اس مجموعے میں شامل تراجم شاعر کی تخلیقی دبازت اور فنی ہنر مندی کا اس طرح نقش پیش کرتے ہیں کہ ہر نظم ایک جیتے جاگتے تجربے کی طرح حواس پر وارد ہوتی ہے جس کے لیے سکریتا پال اور ریکھا سیٹھی داد و تحسین کی مستحق ہیں۔
زبان اظہار کا بنیادی معمول (میڈیم)ہونے کے باوجود خاموشی کے سحر آگیں اثرات سے انسان کو واقف کراتی ہے اور خاموشی اور تکلم کی غیر محسوس مگر مسلسل آویزش فنکاروں کے لیے ہمیشہ گہری دلچسپی کا سبب رہی ہے۔ الفاظ کا عدم استعمال بھی اکثر زندگی کے گہرے بھیدوں اور رازوں کا پتہ بتاتا ہے اور سکوت کی معنی خیزی کا طلسم توڑنے کا حق صرف اسی شخص کو حاصل ہے جو آواز سے ہمہ گیر فسوں خلق کر سکے۔ ارجنٹینا کے مشہور افسانہ نگار، شاعر، نثر نگار اور مترجم جارج لوئی بورخیس نے اس ضمن میں ایک بلیغ نکتہ کی نشان دہی کی ہے۔ ان کا قول ہے کہ انسان اس وقت تک زبان نہ کھولے جب تک وہ خاموشی پر معنی خیز اضافے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ شاعری زبان سے نمو پذیر ہوتی ہے مگر انگریزی کی مشہور شاعرہ، ناقد اور مترجم سکریتا پال کمارنے اپنے تخلیقی امتیازات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
شاعری کو لفظ کے جبر سے رہائی دلانے کے لیے لفظ ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔صرف تجربہ کا لمس اور صوتی گونج قائم رہتی ہے۔ شاعری کا اختتام معنی پر نہیں ہوتا، یہ شاعر اور قاری میں بعض اسرار کی تلاش کی صورت میں برقرار رہتی ہے۔ مفہوم دریافت کرنا آسان ہے مگر تخلیقی عمل کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے ہر ایک کو جدو جہد کرنا پڑتی ہے، اڑان بھرنا پڑتی ہے، بار بار گرنا اوراٹھنا پڑتا ہے۔ شعر کے معنی میں استحکام نہیں ہوتا۔
تخلیقی وفور کے امکانات کو خاطر نشان کرنے والے ان تاثرات کا اظہار سکریتا نے اپنی انگریزی نظموں کے ایک خیال انگیز انتخاب ‘سمے کی کسک’ میں شامل اپنے ایک مضمون میں کیا ہے جسے ہندی کی مشہور ناقد اور مترجم ریکھا سیٹھی نے مرتب کیا ہے۔سکریتا پال کی 30 نظموں کے تراجم پر مشتمل یہ انتخاب ہندی کے مشہور اشاعتی ادارے وانی پرکاشن نے حال ہی میں شائع کیا ہے۔سکریتا کی انگریزی نظموں کے متعدد مجموعے وِداؤٹ مارجنس، ڈریم کیچر اور اَن ٹائٹلڈ وغیرہ شائع ہو چکے ہیں اور گلزار نے ان کی نظموں کا ترجمہ کیا ہے جو ہارپر کولنس سے ”ہوم کمنگس“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔
سکریتا پال کی نظمیں سکوت، خاموشی اور وقفوں سے نمو پذیر ہونے والا بیانیہ خلق کرتی ہیں جہاں لفظوں اور آوازوں کے بغیر بھی ایک نیا حسیاتی اور جمالیاتی تجربہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ خاموشی عدم حرکت اور عدم فیصلہ سے بھی عبارت ہے جو کائناتی تغیرات کے احساس کو یکسر زائل کر دیتی ہے۔ جنگل کے مکمل سکوت کا خوشگوار اور حسیاتی تجربہ ملاحظہ کریں ؎
آج جنگل میں سناٹا
بہت پوتر ہے
کوؤں کی کائیں کائیں نہیں
نہ ہی پنچھیوں کی چہچہاہٹ
نہ پتوں کی سرسراہٹ
اور نہ ہی
ہواؤں کی بجتی سیٹیاں
کیول من سے نکلتی
وچار کئی دھارائیں
ٹھہری پسری چاندنی
پیڑ کی شاخوں پر
یہاں ”اسٹل لائف“ کے ایک خیال انگریز حسیاتی منظر نامہ سے مختلف انسانی حسوں کی مدارات کا فنکارانہ شعور کے ساتھ اہتمام کیا گیا ہے۔ہر انسانی عمل اپنے جلو میں مختلف امکانات رکھتا ہے اور اس مسلسل عمل میں رخنہ اندازی کسی ایک فیصلے کی صورت میں ہمیشہ ناکامی کے باب وا کرے گی ؎
پیچھے سے
لگاتار
قدموں کی آہٹ
مڑ کر دیکھنا
توڑ دے گا
سب آشاؤں کو
بے حسی، عدم توجہی اورشعوری پہلو تہی خاموشی کی وسات سے انجام دیا جانے والا تشدد ہے اور الفاظ ہتھیار کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ سکریتا کو لفظوں کی خوں آشامی سے سخت وحشت ہوتی ہے اور وہ اپنا پر زور احتجاج درج کراتی ہیں ؎
شبد نہیں ہتھیار پھینکے جاتے ہیں
چوٹ پہنچانے کو
درد دینے کو
یہاں تک کہ مار ڈالنے کو
بار بار
ہنسا (تشدد) کی بھاشا میں مون (خاموشی)
ہوتا ہے اتنا لمبا کہ
جم جائے زخموں میں لہو
شبد دھنس جاتے ہیں مانومن میں
کھیل کھیلتے من سے
قابو کرتے
ادھیکار جماتے
الٹ دیتے پوری طرح
اور پھر ابھر آتے ہیں سطح پر
معصوم بچوں سے
دوغلے کہیں کے
سکریتا نے الفاظ کی دل آسائی اور مرہم فراہم کرنے کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ تخلیقی امکانات سے لبریز لفظ ہی انسانی بقا کے ضامن ہیں۔کائنات کے مختلف مظاہر میں ربط اور معنویت محض الفاظ کے توسط سے قائم کی جاسکتی ہے ۔یقینا زبان دنیا کے عناصر میں ترتیب پیدا کر سکتی ہے اور ایک ایسے دور میں جب لفظ روز بروز بے اعتبار ہوتے جا رہے ہیں یا پھر ان کو اپنے موجود ہونے کی ایسی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جہاں لفظ تو ہوتے ہیں مگر ان میں پوشیدہ انسانی تجربہ یا کیفیت غائب ہو جاتی ہے، سکریتا کی نظمیں ایک نیا انسانی تناظر مرتب کرتی ہے۔
ان نظموں کی مترجم ہندی کی مشہور ناقد ڈاکٹر ریکھا سیٹھی ہیں جنہوں نے ترجمے کے فن اور سکریتا کی نظموں کے بارے میں دقت نظری کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ ریکھا نے ابتدا ایک ایسے سوال سے کی ہے جس سے ہر مترجم کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور وہ اپنے طور پر اس کا جواب ڈھونڈھتا ہے۔ ”اس سوال کا تعلق براہ راست تخلیق سے ہے۔ یہ کس کی تخلیق ہے، اپنی یا پرائی۔ریکھا نے اس سلسلے میں معنی خیز نکات ابھارے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں :
اس سوال کا سیدھا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا، نہ شاعر اور نہ مترجم کے پاس۔ تخلیق کا دوہرا تجربہ ہی ترجمے کے پورے عمل کو دلچسپ بناتا ہے۔ معنی کھلتے ہیں پرت در پرت۔ پھر بھی بہت کچھ اَن کہا رہ جاتا ہے۔ کبھی کبھی معنی کی نئی تہیں الفاظ پر لپٹ جاتی ہیں، بس ایک جادو سا ہے، تخلیق کار اور مترجم ہم سفر بن کر ساتھ چلتے ہیں۔
ریکھا کا یہ نقطہ نظر بھی درست ہے کہ ”ترجمہ مختلف زبانوں کے درمیان مکالمے کے امکانات کی آبیاری کرتا ہے، ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں مختلف زبانوں کی مشترکہ حقیقت کو نشان زد کرتا ہے“۔
سکریتا کی انگریزی نظموں میں موجزن حقیقت میرے تجربے کے نزدیک ہے۔ یہاں انگریزی ایک غیر ملکی زبان نہیں رہ جاتی ہے۔ یہ ہندوستانی فکر اور احساس، تجربے اور جذبات کی گواہ بن جاتی ہے اور انسانی وقار کا ایک وسیع تر افق بھی ہویدا کرتی ہے جہاں زبان اور ملک کی تقسیم بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس مجموعے میں سمے کی کسک، کہاں لکھوں میں، شبدوں کی واپسی، قصائی باڑے میں، گُرو، دائرے کے باہر، پہاڑی راتیں، شروعات، چوڑیاں پہننے کی کلا، شبد ہیں ہتھیار، یادیں،پرانے دوست، گونگے پن کا گیت، جاگتے سپنے، ایک اَن کہی کتھا، پگوڈا کویتائیں وغیرہ شامل ہیں۔
یہ ترجمے محض انگریزی سے ہندی میں لسانی منتقلی کی داستان رقم نہیں کرتے بلکہ سکریتا کے فن کی تخلیقی باز آفرینی بھی کرتے ہیں۔ محض روانی اور سہولت اظہار کو کبھی شاعری یا اس کے ترجمے کا بنیادی وصف قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس مجموعے میں شامل تراجم شاعر کی تخلیقی دبازت اور فنی ہنر مندی کا اس طرح نقش پیش کرتے ہیں کہ ہر نظم ایک جیتے جاگتے تجربے کی طرح حواس پر وارد ہوتی ہے جس کے لیے سکریتا پال اور ریکھا سیٹھی داد و تحسین کی مستحق ہیں۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)