گراؤنڈ رپورٹ: لوک سبھا انتخاب میں نیشنل میڈیا کے مدعے بھلےہی ہندومسلمان، پاکستان، راشٹرواد وغیرہ کے اردگرد گھوم رہے ہیں، لیکن قومی راجدھانی میں ساؤتھ دہلی کے سنجئے کالونی کے باشندے روزانہ پانی کی جدو جہد، سیور سسٹم اور بستی میں صاف صفائی جیسی بنیادی سہولیات کے لئے ہی لڑ رہے ہیں۔
موجودہ انتخابات کے تناظر میں ٹی وی چینلوں کے لئے بھلےہی ہندومسلمان، پاکستان، ، چوکیدار وغیرہ سب سے ضروری مدعے ہوں، پر ملک کی راجدھانی دہلی میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں کے تقریباً70 ہزار لوگ پینے کے پانی، گندگی وغیرہ سے جڑے بنیادی مسائل سے آئے دن جوجھ رہے ہیں۔ یہ علاقہ سنجئے کالونی ہے، جو ساؤتھ دہلی میں آنے والے اوکھلا انڈسٹریل ایریا کا حصہ ہے۔1977 میں بسی یہ کالونی ساؤتھ دہلی لوک سبھا حلقے میں آتی ہے۔ اس کالونی کے اندر داخل ہوتے ہی ایک ایسی تصویر سامنے آ جاتی ہے، جو ساؤتھ دہلی کی امیج کے بالکل برعکس ہے۔
دراصل اس کالونی کے باشندوں کے لئے انتخاب میں کیا مدعا ہوںگے، اس کو سمجھنے کے لئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ہے، اس کے لئے ایک بار اس کالونی کی تنگ گلیوں میں داخل ہونا ہی کافی ہے۔ یہاں گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ایک ساتھ دو لوگوں کا چلنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔گلیوں کے بیچ سے بہتی گندی نالیاں، نالی پر بھنبھناتی مکھیاں اور اس سے سٹکر بیٹھے لوگ، کھیلتے بچے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، چاروں طرف پھیلی بدبو یہ ایسے مناظر ہیں جن کو ایک بار دیکھنے کے بعد بھلانا بہت مشکل ہے۔
مکان اتنے چھوٹے-چھوٹے اور ایک دوسرے سے اتنے سٹے ہوئے ہیں کہ کبھی کوئی حادثہ ہونے کی صورت میں ان میں رہنے والے لوگوں کا بچ پانا ناممکن سا لگتا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ کترن کا کام کرتے ہیں۔ یعنی مختلف قسم کے کپڑوں کی کترن تھوک میں لاکر ان کی سلائی کرتے ہیں۔اس بستی میں ہماری ملاقات برجو نایک سے ہوئی، جو ساؤتھ دہلی لوک سبھا حلقے سے کمیونسٹ غدر پارٹی نام کی ایک چھوٹی سی جماعت کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ وہ اس کالونی کے مسائل پر سالوں سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگوں کے سب سےبڑے مسائل ہیں پانی اور گندگی۔ ان کا سیدھا سوال ہے کہ ‘ کیا ہم زندگی بھر پانی ہی ڈھوتے رہیں ‘؟وہ کہتے ہیں،’یہاں بہت سارے بنیادی مسائل ہیں جیسے پانی، سیور، سڑک، تعلیم، صحت وغیرہ۔ سنجئے کالونی کو 1977 کے آس پاس بسایا گیا تھا۔ ہم راکٹ اڑانے کی ٹکنالوجی اور سائنس کی باتیں کرتے ہیں لیکن آپ عوام کو پینے کے پانی تک نہیں دلوا سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ہی ناانصافی ہے۔ ‘
یہاں ایک صحافی لوکیش کمار سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ ‘مزدور ایکتا لہر’نام کے ایک میگزین کے لئے لکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں ہر چیز کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔وہ کہتے ہیں،’یہاں سدھار بورڈ کا ایک بیت الخلا تھا جس کو 2006 میں بند کر دیا۔ اس کا رکھ رکھاؤ بہت ہی خراب تھا۔ اس وقت ہم بیت الخلا کی مانگ کو لےکر اس وقت کے بی جے پی ایم ایل اے رامویر سنگھ بدھوڑی کے پاس گئے تھے۔ انہوں نے ہمارا پرچہ پھاڑکر پھینک دیا تھا اور ہمارے ساتھ رہی تقریباً 20 خواتین کے ساتھ بہت ہی غیر مہذب انداز میں بات کی تھی۔ ‘
انہوں نے آگے بتایا،’اس کے بعد 2006 سے 2015 تک بیت الخلا کے لئے ہم نے لگاتار تحریک کی۔اس وقت کی صدر پرتبھا پاٹل تک کو خط لکھنا پڑی۔ یہاں کی آبادی 60-70 ہزار کے قریب ہے۔ کسی کے پاس بیت الخلا نہیں تھا۔ خواتین پاس میں جو جنگل تھا وہاں جاتی تھیں۔ ابھی یہاں صرف ایک ہی پبلک ٹوائلٹ ہے۔ اب بھی لوگ ٹوائلٹ کے لئے کھلے میں جانے کو مجبور ہیں۔ پاس میں ایک اور کالونی ہے جہاں 7-8 ہزار کی آبادی ہے، وہاں پر بھی ایک ہی پبلک ٹوائلٹ ہے۔ ‘ان کا الزام ہے،’اقتدار میں جو بھی بیٹھے ہوں، وہ انسان کو انسان نہیں سمجھتے، صرف ووٹ بینک سمجھتے ہیں۔ ہم یہاں کیڑے مکوڑوں کی طرح جی رہے ہیں۔ ‘
اس بستی میں ایک سرکاری اسکول بھی ہے، جس کو ہم نے دیکھنا چاہا، لیکن وہاں کے اساتذہ نے کوئی بات کرنے سے منع کر دیا۔ یہاں بچے نیچے بیٹھکر پڑھائی کر رہے تھے۔ بس ہمیں اتنا بتایا گیا کہ یہ اسکول دہلی حکومت کے تحت نہیں آتا ہے، بلکہ ایم سی ڈی کے تحت آتا ہے۔مقامی لوگوں سے پتہ چلا کہ اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے لئے ٹوائلٹ ضرور بنایا گیا ہے لیکن اس میں کبھی پانی نہیں آتا ہے کیونکہ ٹینکر سے ڈھوکر پانی لانا پڑتا ہے۔
کالونی میں ایک گندی نالی کے ٹھیک بغل میں پانی بھر رہی ریکھا نے بتایا،’پانی نہیں آتا، صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اتنی گندگی پھیلی رہتی ہے کہ پیر رکھنے کے لئے جگہ نہیں ہوتی۔ بچےباہر نہیں آ سکتے۔ ہمیشہ بیمار پڑتے رہتے ہیں۔ ‘ریکھا کے گھر میں ٹوائلٹ ہے لیکن پانی کا انتظام نہیں ہے۔ ٹینکر سے جو پانی آتا ہے وہی پانی بھرکر ٹوائلٹ، نہانے-دھونے، پینے اور دیگر ضروریات کے لئے استعمال کرنا پڑتا ہے۔
یہاں پر کترن کا کام کرنے والے محمدیوسف نے بتایا،’اگر کوئی بیمار پڑتا ہے تو یہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔ دہلی حکومت محلہ کلینک چلا تو رہی ہے لیکن یہاں پر کوئی محلہ کلینک نہیں ہے۔ چھوٹے-چھوٹے کمروں میں ہی کام اور رہنا سب چلتا ہے۔ ‘وہ بھی لوکیش کی بات دوہراتے ہیں،’یہاں ہر چیز کے لئے روز شکایت کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی جانور بھی مر جاتا ہے تو اس کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔ تب جاکر کئی دنوں بعد آکر اس کو اٹھاتے ہیں۔ ہم نے یہاں کے مسائل کو لےکر وزیر اعظم تک کو خط لکھا، لیکن کوئی دھیان نہیں دیتا ہے۔ ‘
پنٹو کمار یہاں ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے، ‘ہماری دکان کے ٹھیک سامنے کچرے کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ بےحد بدبو آتی ہے۔ میں روز کچرا اٹھانے والوں سے شکایت کرتا ہوں۔اس کے بعد اگر کبھی کچرا اٹھاتے بھی ہیں تو پورا نہیں اٹھاتے۔ ہمیں بہت دقت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سوچھتا ایپ پر بھی شکایت کرتا ہوں، لیکن اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ غلط لوکیشن کی فوٹو بتاکر اس کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں،’یہاں پچھلے پانچ سال سی کچی نالیاں ہیں اگر تھوڑا بہت بھی بارش آ جائے تو گھروں میں پانی گھس جاتا ہے۔ اس کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ حکومت ہمیں پانی اور گندگی سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیتی کہ ہم تعلیم کے بارے میں سوچ سکیں۔ صبح اٹھتے ہی پانی کے لئے لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ پہلے پانی، پھر اس کے بعد ہی آگے کے کام کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘یہاں کےایم پی ، ایم ایل اے یا کونسلر نے کبھی اس علاقے کا دورہ نہیں کیا۔ صرف انتخاب کے دوران ہی آنا جانا کرتے ہیں۔ ہم ہاتھ-پیر جوڑتے ہیں لیکن کوئی ہماری بات نہیں سنتا۔ ‘1987 سے یہاں رہ رہے ایک بزرگ ناگیشور سنگھ، جن کو وہاں کے لوگ ‘ فائٹر مین ‘ کہہ رہے تھے، صبح سے پانی کے لئے وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے وہ یہاں رہ رہے ہیں تب سے یہاں پانی اور گندگی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا،’برجو نایک کی قیادت میں سالوں تک تحریک کرنے کے بعد ڈھائی سال پہلے گھروں میں صرف پانی کا پائپ بچھا دیا گیا ہے لیکن اس میں آج تک ایک بوند پانی نہیں آیا۔ دہلی کے کسی رہنما نے آج تک ہمیں پانی نہیں دیا۔ جب بھی ہم مانگنے جاتے ہیں تو کچھ نہ کچھ بہانہ کرتے ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’اس کالونی میں آج تک ڈاکٹر کی سہولت نہیں ہے۔ اگر کبھی کسی کو ایمرجنسی میں ہاسپٹل لے جانے کی ضرورت پڑے تو نہیں لے جا پائیںگے کیونکہ کچرا-کباڑ کی وجہ سے سڑک پورا بند رہتا ہے۔ بارش میں گندا پانی بھرا رہتا ہے، کوئی آناجانا نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں کیا کریں؟ ہمیں ہاسپٹل جانا ہوتا ہے تو کالکاجی روڈ تک پیدل جانا پڑتا ہے۔ اگر یہاں کوئی حادثہ یا آگ زنی جیسا کوئی حادثہ ہو جائے تو دمکل کے آنے کے لئے بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ ‘انہوں نے بتایا کہ میٹرو بننے سے پہلے اس علاقے میں تھوڑا بہت جنگل تھا، جہاں لوگ ٹوائلٹ کے لئے جاتے تھے لیکن اب ان کو بہت دقت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے اپنے گھروں میں ٹوائلٹ بنوا تو لیا لیکن سیور لائن نہ ہونے کی وجہ سے کھلی گندی نالی سے ان کو جوڑ دیا۔
ناگیشور سنگھ نے بتایا،’پینے کے پانی کے لئے ہم 2005 سے تحریک کر رہے ہیں۔ ٹینکر میں پانی لانے کا انتظام ختم ہو جانا چاہیے کیونکہ اس میں بہت ساری سیاست ہوتی ہے۔ آر ٹی آئی سے جو اعداد و شمار نکالے تھے اس کے مطابق صرف سنجئےکالونی کو پانی فراہمی کرنے میں ہرسال 49.09 لاکھ روپے خرچ ہوتا ہے۔ ہماری مانگ ہے کہ جو خرچ ٹینکر پر کر رہے ہیں اسی پیسے سے ہمارے گھروں میں پائپ لاکر پانی دے سکتے ہیں۔ ‘انہوں نے آگے کہا، ‘ دن میں ایک ہی بار ٹینکر سے پانی لاکر دیا جاتا ہے۔ اس وقت ہزاروں لوگ سڑک پر جمع ہو جاتے ہیں۔ تین-چار گھنٹے لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ پانی کے لئے لڑائی-جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کو لےکر ہم شیلا دیکشت سے ملے، اروند کیجریوال سے ملے، لیکن ابھی تک اس پر کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ ‘
Categories: گراؤنڈ رپورٹ