حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اس حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی پرائم منسٹر نے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا شیوہ اختیار کرتے ہوئے ان کے گھروں پر جاکر یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
نیوزی لینڈ میں 15 مارچ کو کرائسٹ چرچ میں دو مقامات پر دہشت گرد حملے ہوئے جن میں تقریباً 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور 50 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔یہ حملے مسجد النور اور لن ووڈ اسلامک سینٹر میں ہوئے تھے۔ حملہ آور کو گرفتار کر کے ڈسٹرکٹ جج کے سامنے پیش کیا گیا جہاں یہ معاملہ ہائی کورٹ کو سپرد کر دیا گیا ہےجس کی شنوائی 5 اپریل کو ہوگی۔
حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم بے لوث ہوکر مسلم مظلوموں کی حمایت میں آئیں ہیں اور ملک کے میڈیا نے بھی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک کے اقلیتوں کا ساتھ نبھایا ہے۔لیکن ہندوستان میں اس واردات کو فیک نیوز کی اشاعت کا سبب بنا لیا گیا! ہمارے یہاں فیک نیوز کی یہ اشاعت مسلم مخالف بھگوا طاقتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی اپنے انداز میں کی۔
نمو بھارت نامی فیس بک پیج پر 18 مارچ کو ایک ویڈیوپوسٹ کیا گیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ کچھ لوگ کسی عمارت کے دروازے پر چڑھ کر اس پر لگے عیسائی –کراس- کو منہدم کر رہے ہیں، ویڈیو میں عمارت کے اطراف میں آگ لگی ہوئی ہے اور شدید دھواں اٹھ رہا ہے۔ویڈیو کے پس منظر میں الله اکبر کی آوازیں آ رہی ہیں۔ویڈیو یہاں دیکھ سکتے ہیں:
نمو بھارت کے علاوہ بھی مختلف فیس بک صفحات اور گروپس میں اس ویڈیو کو ایک پیغام کے ساتھ شئیر کیا گیا جس کی عبارت کم و بیش ایک جیسی تھی۔پیغام میں دعویٰ کیا گیا کہ؛
پاکستان: کرائسٹ چرچ میں مسجدوں پر حملے کی وجہ سے پاکستان کے اسلامسٹوں نے پاکستانی شہر میں ایک چرچ کو آگ لگا دی۔
نمو بھارت پیج پر اس ویڈیو کے ساتھ ایک ڈس کلیمر بھی لکھا گیا تھا؛To be Varified یعنی’خبر زیر تصدیق’ جب کہ دوسرے صفحات پر ایسا کوئی ڈسکلیمر نہیں لگایا گیا اور ویڈیو کا استعمال نفرت کے فروغ کے لئے کیا گیا۔
بوم لائیو نے اس پروپیگنڈا سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ نمو بھارت اور دیگر صفحات پر شائع کیا گیا ویڈیو تقریباً 6 برس پرانا ہے۔بوم کے مطابق اس ویڈیو کا کوئی تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔ یہ ویڈیو مصر کے سوہاگ شہر کا ہے جہاں 2013 میں ایک Coptic Church پر بھیڑ نے حملہ کر دیا تھا اور گرجے کو سپرد آتش کر دیا تھا۔ مصر میں اس طرح کے حملے اس وقت بڑھ گئے تھے جب جولائی میں صدر محمد مرسی کو سیاسی بغاوت کے تحت صدر کے عہدے سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد اخوان المسلمین کے رفقاء نے ملک بھر میں احتجاج کئے تھے جن میں اس طرح کے معاملات بھی منظر عام پر رونما ہوئے تھے جیسے ویڈیو میں موجود ہیں۔MCN نے اس معاملے کی ویڈیو 29 اگست 2013 کو یو ٹیوب پر شائع کی تھی؛
مصر میں بغاوت اور اخوان کے کارناموں کے تعلق سے بوم لائیو کی تحقیق میں کتنی صداقت ہے، یہ ایک مختلف موضوع ہے لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ بھگوا پیجوں پر عام کیا جا رہا یہ ویڈیو 6 برس پرانا ہے۔اس کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔ اور نیوزی لینڈ میں مسجدوں پر حملے کے بعد پاکستان میں کسی گرجے کو منہدم نہیں کیا گیا ہے۔
بھگوا تنظیموں نے اپنے پرچار اور پروپیگنڈا کو فروغ دیتے ہوئے یہ بھی افواہ پھیلائی کہ نیوزی لینڈ میں عبادت گاہوں پر حملے کے بعد نیوزی لینڈحکومت نے ملک کی تمام مسلم عبادت گاہوں کو بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ بھگوا تنظیموں نے اپنی بات کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ نیوزی لینڈ حکومت نے کہا ہے کہ مسجدوں میں دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں! We Support Zee News, I Support Modi Ji, Narendra Damodar Modi Supporter جیسے تمام پیجوں پر یہ فیک نیوز شئیر کی گئی!
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اس حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی پرائم منسٹر نے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا شیوہ اختیار کرتے ہوئے ان کے گھروں پر جاکر یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔اور انہوں نے اپنے پارلیامانی خطاب کی شروعات بھی سلام سے کی۔محترمہ پرائم منسٹر نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ جمعہ کے روز اذان کو ملک کے ریڈیو اور ٹی وی پر براڈکاسٹ کیا جائے گا۔
حکومت کےعلاوہ وہاں کےمیڈیااداروں میں خواتین نیوزریڈرزنے سرپرحجاب رکھ کرخبریں پڑھیں! جہاں تک مساجدکوبندکرنےکی بات ہے،یہ سیکورٹی انتظامات کےتحت کیاگیاتھا۔ انتظامیہ نےحملےکےفوراً بعد مسجدوں کو عارضی طور پر بند کرنے کی ہدایات جاری کی تھی تاکہ کسی دوسرے حملے سے دو چار نہ ہونا پڑے۔
جس طرح ہندوستان میں بھگوا فکر کے صارفین نے بلا فہم اور شعور کے فیک نیوز اور پروپیگنڈا کو فروغ دیا اسی طرح عالمی سطح پر مسلمانوں کی بڑی تعداد نے بھی یہ کارنامہ انجام دیا۔نیوزی لینڈ حملے کے بعد سوشل میڈیا میں دعویٰ کیا گیا کہ 50 مسلمانوں کو شہید کرنے کے ایسے اثرات مرتب ہوئے کہ عالمی سطح پر350 لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ! UAE میں مقیم براڈکاسٹ جرنلسٹ زین خان نے بھی اس کو ٹوئٹ کیا۔
Did you know?
The terrorist attack in #Christchurch killed 51 Muslims, today approximately 350 people have converted/reverted back to #Islam in New Zealand.
Stop fearing/hating Islam, please try to understand it.#NewZealandShooting #Islamophobia pic.twitter.com/X02TditdBI— Zain Khan (@ZKhanOfficial) March 18, 2019
نیوزی لینڈ کے پس منظر میں 350 لوگوں کے اسلام مذہب اختیار کرنے کا یہ پروپیگنڈا تصویروں کے علاوہ ویڈیو میں بھی کیا گیا؛
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو تقریباً 12 برس پرانا ہے جس کو یو ٹیوب پر 27 ستمبر 2009 کو اپلوڈ کیا گیا تھا۔ ویڈیو کی شروعات میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو 23 جون 2007 کو شوٹ کیا گیا تھا۔
تصویروں کے تعلق سے الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ خواتین کی یہ تصویریں بھی پرانی ہیں۔
نینسی ایلن نامی خاتون سینٹ پیٹر چرچ کی ممبر ہے اور ان کی یہ تصویر 2016 کی ہے جب انہوں نے امریکا میں مسلم خواتین کے آزادی عقیدہ اور مذہب کی تائید میں حجاب پہنا تھا۔تصویر میں ان کے گلے میں عیسائی مذہب کا کراس دیکھا جا سکتا ہے۔اسی طرح دوسری خاتون کی تصویر بھی پرانی ہے جس کو 2016 میں فیس بک پر فارسی عبارت کے ساتھ یہاں پوسٹ کیا گیا تھا۔
تیسری تصویر میں جو خاتون ہیں وہ دراصل ایک اشتہار کا حصہ ہیں جس سے مارکیٹنگ کے تحت حجاب کا پرچار کیا جا رہا ہے۔چوتھی تصویر میں ریحانہ علی اور ان کے شوہر اعظم علی موجود ہیں۔اس تصویر میں ان دونوں نے جو اسکارف اپنے سر پر باندھ رکھا ہے اس پر نیوزی لینڈ کا قومی نشان موجود ہے جس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ نیوزی لینڈ کے باشندے ہیں اور ان لوگوں نے ابھی اسلام قبول کیا ہے ! یہ تصویر دو سال پرانی ہے اور ریحانہ و اعظم نے یہ اسکارف ملک کی رگبی ٹیم میں تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کی حمایت میں باندھا تھا۔
نیوزی لینڈ کے بعد اگر ہندوستان کی طرف رخ کیا جاۓتوغورطلب ہےکہ اس وقت عام انتخابات کادورہےاورسوشل میڈیامیں فیک نیوزاورپروپیگنڈااپنے شروعاتی مرحلےمیں ہے۔ جب گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں یہ واضح ہواکہ سوشل میڈیامیں سب سےزیادہ خرچ وہ پلیٹ فارم کر رہے ہیں جو BJP پرست ہیں تو اس کے بعد سے اس خرچ میں BJP کی طرف سے کمی آئی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی فیک نیوز عام کی جا رہی ہے۔
مدھو کشور نے ٹوئٹ کیا کہ DMK پارٹی کے منشور میں صفحہ 112 پر لکھا ہے کہ اگر DMK حکومت میں آئی تو جن مندروں کی زمین پر عوام نےرہائش کے لئے قبضہ کر رکھا ہے، ان زمینوں کو عوام کے سپرد کر دیا جائےگا اور ان کا مالکانہ حق عوام کو دیا جائےگا۔منشور میں صفحہ 85 پر لکھا ہے کہ وقف کی جس ملکیت پر قبضہ کر لیا گیا ہے اس کو واپس وقف کے سپرد کر دیا جائےگا !
DMK کے ترجمان منو راج ایس نے اپنے ٹوئٹ میں واضح کیا کہ مدھو کشور کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹ ہے کیوں کہ DMK کا لوک سبھا منشور صرف 76 صفحات پر مبنی ہے، اس میں صفحہ 85 اور 112 موجود ہی نہیں ہیں۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ منشور میں مندر کی زمینوں اور وقف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ پارٹی کے 2016 اسمبلی منشور کے صفحہ 84 پر اس کا تذکرہ ہے۔
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر