یہ صحیح ہے کہ پچھلے تمام انتخابات سے یہ انتخاب کافی الگ اور اہم ہے۔ اس لحاظ سے کنہیا کمار کو انتخاب جیتنا بھی چاہیے، لیکن وہ انتخاب تو تب جیتیںگے، جب ان کی اپنی کمیونٹی کے رائےدہندگان ان کو ووٹ کریںگے، جو آبادی میں تقریباً 4.5 لاکھ کی حصےداری رکھتے ہیں۔ اگر کنہیا اپنی ذات کا ووٹ کاٹ لیتے ہیں، تو انتخاب جیت بھی سکتے ہیں، نہیں تو تیسرے نمبر پر رہیںگے۔
ملک میں 17ویں لوک سبھا کا انتخاب جاری ہے اور 543 لوک سبھا حلقوں میں انتخاب ہو رہے ہیں۔ لیکن، میڈیا اور کچھ خاص لوگوں نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ جیسے صرف بیگوسرائے اور وائناڈ میں ہی انتخاب ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر بیگوسرائے میں کنہیا کمار انتخاب جیت گیا، تو جمہوریت اور سیکولرازم بچی رہ جائےگی اور وہ ہار گیا تو ملک گڈھے میں چلا جائےگا! جس طرح کنہیا کی جیت کے لئے ان کے حامی لگے ہوئے ہیں، اسی شدت کے ساتھ اس کے مخالف بھی ان کو ہرانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ حامی اور مخالف، دونوں، جمہوریت اور سیکولرازم کی دہائی دےکر ہی یہ سب کر رہے ہیں۔
کنہیا کے مخالف تو بیگوسرائے سے رپورٹ کرنے والے ایک صحافی کو ان کی ہی ذات کا قرار دے چکے ہیں اور ان کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کہتے-لکھتے وہ بھول جاتے ہیں کہ اس صحافی کی وراثت صاف ستھری رہی ہے۔ وہ جمہوریت اور سیکولرازم کے حق میں مسلسل آواز اٹھاتا رہا ہے۔ کنہیا کے مخالف اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ صحافت میں اشرافیہ کا بول بالا رہا ہے، اس لئے کنہیا کے بارے میں رپورٹ کرنے والے زیادہ تر نامہ نگار اشرافیہ ہی ہوںگے (یہ ادارہ جاتی مسئلہ ہے، اس کا حل گالی-گلوچ کرکے نہیں، بلکہ پالیسی بناکر نکلےگا)۔ کنہیا کے مخالف انسان کی اس فطرت کو بھول جاتے ہیں کہ کوئی کسی کو پسند کرتا ہے، کسی کو بہت پسند کرتا ہے، کسی کو ناپسند کرتا ہے، تو کسی کو بہت ناپسند کرتا ہے! ہو سکتا ہے کہ وہ خاص نامہ نگار کنہیا کو بہت پسند کرتا ہو، لیکن صرف اسی بنیاد پر ان کے مکمل ماضی کو نسل پرست ثابت کرنا پوری طرح سے غلط ہے۔
مارچ کے مہینے کی 31 تاریخ، مطلب تقریباً تین ہفتہ پہلے، اتوار کے دن جب کانگریس صدر راہل گاندھی نے طے کیا کہ وہ کیرل کے وائناڈ لوک سبھا سیٹ سے بھی انتخاب لڑیںگے، تو ہنگامہ مچ گیا۔ سب سے پہلے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کا رد عمل آیا، جس پر ہنسنے کی تو چھوڑیے، رو بھی نہیں سکتے ہیں۔
امت شاہ نے کہا، راہل گاندھی امیٹھی سے اس لئے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ وہاں کی عوام ان کے کئے ہوئےکاموں کا حساب مانگیں گی۔
اب شاہ صاحب کو کون بتائے کہ جب عوام ان کی حکومت کے پانچ سال کے کئے ہوئےکاموں کا حساب نہیں مانگ رہے ہیں، تو ایک ایم پی سے اس کے کئے ہوئےکاموں کا کتنا حساب مانگیں گے؟ یا پھر عوام حساب مانگیں گے، تو سب سے زیادہ حساب تو ان کی پارٹی کے 272 ایم پی کو دینا پڑےگا، جن کی بدولت وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے!
لیکن یہاں سوال بی جے پی کے رہنماؤں سے نہیں تھا اور نہ ہی ان کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پہلے سیاسی اوتار جن سنگھ سے ہی ان کے (جن سنگھ-بی جے پی کے) سب سے قدآور رہنما اٹل بہاری واجپائی نے سب سے پہلے 1957 میں ایک ساتھ تین لوک سبھا حلقوں سے انتخاب لڑا تھا۔ (اس بیچ پھر سے یہ بحث ہو رہی ہے کہ نریندر مودی خود بنارس کے علاوہ کسی اور سیٹ سے بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں)۔ وہ اتر پردیش کے تین لوک سبھا سیٹوں-لکھنؤ، متھرا اور بلرام پور سے انتخاب لڑے اور بلرام پور کو چھوڑکر دونوں پارلیامانی حلقوں سے انتخاب ہار گئے۔ بی جے پی کے ذریعے انتخاب جیتنے کے لئے کئے گئے وعدے کو تو چھوڑ ہی دیجئے، وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ پانچ سال پہلے، تب کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار اور موجودہ وزیر اعظم وڑودرا کے علاوہ وارانسی سے بھی انتخاب لڑے تھے! ان کو تو شاید یہ بھی نہیں یاد ہے کہ انتخاب میں عوام حکمراں پارٹی سے پچھلے پانچ سال کے کئے ہوئےکاموں کا حساب مانگتی ہے!
یہاں سوال میں اسٹریم کی لیفٹ پارٹیوں اور ان کے حامیوں سے ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں، جن کو جغرافیہ اور تاریخ کی جانکاری ہے، سماج میں ہو رہی تحزیبی سرگرمیوں کے بارے میں پتہ ہے، سائنس اور مذہب، سچ اورجھوٹ کے بارے میں سب سے اچھی طرح پتہ ہے۔ لیکن ان کا رد عمل کئی بار کچھ واقعات اور حالات پر اٹ پٹا ہوتا ہے اور یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ ایسا کیسے کر یا کہہ سکتے ہیں!
اب مثال کے طور پر راہل گاندھی کے وائناڈ سے انتخاب لڑنے پر سی پی ایم کے کیرل ریاستی سکریٹری کودیئری بالکرشنن کا رد عمل دیکھیے،
راہل گاندھی بی جے پی کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے اور اسلامک شدت پسندتنظیم کی مدد سے انتخاب جیتنا چاہ رہا ہے۔
تقریباً ایسا ہی بیان پرکاش کرات کا آیا ہے۔ کسی بھی لیڈر کو اپنی پارٹی کے بارے میں سوچنا چاہیے، نہ کہ دوسری پارٹیاں کیا فیصلہ لیتی ہیں اس پر فیصلہ سنانا چاہیے۔
پرکاش کرات کا کہنا ہے،راہل گاندھی کا وہاں سے انتخاب لڑنا اپنے کہے سے پیچھے ہٹ جانا ہے کہ وہ بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں۔
آخر کرات کیوں راہل گاندھی کے بھروسے بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں یا اپنی پارٹی مضبوط کرنا چاہتے ہیں؟ ان سے کس نے کہا کہ ان کو اپنی پارٹی کی توسیع کیرل، مغربی بنگال اور تریپورہ کے علاوہ کسی اور ریاست میں نہیں کرنی چاہیے؟
بائیں بازو کی جماعتوں میں سب سے متوازن بیان پارٹی جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کا ہے،
ہماری پارٹی کی ترجیح مودی کی قیادت والی بی جے پی کو ہرانا ہے، اب یہ کانگریس کو طے کرنا ہے کہ اس کی ترجیح کیا ہے۔
یچوری کے اس بیان کو آپ سیاسی بیان کہہ سکتے ہیں، لیکن جس طورپر پڑھے-لکھے لیفٹ اور ترقی پسند خیمے نے راہل گاندھی کے خلاف زہراگلنا شروع کیا ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔
اسی طرح لیفٹ دانشوروں نے بہار میں الگ پوزیشن لے لیا ہے۔ بیگوسرائے سیٹ پر سی پی آئی نے جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وہاں تمام بائیں محاذ کی مہاگٹھ بندھن سے انتخابی تال میل پر بات چیت ہو رہی تھی، لیکن آخری دور میں ویسا ہو نہیں پایا۔ بیگوسرائے سیٹ پر سی پی آئی کا زیادہ زور تھا، کیونکہ کنہیا کمار کے بارے میں پارٹی اور عام لبرل دانشوروں کا ماننا ہے کہ وہ بہتر رہنما ہو سکتے ہیں، اس لئے ان کو پارلیامنٹ میں ہونا چاہیے۔
لیکن بیگوسرائے کی صورتحال بالکل الگ ہے۔ پچھلے لوک سبھا انتخاب، مطلب 2014 میں جب بی جے پی اور جے ڈی یو کا اتحاد ٹوٹا تھا، تو سی پی آئی اور جے ڈی یو نے ملکر انتخاب لڑا تھا اور سی پی آئی کو 1 لاکھ، 92 ہزار ووٹ آیا تھا۔ دوسرے نمبر پر آر جے ڈی کے تنویر حسن تھے، جن کو 3.70 لاکھ ووٹ آیا تھا۔ جبکہ بی جے پی کے بھولا سنگھ 4 لاکھ 18 ہزار کے قریب ووٹ پاکرایم پی بنے تھے۔ کل ملاکر وہاں سی پی آئی چوتھے، نہیں تو تیسرے نمبر کی پارٹی تھی جس کو فاتح امیدوار بھولا سنگھ سے کم سے کم سوا دو لاکھ کم ووٹ ملے تھے۔
اب سوال ہے کہ جب انتخابی تال میل نہیں ہوا اور بی جے پی کو ہرانا آپ کی پہلی ترجیح ہے، تو قاعدے سے سی پی آئی کو آر جے ڈی کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ کیونکہ اس کا ووٹ سی پی آئی کو ملے ووٹ سے نہ صرف دو گنا تھا، بلکہ وہ مودی لہر میں بھی پچاس ہزار سے کم ووٹ سے ہاری تھی، جس کے امیدوار پھر سے تنویر حسن ہیں۔ پھر بھی اگر سی پی آئی انتخاب لڑنا ہی چاہ رہی ہے، تو جمہوریت میں سب کو حق ہے کہ انتخاب لڑے۔ لیکن یکایک لیفٹ حامی دانشوروں کو تیجسوی اور آرجے ڈی نسل پرست لگنے لگا ہے اور وہ تیجسوی کے خلاف زیادہ جارحانہ ہو گئے ہیں!
بیگوسرائے سیٹ کے سلسلے میں میری بات چیت آر جے ڈی کے ایک سینئر رہنما سے ہوئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آر جے ڈی نے اپنا امیدوار اعلان نہیں کیا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آخرآر جے ڈی یہ سیٹ کنہیا کو کیوں نہیں دینا چاہتی ہے؟ میرے اس سوال پر ان کا جواب بہت ہی واضح تھا;
ان کا کہنا تھا کہ اس کا ایک جواب ‘آن دی ریکارڈ’ہے اور ایک’آف دی ریکارڈ’ ہے۔ پہلے ‘آن دی ریکارڈ’والی بات کہ انہوں نے کیا کہا- آپ جیسے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں مسلمان حاشیے پر لا دئے گئے ہیں۔ ہماری پارٹی کے بارے میں آپ کے جیسے لوگ’ایم وائی(مسلمان-یادو)’کے اسٹرانگ اسپورٹ بیس والی پارٹی کہتے ہیں۔ اب یہ بتائیے کہ ہم ایک مسلمان کا ٹکٹ کاٹکر سی پی آئی کو کیسے دے دیں، جس کو پچھلے لوک سبھا انتخاب میں ہم سے آدھا ووٹ آیا تھا؟ دوسری بات، تنویر حسن کا ٹکٹ کاٹنے سے مسلمانوں میں کیا پیغام جائےگا؟ یہی نہ کہ ووٹ مسلمانوں کا چاہیے، لیکن ایم پی-ایم ایل اے کوئی اور بنےگا؟
لیکن’آف دی ریکارڈ’بات جو انہوں نے کہی، وہ زیادہ اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ,
یہ تو ایک دم پہلے سے طے تھا کہ ہم بیگوسرائے سیٹ کسی بھی حالت میں سی پی آئی کے لئے نہیں چھوڑیںگے۔ہم اپنا نیریٹو مہاگٹھ بندھن کے پہلے سے بنا رہے ہیں کہ بی جے پی اشرافیہ کی پارٹی ہے۔ جب سے اتحاد ٹوٹا ہے، اس میں ہم نے جے ڈی یو کو بھی شامل کر دیا ہے کہ وہ بھی اشرافیہ حمایتی پارٹی ہے۔ آخر یہ سیٹ ہم کنہیا کمار کو کیسے دے دیتے، جو بھومیہار ہے۔ کچھ دیر کے لئے ہم وہ سیٹ چھوڑنے کی سوچ بھی سکتے تھے، اگر کنہیا دلت ہوتا!
ان کے مطابق، اگر ہم یہ سیٹ کنہیا کے لئے چھوڑ دیتے، تو نہ صرف مسلمانوں میں، بلکہ دلتوں اور پچھڑوں میں ہمارا پورا نیریٹو گڑبڑا جاتا، اس لئے ہمارے ذہن میں کہیں سے کوئی وسوسہ نہیں تھا کہ بیگوسرائے میں ہمیں کیا کرنا ہے!
لیکن شمالی ہندوستان کے لبرل-لیفٹ دانشور کافی ناراض ہو گئے ہیں۔ اب وائناڈ کی مثال دیکھیے۔ مودی لہرکے باوجود امیٹھی میں راہل گاندھی کو بی جے پی کے امیدوار سے 12 فیصد زیادہ ووٹ ملے تھے، جبکہ وائناڈ میں کانگریس کے امیدوار نے تین فیصد زیادہ ووٹ پاکر وہ سیٹ جیتی تھی۔ لیکن، کنہیا کے حامی لیفٹ دانشوروں سے وہی بات کہیے، تو کافی ناراض ہو جاتے ہیں۔
بیگوسرائے کے بارے میں سینئر مفکر پریم کمار منی نے اپنے ایک میموائر میں لکھا ہے،
کنہیا کا علاقہ بیگوسرائے کبھی بہار کا لینن گراد کہا جاتا تھا۔ ایک جھٹکے میں وہ سنگھی ناگ پور کیسے بن گیا؟ جن گھروں پر کبھی لال پرچم ہوتا تھا، بھگوا کیسے پھہرانے لگا؟ 2007 میں بہت مشہور کمیونسٹ رہنما مرحوم کاریانند شرما جی کی پیدائش کے موقع پر ہوئی تقریب میں حصہ لینے کے لئے میں لکھی سرائے اور ان کے گاؤں سؤر گیا تھا۔ پورا علاقہ لال پرچم سے پٹا تھا۔ شرماجی کے پوتے امت جی، جو اب بی جے پی میں ہیں، میرے ساتھ تھے۔ میں لال پرچم کی ایسی آمد پر پرجوش ہونا چاہتا تھا کہ انہوں نے کہا-یہ پورا علاقہ بی جے پی کا گڑھ ہے۔ میرے داداجی کے اعزاز میں یہ لال پرچم سے پٹا ہوا ہے۔ سؤر گاؤں میں تقریب کی صدارت بجرنگ دل کے ضلع صدر کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کیسی جوانی کی حالت میں میں شرماجی کے اثر میں کمیونسٹ ہوا۔ حالانکہ، یہ بتانے سے انہوں نے پرہیز کیا کہ وہ بجرنگ دل میں کیسے آئے۔ یہ وہاں کی سیاست ہے۔
اور منی جی نے کچھ غلط نہیں لکھا ہے، کیونکہ بیگوسرائے سے آج تک چنے گئے 16رکن پارلیامان میں سے 14 اشرافیہ رہے ہیں، جبکہ دو بار مسلمان ہوئے ہیں۔ اگر سچ مچ بیگوسرائے کمیونسٹ کا گڑھ رہا ہے، تو ایک بار، کم سے کم ایک بار بھی غیراشرافیہ کو رکن پارلیامان تو بننا چاہیے تھا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ کنہیا کے انتخابی جلسہ سے امبیڈکر زندہ باد کے نعرے لگنے بند ہو گئے، سرمایہ داری سے آزادی کے نعرے غائب ہو گئے!
ہاں، یہ صحیح ہے کہ پچھلے تمام انتخابات سے یہ انتخاب کافی الگ اور اہم ہے۔ اس لحاظ سے کنہیا کمار کو انتخاب جیتنا بھی چاہیے، لیکن وہ انتخاب تو تب جیتیںگے، جب ان کی اپنی کمیونٹی کے رائےدہندگان ان کو ووٹ کریںگے، جو آبادی میں تقریباً 4.5 لاکھ کی حصےداری رکھتے ہیں۔ اگر کنہیا اپنی ذات کا ووٹ کاٹ لیتے ہیں، تو انتخاب جیت بھی سکتے ہیں، نہیں تو تیسرے نمبر پر رہیںگے۔
آخر کتنے دنوں تک پچھڑوں اور اقلیتوں کے ووٹ کی بدولت اشرافیہ انتخاب جیتیںگے، لیکن ان کے ایجنڈے پر وہ بات تک نہیں کرنا چاہیںگے!
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
Categories: فکر و نظر