ہندوستان نے بدھ کو دیس نکالا دے دیا کیونکہ سماجی مساوات کی ان کی تعلیمات ہماری معاشرتی روایات سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ اب بہت سے ہندوستانی مہاتما کو روانہ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی اکثریت پسندی کے آگے مہاتما کے مذہبی ہم آہنگی والی فکر کو اپنے موافق نہیں پاتے۔
یہ 1990 کے اوائل کی بات ہے۔ بزرگ گاندھی وادی ڈاکٹر سشیلا نائر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام لے کر ایودھیا گئی تھیں۔ بین مذاہب دعائیہ تقریب میں مہاتما گاندھی کا پسندیدہ بھجن ‘رگھو پتی راگھو راجہ رام’ان کی قیادت میں پیش کیا جا رہا تھا۔ جب وہ ‘ایشور اللہ تیرو نام’ والی سطر تک آئیں تو پروگرام کی مخالفت کررہے لوگوں کا ایک گروپ اسٹیج تک پہنچ گیا اور بھجن رکوا دیا۔ بزرگ خاتون ڈاکٹر نائر نے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا؛
ہم گاندھی جی کی طرف سے آئے ہیں۔
اس پر مخالفین نے کہا؛
اور ہم گوڈسے کی طرف سے۔
مشاہدین کے مطابق اس کے بعد، اور پھر برسوں تک ناتھورام گوڈسے کی پوجا کرنے والوں کو کسی نے نہیں پوچھا۔ لیکن چیزیں بدلتی بھی تو ہیں۔ پچھلی لوک سبھا کے ممبر ساکشی مہاراج نے گوڈسے کی تعریف کی۔ انہیں بی جے پی نے 2019 کے انتخاب میں پھر سے ٹکٹ دیا اور وہ جیت بھی گئے۔ اسی طرح بھوپال سے بی جےپی کی امیدوار پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے گوڈسے کی تعریف کی۔ حالانکہ وزیر اعظم نے بعد میں ان کے بیان سے کنارہ کر لیا، لیکن بی جےپی کے دیگر کئی امیدواروں نے پرگیہ ٹھاکر کے بیان کی تائید کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے یہ تمام گوڈسے بھکت انتخاب جیت گئے اور وہ بھی خاصے فرق سے۔
ناتھورام گوڈسے کا مسلک اب اچھوت نہیں رہا؛ بلکہ اب وہ مرکزی کردار میں آ گیا ہے۔ اس کے ماننے والے نہ صرف بی جےپی میں ہیں بلکہ سنگھ کے اہم مفکرین بھی اس کے مداح ہیں۔ حال ہی میں ٹی وی پر ایک مباحثے کے دوران معروف گجراتی مصنف وشنو پانڈیا نے پرگیہ ٹھاکر کو ‘ایک سنت؛’ سے کم نہیں بتایا۔ مہاتما گاندھی کے قاتل کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ‘گوڈسے ایک دیش بھکت تھا، گاندھی بھی تھے۔’ بتا دینا ضروری ہے کہ پانڈیا آر ایس ایس کے ایک عام سوئم سیوک نہیں ہیں؛ بلکہ وہ پدم شری اوارڈ یافتہ ہیں اور فی الحال گجرات ساہتیہ اکادمی کے صدر بھی ہیں۔ (دیکھیں
مہاتما کی زندگی میں ہندوتووادی دو وجوہات کی بنا پر ان سے نفرت کرتے رہے؛ ان کی نظر میں مہاتما کا نظریہ عدم تشدد کمزوری اور بزدلی کی علامت تھا۔ دوسرا وہ مسلمانوں کو برابری کا حق دینے کے بھی خلاف تھے۔ حال فی الحال اس نفرت میں ایک پہلو اور جڑ گیا ہے؛ اپنے سیاسی وارث کے طور پر ولبھ بھائی پٹیل کی جگہ جواہر لعل نہرو کو فوقیت دینا۔ جب تک نہرو زندہ رہے، دائیں بازو کے ہندو شدت پسند انہیں ناپسند کرتے رہے، کیونکہ گاندھی کی ہی طرح نہرو نے بھی ہندوستان کو پاکستان کی طرز پر ایک مذہبی ہندو راشٹر بنانے کی سخت مخالفت کی۔ ان کی موت کے بعد یہ گروہ اس لیے ان سے متنفر رہا کہ وہ اپنی مضبوط فکری وراثت چھوڑ گئے۔
یہ کہ کوئی بھی انسان ملک کی تقسیم کو نہ روک سکا؛ کہ تقسیم کے زخم بھرنے میں گاندھی نے سب سے زیادہ کام کیا؛ کہ پٹیل و نہرو ایک دوسرے کے رفیق تھے، وہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں تھے؛ کہ ایک مہذب معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی— یہ تمام ایسے حقائق ہیں، جنہیں ہندووادی مفکرین نے ہندو حقوق کے تحفظ کے جنون میں توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
خاص طور پر مہاتما کے آخری ایام میں آر ایس ایس نے عوام الناس کے بیچ ان کے خلاف زہر بھری نفرت کا کھلے عام اظہار شروع کر دیا۔ (راقم السطور کے ذریعے لکھی گئی گاندھی کی سوانح حیات میں اس کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔) – آر ایس ایس کے ایک سابقہ کارکن کے ذریعے – ان کا قتل کرنے کے بعد ان لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں انہوں نے شاذ ہی اس کی بات کی۔ 1970 کے بعد انہوں نے ڈھکے چھپے انداز میں اس کی تعریف کرنا شروع کی۔ ان کے لیے اب وہ بھی ڈھیروں میں سے ایک دیش بھکت تھا۔ اس کے باوجود وہ اسے ‘راشٹرپتا’ کے نام سے کبھی نہ پکار سکے، وہ لقب جو سبھاش بوس نے انہیں دیا تھا۔
یہاں تک کہ جدوجہد آزادی میں گاندھی کی خدمات کو کم کر کے پیش کرتے ہوئے بھی آر ایس ایس نے یہ احتیاط برتا کہ گوڈسے کو ان سے دور ہی رکھا جائے۔ البتہ حالیہ انتخاب میں ایک بھاری بھرکم فتح کے بعد زعم میں آکر کی گئی باتوں میں ان کا اصلی رنگ دکھنے لگا۔ جیسے وشنو پانڈیا کی یہ بات: ‘گوڈسے ایک دیش بھکت تھا، گاندھی بھی تھے۔’ یہاں مہاتما کو ان کے قاتل کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس میں بھی قاتل کی حب الوطنی کا ذکر پہلے ہے۔
گوڈسے ایک دیش بھکت تھا؛ اور گاندھی بھی تھے۔ آر ایس ایس کا یہی نظریہ تھا،جبکہ اس سے بھی زیادہ شدت پسند یہ مانتے تھے کہ گاندھی غدار تھے اور گوڈسے دیش بھکت تھا، بلکہ ایک مہان دیش بھکت، کیونکہ اس نے ایک غدار کا خاتمہ کیا۔ وہاٹس ایپ پر فارورڈ کیے جا رہے پیغامات اسی طرح کے تھے۔ اس موضوع پر جاری بحث مباحثوں میں (خاص کر شمالی ہند میں) تو یہ کہا جا رہا تھا کہ گوڈسے نے گاندھی کا قتل ٹھیک ہی کیا، بلکہ اسے تو بہت پہلے انہیں مار دینا تھا؛ اس آخری ستیہ گرہ سے پہلے جو وہ ہندوستان میں اپنی حب الوطنی کی وجہ سے رہ گئے مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کے لیے کر رہے تھے۔
آر ایس ایس شاید مکر سے کام لیتے ہوئے مبہم باتیں کر رہا تھا، لیکن سخت گیر ہندوتووادیوں کے لیے تصویر صاف تھی؛ گاندھی اصلی ‘دیش دروہی’ تھے – کیونکہ انہوں نے ملک کی تقسیم نہیں رکوائی؛ انہوں نے ہندوستان کو وہ رقم پاکستان کو لوٹانے پر مجبور کیا، جو اس کے قبضے میں تھی؛ کیونکہ وہ مسلمانوں (اور عیسائیوں سے بھی) اتنی ہی محبت کرتے تھے، جتنی ہندوؤں سے۔ سو جس شخص نے اس دیش دروہی کا خاتمہ کیا، وہی تو سچا دیش بھکت ہے۔
وہ جو گوڈسے کا احترام کرتے اور ساتھ ہی ساتھ گاندھی کو بےتوقیر کرتے ہیں، وہی آج سنسد میں بیٹھے ہیں۔ انہیں ان ہندوستانیوں نے وہاں بھیجا ہے، جو ان کے خیالات اپنے موافق پاتے ہیں۔ یہ گاندھی کی پیدائش کے 150ویں سال میں ہو رہا ہے۔ ایک ظالم و سنگدلانہ ستم ظریفی، جس کے ساتھ جینے کو ہم مجبور ہیں۔
راقم نے اس کالم کا آغاز 1990 کے ایودھیا میں موجود گوڈسے بھکتوں کے ایک عمل سے کیا تھا۔ جس سرکاری کارندے نے مجھے یہ واقعہ بتایا اس نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی: انہیں ہندوستانیوں نے بدھ کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ یہی ہم گاندھی کے ساتھ کرنے جا رہے ہیں۔ پچیس سال بعد یہاں گوڈسے کے ماننے والے چند ہزار نہیں، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے۔ ان کے نمائندے پارلیامنٹ میں بیٹھیں گے، یہاں تک کہ وہ وزراء میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
ہندوستان نے بدھ کو دیس نکالا دے دیا کیونکہ سماجی مساوات کی ان کی تعلیمات ہماری معاشرتی روایات سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ اب بہت سے ہندوستانی مہاتما کو روانہ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی اکثریت پسندی کے آگے مہاتما کے مذہبی ہم آہنگی والی فکر کو اپنے موافق نہیں پاتے۔ شاید ہم باقی دنیا کو یہ موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ گاندھی کو اپنا لے اور ان کے برحق ہونے کی توثیق کرے، اسی طرح جیسے انہوں نے بدھ کو اپنا کر ان کی توثیق کر دی ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
Categories: فکر و نظر