گریش کرناڈ ہمارے بیچ سے اتنے ہی سکون اور ایمانداری کے ساتھ وداع ہو گئے، جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی بسرکی۔
تھیٹر کی ایک معروف شخصیت نے ایک بار گریش کرناڈ کو اپنی سالگرہ پر مدعو کیا تھا۔ کرناڈ نے ایک لائن میں جواب بھیجا تھا؛’پیدائش اور موت ذاتی مسئلے ہوتے ہیں۔ اسے اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ ہی منانا چاہیے۔ اصل میں معنی یہی رکھتا ہے کہ پیدائش اور موت کے درمیان ہم کیا کرتے ہیں۔ ‘جب کرناڈ تقریباً 16 سال کے تھے، وہ معروف شخصیات کے اسکیچ بناکر ان کو بھیجا کرتے تھے۔ وہ ان سے اسکیچ پر دستخط کرکے، ان کو واپس بھیج دینے کی گزارش کرتے تھے۔ نوجوان کرناڈ کے پاس البرٹ آئنسٹائن، سروپلی رادھاکرشنن اور دوسروں کے دستخط کئے ہوئے اسکیچ کا ایک اچھاخاصا کلیکشن تھا۔ایک بار انہوں نے ایسا ہی ایک اسکیچ آئرش ڈرامہ نگار سین او ‘ کےسی [Seán O ‘ Casey] کو بھیجا۔ کےسی نے ان کو جواب میں لکھا، ‘ تم دوسرے لوگوں کے آٹوگراف کے لئے کیوں پریشان ہوتے ہو؟ ‘ اس کے بجائے اس آئرش ڈرامہ نگار نے کرناڈ سے اپنی قابلیت کا استعمال کرکے کچھ ایسا کام کرنے کے لئے کہا کہ ایک دن لوگ ان سے ان کا آٹوگراف مانگیں۔
کرناڈ نے جب ییاتی لکھا، تب ان کی عمر محض 22 سال کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی ڈرامے لکھے، جن کی طاقت پر ان کو ہندوستان ہی نہیں دنیا کے بھی اہم ڈرامہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔کرناڈ کے بارے میں میری سب سے شروعاتی یاد تقریباً 25 سال پرانی ہے، جب وہ بنگلور کے جے پی نگر میں اپنے گھر میں رہنے آئے۔ ایک دن کرناڈ ہاتھ میں لہسن اور دہی سے بنی ایک کڑھی بیلّلی تھنبلی کا ایک ڈبا لےکر میرے گھر آئے۔ انہوں نے میری ماں سے کہا کہ اگر ہم راشن اور کھانے کا لین دین بھی نہیں کر سکتے، تو پڑوسی ہونے کا کیا مطلب ہے؟میں نے ان کو دوردرشن کے کامیاب پروگرام ٹرننگ پوائنٹ میں سائنس پر بات کرتے ہوئے دیکھا تھا، اس لئے ان کو تھنبلی کا ڈبا لئے میرے گھر کے دروازے پر دیکھنا حیرانی بھرا تھا۔ کرناڈ کو اپنے گھر اور اپنے پڑوس سے پیار تھا۔
پانچ سال پہلے، ان کے گھر کے سامنے کی سڑک کھودی گئی، اس کے کنارے لگے درختوں کو کاٹ دیا گیا اور ایک عظیم الشان انڈرپاس بنایا گیا۔ اس کی تعمیر کے دوران اور پروجیکٹ کے پورا ہو جانے کے بعد وہاں کی ٹریفک نے اس سڑک کو کافی بھیڑ-بھرا اور پرشور بنا دیا۔لیکن اس سے ان کے تین ڈراموں-بائلڈ بینس آن ٹوسٹ، ویڈنگ البم اور اے ہیپ آف بروکین امیجیز کے مناظر کی ترغیب بھی ملی، جن میں کردار شہر کے بدلتے ہوئے لینڈاسکیپ پر تبصرہ کرتے ہیں۔گزشتہ سال انہوں نے جے پی شہر کا گھر بیچا اور وسط بنگلور کے ایک اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو گئے۔ جب میں وہاں ان سے ملنے گیا، تب انہوں نے کہا، ‘ دیکھو یہاں شہر کے بیچوں بیچ کافی سکون ہے۔ سارا پاگل پن دوسری جگہوں پر چلا گیا ہے۔ ‘
کیا تم مجھ اسسٹ کروگے؟
جب میں کمیونی کیشن میں اپنا ماسٹرس پورا کرنے کے بعد ممبئی جانا چاہتا تھا، تب میرے والد نے مجھے کرناڈ سے ملنے کے لئے کہا۔ کرناڈ وقت کے کافی پابند تھے۔ انہوں نے ایک بار لندن میں اپنے گھر پر ایک اداکارہ سے اس لئے ملنے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ وہ ایک گھنٹے پہلے پہنچ گئی تھی۔ایک بار میں نے ان کو ایک نامی اداکار کو ‘ پانچ منٹ دیر ‘ہونے کے لئے بھی پھٹکار لگاتے ہوئے دیکھا تھا، اس لئے اس ملاقات کے لئے میں مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے پہنچ گیا اور ان کے گھر کے باہر پانچ منٹ انتظار کرنے کے بعد طے وقت پر ان کے گھر میں داخل ہوا۔
میں نے گھبراتے ہوئے ان کو ممبئی جانے کے اپنے ارادے کے بارے میں بتایا اور ان سے کہا کہ وہاں میرے دوست ہیں، جو کام دلانے میں میری مدد کر سکتے ہیں۔ میں نے ان کو اپنی سمجھ سے کافی مہذب طریقے سے یہ کہا کہ میں ان کے پاس صرف اپنے والد کے کہنے پر آیا ہوں، ان سے کسی طرح کی سفارش کروانے کے لئے نہیں۔انہوں نے مجھے یہ کہتے ہوئے حیران کن کر دیا، ‘ تم ممبئی کیوں جا رہے ہو؟ میں ایک ٹی وی سریز کر رہا ہوں۔ کیا تم مجھے اسسٹ کروگے؟ ‘ اس طرح سے سینما اور ٹی وی کی دنیا میں میرے سفر کی شروعات ہوئی۔ میں نے ان کے لئے دو ٹیلی ویژن پروگرام کے لئے کام کیا۔جب انہوں نے کوینپو کے کلاسیک کانورو ہیگڈٹی کو ایک ساتھ کنڑ میں فیچر فلم اور ہندی سیریل کے طور پر پردے پر اتارنے کا فیصلہ کیا، تب میں ان کا ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر بنا۔
اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کو گیان پیٹھ ایوارڈسے نوازے جانے کا اعلان کیا گیا اور ان کو اس کے لئے دہلی جانا تھا۔ چونکہ ہم کرناٹک کے مالیناڈو علاقے میں تھے اور اداکاروں سمیت پوری ٹیم وہیں تھی، اس لئے ہم شوٹنگ کو روک نہیں سکتے تھے، اس لئے کرناڈ شوٹنگ کی ذمہ داری مجھ پر چھوڑکے گئے۔مالگڈی ڈیز کو فلمانے والے تجربہ کار سنیماٹوگرافر ایس رام چندرن، اس میں کیمرامین تھے۔ میں صرف 23 سال کا تھا اور میرے حساب سے یہ بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ اہم ٹیم (کرو) جس کرایے کے بڑے سے مکان میں دو مہینے تک رہے تھے، اس کے لینڈلائن نمبر پر کرناڈ ہر دوسرے دن فون کرتے۔جب وہ لوٹکر آئے اور انہوں نے فوٹیج دیکھے، تب انہوں نے مجھ سے ٹی وی سیریل کی کمان پوری طرح سے سنبھال لینے کے لئے کہا، تاکہ وہ پوری طرح سے فلم پر اپنا دھیان لگا سکیں۔
‘ آپ اپنی آخری سگریٹ میرے ساتھ پئیںگے ‘
کرناڈ کے پاس ایسے قصوں کا خزانہ تھا، جن کو سینما اور تھیٹر کا تاریخی پل کہا جا سکتا ہے۔ جب وہ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر تھے، تب سلیکشن کمیٹی نے اداکاری کے نصاب کے لئے اوم پوری کو داخلہ دینے سے منع کر دیا۔مبینہ طور پر اس وجہ سے کہ ان کے چہرے پر داغ تھے اور وہ کافی دبلےپتلے تھے۔ کرناڈ نے ان کو داخلہ دلانے کے لئے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کیا اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔کرناڈ نے مجھے بتایا تھا کہ جب انہوں نے ایک مراٹھی ڈرامے میں یووا شنکر ناگ کو دیکھا تو وہ منچ کے پیچھے گئے اور ان سے اپنی آنے والی فلم میں اہم کردار نبھانے کے لئے کہا۔ شنکر نے کہا کہ وہ ایک رائٹر اور ہدایت کار کے طور پر کرناڈ کی عزت کرتے ہیں، لیکن وہ ان کی ہدایت میں اداکاری کرنا نہیں چاہتے ہیں، بلکہ اس کی جگہ ان کے معاون ڈائریکٹر بننا چاہتے ہیں۔
کرناڈ جب بنگلورلوٹے تب انہوں نے شنکر کے بڑے بھائی اننت ناگ کو فون کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اننت، شنکر کو لےکر کرناڈ کے گھر آئے اور اوندانوندو کلادلّی سے سینما کی دنیا میں انہوں نے قدم رکھا۔
تقریباً 40 سال پہلے، جب کرناڈ نے سگریٹ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور جندل نیچر کیور انسٹی ٹیوٹ میں بھرتی ہوئے، تب شنکر ان سے ملنے وہاں گئے۔ کرناڈ نے مجھے بتایا کہ شنکر نے ان سے ان کے ساتھ ٹہلنے چلنے کے لئے کہا اور اپنی جیب سے ایک سگریٹ نکال لی۔کرناڈ نے ان سے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ کے احاطے میں سگریٹ پر سخت پابندی ہے، لیکن شنکر نے کہا، ‘اگر آپ سگریٹ پینا چھوڑ رہے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی سگریٹ میرے ساتھ پیئیں۔ ‘کرناڈ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ کیسے امجد خان نے ان کو گوشت کاٹنے کے فن کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا اور یہ بھی کہ ستیہ جیت رے ایمبیسڈر کو مرسڈیز سے بہتر مانتے تھے۔ ان کے پٹارے میں ایسی اور کئی کہانیاں تھیں۔
‘ دنیا کی تخلیق کا فن ‘
ایک بار بی بی سی ایک سریزبنا رہی تھی، جس کا عنوان تھا ‘ آرٹ دیٹ شوکڈ ورلڈ ‘ (فن جس نے دنیا کو ہلا دیا)۔ انہوں نے کرناڈ سے مہابھارت پر ایک ایپی سوڈ کو پیش کرنے کے لئے کہا۔کرناڈ نے سریز کی ڈائریکٹرس سے کہا کہ دنیا کے کسی بھی کلاسیکی ادب سے مہابھارت کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے اور ان کو اس کے لئے ‘ آرٹ دیٹ کرئیٹیڈ ورلڈ ‘ (دنیا کی تخلیق کا فن) عنوان سے الگ سریز کرنی پڑےگی۔کرناڈ نے ان کو اس کی جگہ بھاگوت گیتا پر ایک ایپی سوڈ کرنے کے لئے راضی کر لیا۔ وہ گیتا، سنسکرت اور کلاسیکل سنسکرت ادب سے اسی طرح سے آسانی سے حوالہ دے سکتے تھے، جیسے وہ شیکسپیئر اور ایلیٹ سے دے سکتے تھے۔
اوڈکلو بمبا، کرناڈ کا پہلا خود کا لکھا ایسا ڈرامہ تھا، جس کو انہوں نے خودڈائریکٹ کیا۔ اس ڈرامے میں صرف ایک اداکارہ ہے، جو منچ پر خود سے ہی مکالمہ کرتی ہے۔ چونکہ وہ منچ پر اداکارہ اور اس کے پری ریکارڈیڈ ویڈیو کے درمیان بات چیت کو قابل اعتماد بنانے کے لئے جوجھ رہے تھے، اس لئے میں نے ان کو کچھ مشورہ دئے جو شاید ان کے کام آ سکتے تھے۔میں نے شو کے دوران موجود رہنے کی تجویز دی تاکہ تکنیکی معاملہ بنا کسی دقت کے نمٹ جائے۔ جب اس ڈرامے کا پوسٹر آیا، تب اس میں کرناڈ نے اس ڈرامے کے ہدایت کار کے طور پر اپنے ساتھ میرا نام بھی دیا تھا۔
جب اگنی شیکھر ڈائریکٹر کے طور پر اپنی پہلی فلم کے لئے ایک ہدایت کار کی تلاشکر رہے تھے، جب میں نے ان کو گریش کرناڈ کا نام سجھایا۔ شری دھر نے کرناڈ کو جب کہانی سنائی، تب انہوں نے کہا کہ اس کے لئے کسی نئے اور توانائی سے بھرپورہدایت کار کی ضرورت ہے۔شری دھر نے آخر میں مجھے اس کی ہدایت کے لئے منتخب کیا۔ میں نے کرناڈ سے شری دھر سے اس فلم کی اسکرپٹ کے معاون کہانی کار کی گزارش کی۔ انہوں نے یہ گزارش مان لی اور فلم میں ایک اہم کردار کو بھی نبھایا۔
جب ہم نے پہلا ڈرافٹ لکھا اور اس کو پڑھا، تب انہوں نے کہا، ‘ اس میں خواتین کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ‘ یہ بنگلور میں 1986 میں ہوئے اصل واقعات پر مبنی ایک انڈرورلڈ والی فلم تھی۔ ہم نے اس اسکرپٹ کو ڈرامائی بنانے کی کوشش کی تھی، لیکن کرناڈ سے پہلے کسی نے بھی خاتون ناظرین کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔انہوں نے ‘ داری یاودیّا ویکنتکّے ‘ والے مکالمہ کا مشورہ دیا تھا جو کہ اے دناگلو فلم کا ایک یادگار منظر بن گیا۔
‘ بس کچھ مہینوں کی بات ہے ‘
جب کرناٹک کے محکمہ اطلاعات اور بعد میں ساہتیہ اکادمی کے ذریعے مجھے کرناڈ پر ڈاکیومنٹری بنانے کا کام سونپا گیا، جب مجھے ان جگہوں پر ان کے ساتھ تفصیل سے شوٹنگ کرنے کا موقع ملا، جہاں وہ پلےبڑھے تھے۔جب میں ایڈیٹ کرنے کے لئے بیٹھا، تو میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمنٹری کی بہت کم ضرورت ہے۔ کرناڈ خود اتنے واضح تھے کہ مجھے بس فوٹیج کو ایک منظم بیانیہ میں پرونے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا پڑا۔اپنے خیالات کو لےکر کرناڈ ہمیشہ کافی بولڈ رہے۔ ایمرجنسی کی مخالفت میں ایف ٹی آئی آئی چھوڑنے سے لےکر، راجیو گاندھی کے ذریعے لائے گئے ہتک عزت بل کی تنقید تک، بابری مسجد کی مسماری اور اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف ان کا رویہ ہمیشہ بولڈ رہا۔
جیسےجیسے نیوز میڈیا کا دائرہ روزنامہ اخباروں اور دوردرشن سے بڑھکر ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا تک پھیلتا گیا، کرناڈ کا بولڈ رویہ خبروں کو سنسنی میں بدلنے والوں کے لئے رحمت بن گئی۔کرناڈ کو صبح ٹہلنا کافی پسند تھا۔ وہ چاہے جہاں بھی ہوں، اس کو صبح ٹہلنے کے اپنے پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں آنے دیتے تھے۔ ان کی عام صبحیں جے پی نگر کے ایک چھوٹے سے جنگل کے چاروں طرف ٹہلنے سے شروع ہوتی تھیں۔اس کے بعد ان کا پڑاؤ گھر کے پاس ایس ایل این ریفریش مینٹس نام کا ایک کیفے ہوتا تھا، جہاں وہ اپنا پسندیدہ اودّینا وڑا کھاتے تھے۔ پچھلے تین سالوں کی اپنی بیماری کے دوران وہ جن چیزوں کی کمی محسوس کرتے تھے، ان میں ان کا یہ صبح ٹہلنے کا پروگرام بھی تھا۔
کچھ مہینے پہلے، ہندی اشاعتی ادارہ امر اجالا کے ذریعے ان کو ادب میں بہترین خدمات کے لئے ایک ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ ان کو یہ انعام سابق صدر پرنب مکھرجی کے ذریعے دیا جانا تھا۔چونکہ کرناڈ سفر کرنے کی حالت میں نہیں تھے، اس لئے انہوں نے آرگنائزر کو منظو رشدہ تقریر کا ایک ویڈیو بھیجنے کا فیصلہ کیا اور مجھے اس ویڈیو کو شوٹ کرنے کے لئے بلایا۔
اس ویڈیو کے لئے شوٹنگ پوری کر لینے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ ‘ وہ زیادہ دن نہیں جینے والے زیادہ سے زیادہ میرے پاس کچھ مہینے ہیں اور یہی سچ ہے۔ ‘ یہ بات انہوں نے ایک سچ کے طور پر کہی۔ وہ اپنی حالت سے آشنا تھے اور انہوں نے خود کو یہ سمجھا لیا تھا۔میں نے ماحول کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ‘ اور اگر آپ کا اندازہ غلط ثابت ہوا تو؟ ‘ اس پر انہوں نے کہا، ‘ تب میں اپنی آپ بیتی کا دوسرا حصہ لکھوںگا۔ ‘انہوں نے اپنی فیملی اور دوستوں سے کہہ رکھا تھا کہ ان کی موت ایک ذاتی واقعہ ہوگا۔ وہ ہمارے بیچ سے اتنے ہی سکون اور ایمانداری کے ساتھ وداع ہو گئے، جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی بسر کی تھی۔
(چیتنیہ کے ایم، فلمساز اور ڈراما نگار ہیں۔)