خبریں

بہار: کیا حالیہ عام انتخابات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں بچے؟

 مرکزی وزیراشونی چوبے نے گزشتہ دنوں کہا کہ انتخاب کے دوران افسروں کے مصروف ہونے کی وجہ سے اس بیماری کو لےکر بیداری کاپروگرام نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے یہ بیماری قہر برپا کررہی ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

جمعرات کو بہار میں ایکیوٹ انسفلائٹس سنڈروم (Acute Encephalitis Syndrome) یعنی اے ای ایس سے کم سے کم سات اور بچوں کی موت ہو گئی۔ اس طرح اس سال صوبے میں اے ای ایس یعنی چمکی بخار سے اب تک 80 سے زیادہ بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ اس میں سے تقریباً تمام بچے جون کے مہینے میں ہی اے ای ایس کے شکار ہوئے ہیں۔اس سال بہار میں اے ای ایس کے 180 سے زیادہ معاملے سامنے آئے ہیں اور30 سے زیادہ بچوں کا علاج ابھی صرف مظفرپور واقع سرکاری ہاسپٹل ایس کے ایم سی ایچ میں ہی چل رہا ہے۔اس ہاسپٹل میں بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ فرش پر لٹاکر بچوں کا علاج ہو رہا ہے۔اس سنگین معاملے پر مرکزی وزیراشونی چوبے نے گزشتہ دنوں کہا کہ انتخاب کے دوران افسروں کے مصروف ہونے کی وجہ سے اس بیماری کو لےکر بیداری کاپروگرام نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے یہ بیماری قہر برپا کررہی ہے۔ مرکزی وزیر کا یہ بیان 11 جون کو نیوزفار نیشن پر شائع ہوا تھا۔

کیا اشونی چوبے کا یہ قبول نامہ ‘مجرمانہ سرکاری لاپروائی’ کی واضح مثال ہے؟یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کیونکہ بہار نے 2017 کے آتےآتے اے ای ایس کے معاملوں اور اس سے ہونے والی اموات کو قابل ذکر طور پر کم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی اور ایک بار پھر سے یہ بیماری بچوں کے لئے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔دراصل اتر پردیش اور بہار گزشتہ تقریبا تین دہائیوں سے اے ای ایس کا سامنا کر رہا ہے۔ یوپی کے گورکھپور کے علاقے میں گزشتہ دہائیوں میں ہزاروں بچوں کی موت اس بیماری سے ہوئی ہے۔ بہار کے ترہت اور گیا کمشنری کا علاقہ اس سے سب سے زیادہ متاثر مانا جاتا ہے۔ عام طور پر ترہت کمشنری میں مانسون کے پہلے تو گیا کمشنری میں مانسون کے بعد اے ای ایس کے معاملے سامنے آتے ہیں۔ بہار کے تقریباً ڈیڑھ درجن ضلع اس سے متاثر ہیں۔

2014 میں بہار میں اس بیماری سے جہاں 379 بچے مرے تھے وہیں 2016 میں یہ اعداد و شمار گھٹ‌کر 103 پر پہنچ گیا۔ 2017 کے اگست-ستمبر کے آس پاس جب گورکھپور میں اے ای ایس کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچوں کی موت ہو رہی تھی تب تک اس سال بہار میں اے ای ایس کے صرف 71 معاملے ہی سامنے آئے ہیں جن میں کل 29 بچوں کی موت ہوئی ہے۔اے ای ایس کے خلاف یہ لڑائی ایک اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیزریعنی کی ایس او پی تیار کرکے اور اس پر عمل کر کے جیتی جا رہی رہی تھی۔ اس میں پانچ سطحوں والی پالیسی  کے تحت یہ طے کیا گیا ہے کہ اس بیماری کی کن کن  حالتوں میں کن کن جگہوں پر کیا قدم اٹھانے ہیں۔اس ایس او پی کے تحت متاثر ہ علاقوں میں تربیت یافتہ ڈاکٹروں کو تعینات کیا جانااورایمبولینس کا انتظام شامل ہے۔ ساتھ ہی ایس او پی کے ذریعے یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ اس بیماری کی روک تھام اور علاج کے لئے دیہی سطح سے لےکر میڈیکل کالج، ہاسپٹل تک میں کیاکیا کیا جانا ہے۔

ایس او پی میں اس بیماری سے بچاؤ اور اس سے لڑنے کے طریقوں پر بڑے پیمانے پر بیداری پھیلانے کے لئے وال پینٹنگ، نکڑ ناٹک سے لےکر پرچےپوسٹر کا بھی سہارا لئے جانے کا اہتمام ہے۔ ساتھ ہی ٹول فری نمبر جاری کیا جانا ہے اور میڈیا کے ذریعے تشہیرو توسیع ہونی ہے۔ کمیونٹی کی سطح پر بیداری پھیلانے کو اس ایس او پی میں بہت زور دیا گیا ہے۔ گزشتہ سالوں میں ترہت اور گیا کمشنری کے علاقوں میں اے ای ایس کے ممکنہ موسم کے تین مہینے پہلے سے اس سے بچاؤ، اس کی تشہیر اور نگرانی کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔

اے ای ایس کے بہت سے معاملوں میں یہ پایا جاتا رہا ہے کہ بچوں کا شوگر لیول بہت کم ہونےکی وجہ سے ان کی موت ہو جاتی ہے۔اس سال بھی سب سے زیادہ معاملےاسی  کے ہی سامنے آئے ہیں اور زیادہ تر اموات اسی سے ہی(بہار کا محکمہ صحت کے مطابق جمعرات تک 46 موت) ہوئی ہیں۔ ایسے معاملوں سے نپٹنے کے لئے پہلے عام لوگوں کے درمیان یہ بیداری پھیلائی جاتی تھی کہ گھر والے یہ یقینی  بنائیں کہ بچے کچھ میٹھا کھاکر ہی سوئیں اور دودھ پلانے والی ماں رات کو دوتین بجے کے قریب بچوں کو دودھ ضرور پلائیں۔ کیا اس سلسلے میں لوگوں کو اس بار بیدار نہیں کیا گیا؟ مرکزی وزیراشونی چوبے کے بیان کے مدنظر اس بات کی تفتیش کی جانی چاہیے کہ اے ای ایس سے بچاؤ اور اس سے لڑنے کے طریقوں کے لئے اس سال ایس او پی پر عمل کیا گیا یا نہیں؟

(منیش شانڈلیہ پٹنہ میں مقیم آزاد صحافی اور مترجم ہیں۔)