الیکشن کے قصے: ملک کی سیاست میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب سادگی ہمارے رہنماؤں کے درمیان ایک روایت کی طرح ہوا کرتی تھی۔
گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں اروند کیجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی نے رہنماؤں اور حکمرانوں کی عیش پرست طرز زندگی کے خلاف سادگی کو بھی مدعا بنایا تھا۔ لیکن اس بار اس مدعے کا کچھ اتا پتہ ہی نہیں ہے۔کبھی یہ سادگی ہمارے رہنماؤں کے درمیان ایک روایت کی طرح ہوا کرتی تھی۔گلزاری لال نندا، جنہوں نے ملک کے بحران کی گھڑی میں کچھ وقت کے لئے وزیر اعظم عہدے کی ذمہ داری بھی سنبھالی، زندگی بھر کرایے کے معمولی سے مکان میں رہے۔ ایک بار کرایہ نہیں دے پائے تو مکان کے مالک نے ان کا سامان باہر پھنکوا دیا تھا۔
بینک میں بھی وہ اپنے پیچھے 2474روپے ہی چھوڑ گئے تھے۔ انہی جیسے کانگریس کے ایک ارفع خیال کے سادگی پسند رہنما تھے-رفیع احمد قدوائی۔ ملک کی آزادی سے اپنی موت تک وہ مرکز میں وزیر رہے۔ لیکن ان کے نہ رہنے پر ان کی بیوی اور بچوں کو اتر پردیش میں بارہ بنکی کے ٹوٹے-پھوٹے آبائی گھر میں واپس لوٹ جانا پڑا۔پنڈت نہرو کے کابینہ میں لیبر وزیر عابد علی سائیکل سے ہی پارلیامنٹ آتے-جاتے تھے اور ایک وقت ان کے پاس کپڑوں کا دوسرا جوڑا بھی نہیں تھا۔ رات میں لنگی پہنکر کپڑے دھوتے اور سکھاکر اس کو ہی اگلے دن پہنکر پارلیامنٹ جاتے تھے۔
9 بارایم پی رہے کمیونسٹ رہنما اندرجیت گپت نے کبھی اپنے لئے کوئی بنگلہ الاٹ نہیں کرایا۔ ان کی اپنی گاڑی بھی نہیں تھی۔ جہاں بھی جاتے، آٹو رکشے میں بیٹھکر یا پیدل جاتے۔انہی کی طرح ہیرین مکھرجی بھی 9بارایم پی رہے۔ وہ ساری تنخواہ اور بھتہ پارٹی فنڈ میں دے دیتے اور 200 روپے میں مہینے بھر گزارا کرتے تھے۔ ایم پی ایچ وی کامتھ کی کل جائیداد تھی-ایک جھولے میں دو جوڑی کرتا پاجامہ۔ حالانکہ وہ سابق آئی سی ایس بھی تھے۔سماج وادی ایم پی بھوپیندر نارائن منڈل سفر کے وقت اپنا سامان خود اپنے کندھے پر اٹھاتے تھے اور انتخابی حلقے میں بیل گاڑی سے دورے کرتے تھے۔
انتخاب لوک سبھا کے ہوں یا اسمبلی کے، کئی رہنما دو-دو سیٹوں سے انتخاب لڑتے ہیں۔ پچھلے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی اورایس پی سپریمو ملائم سنگھ یادو دو-دو سیٹوں سے انتخاب لڑے تھے۔نریندر مودی گجرات کی بڑودرا اور اتر پردیش کی وارانسی سیٹ سے، تو ملائم اتر پردیش کی ہی مین پوری اور اعظم گڑھ سیٹوں سے۔ اس بار کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی ایسے رہنماؤں کی فہرست میں اپنا نام لکھا لیا ہے۔ وہ اتر پردیش کی اپنی روایتی امیٹھی سیٹ کے ساتھ کیرل کی وائناڈ سیٹ سے میدان میں ہیں۔
لیکن کیا آپ کسی ایسے رہنما کو بھی جانتے ہیں، جو دو ایسی سیٹوں سے ایک ساتھ انتخاب لڑے، جن میں ایک لوک سبھا کی ہو اور دوسری اسمبلی کی؟اتر پردیش میں ہردوئی کے عظیم رہنما پرمائی لال نے 1989 میں ہردوئی لوک سبھا اور اہروری انتخابی حلقہ سے ایک ساتھ زور آزمایا۔ رائےدہندگان اور قسمت دونوں ان کے ساتھ تھے۔سو، وہ دونوں سیٹیں جیت گئے۔ مسئلہ ہوا کہ کون-سی سیٹ رکھیں اور کون-سی چھوڑ دیں، یعنی اسمبلی میں جائیں یا لوک سبھا میں؟ قریبی دوستوں سے مشورہ کرکے انہوں نے لوک سبھا کی رکنیت چھوڑ دی اور ایم ایل اے بنکر ہی مطمئن ہو لئے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر