصہ لیا، وہ با حیا تھیں اور ہیں۔ وہ تمہاری طرح سڑکوں پربے پردہ نہیں گھومتی ہیں، جن کے پیچھے مردوں کا جھنڈ منڈلاتا رہتا ہے۔وہ تمہاری طرح بازاروں میں نہیں پھرتی ہیں اور میک اپ کر کے اپنے گردن، خدوخال اور بال کی نمائش نہیں کرتی ہیں…
(Women and Politics in Iran: Hamideh Sedghi, 2007)
اسی طرح ایران کے پہلے صدر ابوالحسن بنی صدر نے 1981 میں حجاب کے استعمال کے لئے جو جواز پیش کیا وہ بھی ملاحظہ کرلیں؛
تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خواتین کے بالوں سے ایک قسم کی شعاع نکلتی ہے، لہذا ان کا ڈھانکا ضروری ہے۔
(Women and Politics in Iran: Hamideh Sedghi, 2007)
1979کے ایرانی انقلاب کو عام طور پر ’اسلامی انقلاب‘ کہا جا تا ہے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ انقلاب عوام کا تھا۔ اس انقلاب میں لوگ اسلام کے نام پرنہیں ایران کے نام پر شامل ہوئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ شامل ہونے والے لوگوں میں شہری بھی تھے اور دیہاتی بھی۔ مذہبی بھی تھے اور سیکولر بھی۔مرد بھی تھے اور عورت بھی۔البتہ یہ بات درست ہے کہ ’اسلام‘ نے پورے انقلاب کو اچک لیا۔امام خمینی کی لیڈرشپ میں علماء نے بڑی کامیابی سے مذہب کا رس گھول دیا اوردیکھتے ہی دیکھتے انقلاب اسلامی ہوگیا۔
یہ سب ’غرب زدگی‘ (westoxiation)کے نام پر ہوا۔ مغرب کے خلاف نفرت کو بھڑکا یا گیا۔ اور ہر وہ چیز جو ’ مغربی ‘ تھے اسے قبیح قرار دیا گیا۔انقلاب تو کامیاب ہو گیا، اور ملک کوبادشاہت کے چنگل سے نجات بھی مل گئی، لیکن کیا ملک واقعی آزاد ہوا، یہ سوا ل اب بھی زندہ ہے۔اسی ’غرب زدگی ‘ کی بنیاد پر جس کے سہارے انقلاب کو ’اسلامی ‘ بنا یا گیا تھا، آج ملک کی اسلامی حکومت انفرادی آزادی کے نام پر اٹھا ئے گئے ہر آ واز کو دکچل دیتی ہے۔ملک کو بھلے بادشاہت سے آزادی مل گئی ، لیکن لوگوں کو آج بھی آ زادی میسر نہیں ہوی ہے۔ اور جہاں تک خواتین کا سوال ہے، وہ تو برابر کی شہری بھی نہیں ہیں۔
(مضمون نگار بلاگر اور مترجم ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی, عالمی خبریں