ادبستان

ورق در ورق: ’عورت ہوں نا‘…

 کائنات میں عورت کا وجود ان رشتوں اور تعریفوں سے متشکل اور مرتب نہیں ہوتا ہے جو ایک مرد اساس معاشرہ نے متعین کی ہیں بلکہ عورت بھی انسانی وجود کے ممکنہ تخلیقی امکانات سے بہرہ ور ہیں۔

Aurat Hun Na!..............

تانیثی حسیت کی رمز شناس شاعرہ عارفہ شہزاد نے سیلفی کو تانیثی خود مختاری (Women empowerment) اور باہمی موانست اور تعلق کو ایک مخصوص تناظر عطا کرنے کامعنی خیز شعری موتیف بنایا ہے۔ یہاں سیلفی خود افزائی اور خود پر فریفتہ ہونے کی مروجہ روش سے معنی خیز انحراف نظر آتی ہے۔ سیلفی دراصل خالق اور مخلوق کے باہمی فرق کے معدوم ہونے کا اشاریہ بھی ہے اور یہ ایک ایسی شبیہ ہے جو آن واحد کے طور پر ہر جگہ موجود ہوتی ہے اور یہ ہمہ موجودگی کے قدیم انسانی خواب کی تکمیل کی ایک صورت ہے۔ مگر عارفہ کے نزدیک یہ خود میں گم رہنے یا خود کو Glorify کرنے کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا تخلیقی ذریعہ ہے جس کی وساطت سے انسان اپنے تئیں محبوب کے رد عمل کو اپنی خواہش کا اسیر کر سکتا ہے  ؎

میرے ہونے کا ایک اثبات ہے

سب مرے ہاتھ ہے

اب میں، جیسے بھی چاہوں

خود کو دکھاؤں

کیوں دیکھتے ہو جو سیلفی بناؤں؟

اگر میں

 نہ ایسا کروں تو

مجھے اسی طرح سے…

کیا…دیکھتے تم…؟

نظم کا اختتام ایک معنی خیز استفسار پر ہوتا ہے۔ ہر انسانی عمل کی طرح یہ عمل بھی امکانات سے پُر ہے۔ یعنی یہاں بھی امید و بیم کی ازلی کشاکش کا حسیاتی بیانیہ خلق کیا گیا ہے۔ عارفہ کی مختصر نظم ”سیلفی“ محض خود پر مر مٹنے کی کیفیت ہویدا نہیں کرتی ہے بلکہ سیلفی میں ہم زاد، پرچھائیں، آئینہ، نقل اور مشابہت کی برملا اور بے محابا نمائندگی کی وساطت سے خود کو روپوش کرنے کی روش کا تخلیقی امتزاج نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سیلفی کی ہمہ موجودگی اصل کے شعوری غیاب کا اشاریہ بھی ہے۔ یہ نظم عارفہ شہزاد کے تازہ ترین مجموعے ”عورت ہوں نا“ میں شامل ہے۔

سو سے زائد نظموں پر مشتمل اس مجموعے کا عنوان ”عورت ہوں نا“ جذباتی خروش کی چغلی کھاتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ شاید نظموں میں عورت کی زبوں حالی اور اس کے استحصال کی مختلف صورتوں کو ”بلبل گرفتار“ کے مرکزی امیج کے طور پر پیش کیا گیا ہو اور رقت انگیزی اور ترحم کے جذبات کو ابھارا گیا ہو مگر نظموں کا مطالعہ نسائی حسیت کے معروف تصور کو شکست کرتا ہے۔ کائنات میں عورت کا وجود ان رشتوں اور تعریفوں سے متشکل اور مرتب نہیں ہوتا ہے جو ایک مرد اساس معاشرہ نے متعین کی ہیں بلکہ عورت بھی انسانی وجود کے ممکنہ تخلیقی امکانات سے بہرہ ور ہیں اور وہ اپنے ایک سادہ سے عمل یا Gesture سے ایک نیا مکالمہ قائم کر سکتی ہے    ؎

ایک سہمی ہوئی مسکراہٹ کی ناؤ

مرے پاس تھی

سامنے اک سمندر بپھرتا ہوا

ساتواں در کھلا

اور زمیں گنگ ہی رہ گئی

نیلگوں آسماں میں

ہواؤں کا رتھ

بادلوں کا یہ جھولا

کہاں سے چلا

چار سو

ایک دھڑکن ہے

اور پر اسرار سی شرارت اک مسکراہٹ ہے

 کیا ہو گیا؟

عورت غیرمشروط اور بلا شرکت غیرے محبت کی طالب ہوتی ہے۔ اس کا سبب خود اعتمادی میں کمی یا غیر محفوظیت (Insecurity) نہیں ہے بلکہ اس کے بنیادی سبب کا تخلیقی اعتراف نامہ عارفہ نے اپنی اس نظم میں رقم کیا ہے جو اس مجموعہ کا سرنامہ بھی ہے۔ عورت محبوب کی پوری محبت اس لیے چاہتی ہے کہ وہ اس سے مکمل محبت کر سکے   ؎

اور مجھے چاہئے ہے

 تمہاری ساری محبت

 تم سے محبت کرنے کے لیے

عارفہ شہزاد نے ان معاصر ادیبوں اور شعرا پربھی نظمیں لکھیں جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے مثلاً عبد اللہ حسین، فہمیدہ ریاض، نسرین انجم بھٹی، جاوید انور اور ثمینہ راجا۔ یہ نظمیں روایتی اندازکی تعزیتی نظمیں یا جذباتی خراج عقیدت یا نوحہ مرگ نہیں ہیں بلکہ ان نظموں میں بھی شاعرہ نے متعلقہ تخلیق کاروں کے متون یا کرداروں سے مکالمہ قائم کیا ہے اور ان کی تخلیقی دبازت کے نقوش واضح کیے ہیں۔ وراثت محض نسلی نہیں ہوتی بلکہ تخلیقی بھی ہوتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل عارفہ کی نظم ”ہجر نامہ مکمل“ میں موجود ہے جو ثمینہ راجا کی موت پر لکھی گئی ہے    ؎

تٗو تو ہے خواب گر

 میرا کوئی احساس کر

 راز پر ناز جتنا بھی ہو

ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا؟

 جیسے چپ چاپ تٗو

خواب گھر سے دبے پاؤں رخصت ہوئی

خاک میں چھپ گئی

راز مت کھول

 بس مجھ کو اتنا بتا

ہجر نامہ جو تو نے مکمل کیا

 میرے حصے میں پھر کس طرح آگیا؟

مجموعے میں شامل بعض نظمیں ضرور جذباتی خروش اور رومانی وفور سے آباد ہیں مگر بیش تر نظمیں مثلاً اجنبی، پروائی ہوں، کھیل نہیں ہے، یہ دن، سرِ راہ، میرے لیے، بعد کا مکالمہ، عادت، لاسلکی شعاعیں، اذنِ گویائی، شام، خامشی سے دو باتیں، گم شدہ، چپ، دھڑکا وغیرہ انسانی حسیات کے وسیع تر انسلاکات کو خاطر نشان کرتی ہیں اور اب بھی دنیا میں سیاست، مذہب، سوشل میڈیا، سماجی حقیقت اور استحصال کے علاوہ بھی ایک تکثیری حسیاتی منطقہ بھی آباد ہے جس تک رسائی کی کلید شاعری فراہم کرتی ہے اور فراموشی کے عہد میں عارفہ کی یہ نظمیں یادداشت اور انسانی دردمندی کی تیزی سے روپوش ہوتی ہوئی ساخت پر ہمارے اعتماد کو بحال کرتی ہیں اور جس کے لیے عارفہ شہزاد ہدیہئ تبریک کی مستحق ہیں۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)