میونخ میں ہندوستان کو تیسرا گولڈ راہی سرنوبت نے دلایا۔انہیں خواتین کے 25میٹر پسٹل مقابلے میں گولڈ ملا۔اس شاندار جیت کے بعد راہی نے بھی ٹوکیو اولمپک کےلئے ٹکٹ حاصل کر لیا۔
میونخ میں منعقد آئی ایس ایس ایف ورلڈ کپ میں ہندوستانی نشانے بازوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ گولڈ میڈل جیتنے میں کامیابی حاصل کی۔یہ ہندوستان کی آئی ایس ایس ایف ورلڈ کپ میں اب تک کی بہترین کارکردگی ہے۔ہندوستان نے یہاں پانچ گولڈ میڈل کے علاوہ ایک سلور میڈل بھی حاصل کئے۔چین نو میڈل کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
چین نے دو گولڈ، دو سلور اور پانچ برانز میڈل جیتنے میں کامیابی حاصل کی۔ہندوستان کے لئے سب سے پہلے اپوروی چندیلا نے خواتین کے دس میٹر ایئر رائفل مقابلے میں گولڈ میڈل جیتا۔اس کے بعدگزشتہ کچھ سالوں سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سوربھ چودھری نے دس میٹر ایئر پسٹل میں عالمی ریکارڈ کے ساتھ گولڈ میڈل جیتا ۔
میرٹھ سے تعلق رکھنے والے سوربھ چودھری نے اپنا ہی ریکارڈ توڑا۔انہوں نے فروری میں دہلی عالمی کپ کے دوران 245اسکور بنایا تھا جبکہ یہاں میونخ میں وہ 246.3کا اسکور بنانے میں کامیاب رہے۔واضح رہے کہ سوربھ پہلے ہی ٹوکیو اولمپک کے لئے کوٹہ حاصل کر چکے ہیں۔
میونخ میں ہندوستان کو تیسرا گولڈ راہی سرنوبت نے دلایا۔انہیں خواتین کے 25میٹر پسٹل مقابلے میں گولڈ ملا۔اس شاندار جیت کے بعد راہی نے بھی ٹوکیو اولمپک کےلئے ٹکٹ حاصل کر لیا۔ہندوستان کو باقی کے دو گولڈ مکسڈ ایونٹ میں ملے۔انجم مدگل اور دویانش سنگھ نے دس میٹر ایئر رائفل جبکہ سوربھ چودھری اور منو بھاکر نے دس میٹر ایئر پسٹل ایونٹ کا گولڈ جیتا۔
بیڈمنٹن میں چین کا جلوہ برقرار ہے۔چینی کھلاڑیوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل میں جاپان کو شکست دے کر گیارہویں مرتبہ مکسڈ بیڈمنٹن ٹورنامنٹ سدی رمن کپ کا خطاب اپنے نام کیا ۔چین نے اس سے پہلے یہ خطاب 1995،1997،1999،2001،2005، 2007،2009،2011،2013اور2015میں حاصل کیا تھا۔اس ٹورنامنٹ میں ہندوستانی ٹیم بھی شامل تھی مگر انہیں مایوسی ہاتھ لگی۔
ہندوستان یہاں2011اور2017میں کوارٹر فائنل میں پہنچا تھا مگر تب اسے چین نے ہراکر باہر کر دیا تھا۔اس بار بھی ہندوستان کو چین نے ہی باہر کیا۔سدی رمن کپ کا آغاز1989میں ہوا تھا۔انڈونیشیا کے جکارتہ میں منعقد پہلے ایڈیشن میں انڈونیشیا نے کامیابی حاصل کی تھی۔اب تک اس ٹورنامنٹ کو سب سے زیادہ گیارہ مرتبہ چین نے جیتا ہے۔چار بار یہاں جنوبی کوریا نے خطاب حاصل کیا ہے جبکہ ایک بار جو کہ اس ٹورنامنٹ کا پہلا ہی ایڈیشن تھا 1989میں انڈونیشیا نے خطاب جیتا۔
جرمنی کے کلب بایرن میونخ نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سیزن کی خطابی ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے جرمن کپ ٹورنامنٹ کا خطاب جیت لیا۔یہ یہاں اس کا 2016کے بعد پہلا خطاب ہے۔ بایرن میونخ نے اب تک انیس مرتبہ یہ خطاب اپنے نام کیا ہے۔اس سیزن میں بایرن میونخ کا یہ تیسرا خطاب ہے۔جرمن کپ کے علاوہ اس سیزن میں بایرن میونخ نے جرمن بنڈس لیگا اورجرمن سپر کپ کا خطاب بھی جیتا۔
اسپین میں کھیلے گئے کوپا ڈیل رے ٹورنامنٹ کا خطاب ویلینسیا نے جیتا۔فائنل میں ویلینسیا نے بارسلونا کو2-1سے ہرایا۔بارسلونا نے اس سیزن میں اسپینش لا لیگ اور اسپینش سپر کپ کا خطاب جیتا اور ایسی امید کی جا رہی تھی کہ وہ کوپا ڈیل رے ٹورنامنٹ جیت کر اس سیزن میں خطابی ہیٹ ٹرک کر لیگا مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔بارسلونا نے یہ ٹورنامنٹ 30بار جیتا ہے اور 2014سے2018کے درمیان اس نے یہاں لگاتار چار بار خطاب جیتا۔گیارہ سال بعد یہاں خطاب حاصل کرنے والے ویلینسیا نے یہ ٹورنامنٹ آٹھویں بار جیتا ہے ۔
گوہاٹی میں منعقد انڈیا انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامنٹ کے دوسرے ایڈیشن میں ہندوستان مکے بازوں نے بہتر کھیل پیش کرتے ہوئے کل 57میڈل حاصل کئے جن میں بارہ گولڈ میڈل شامل ہیں۔ہندوستان کے جن مکے بازوں نے گولڈ میڈل جیتنے میں کامیابی حاصل کی ان میں چھ مرتبہ کی عالمی چمپین ایم سی میری کام بھی شامل ہیں۔
یہ انڈیا اوپن میں میری کوم کا دوسرا گولڈ میڈل ہے۔ایشین چمپئن شپ میں کانسے کا تمغہ جیتنے والی سریتا دیوی نے بھی60کلو گرام کے زمرے میں گولڈ میڈل حاصل کئے۔یہ تین سال میںسریتا کا پہلا گولڈ میڈل ہے۔اس سے پہلے سریتا نے آخری بار 2016میں جنوبی ایشیائی کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ہندوستانی مکے باز شیوا تھاپا ٹورنامنٹ کے بہترین مکے باز قرار پائے۔
کرکٹ کی عالمی جنگ یعنی عالمی کپ کرکٹ کا آغاز ہو چکا ہے۔پہلے جو میچ کھیلے گئے وہ دونوں ہی ایک طرح سے اہم کہے جا سکتے ہیں جہاں پہلے ہی میچ میں میزبان انگلینڈ نے جنوبی افریقہ کو بڑی آسانی سے 104رنوں کے بڑے فرق سے ہرا دیا وہیں دوسرے میچ میں پاکستان کا آغاز بھی بہت ناقص رہا۔
ویسے تو 1992میں عالمی کپ جیتنے والی پاکستانی کی ٹیم اس بار مضبوط دعویداروں میں شامل نہیں ہے مگر ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کے سامنے اس کا صرف 105رنوں پر آؤٹ ہو جانا تشویش پیدا کرتا ہے۔ویسے تو ابھی دو ہی میچ ہوئے ہیں اور اس سے اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں آئندہ کے میچوں میں بہتر نہیں کر سکتیں مگر اتنا تو طے ہے کہ دونوں ہی ٹیموں کی پہلے ہی میچ میں ناقص کارکردگی نے ان کے مداحوں کو مایوس کر دیا ہے ۔
Categories: خبریں