گراؤنڈ رپورٹ : 1965 میں اس وقت کی پاکستانی حکومت نے Enemy Property Act بنایا تھا، جس کو اب ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ جنگ میں ہوئی شکست کے بعد عمل میں لائے گئے اس قانون کے تحت 1947 میں مغربی اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے ہندوستان گئے لوگوں کی غیر منقولہ جائیدادوں کو Enemy Property قرار دیا تھا۔
بنگلہ دیش میں Enemy Property Actوہاں رہنے والی اقلیتوں خاص طور پر ہندوؤں کے لئے کسی مصیبت سے کم نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ قانون بنگلہ دیش میں رہنے والے ہندوؤں کو ان کی زمین-جائیداد سے بےدخل کرنے کا ذریعہ ہے۔بنگلہ دیش میں اس قانون کی وجہ سے لاکھوں ہندوؤں کو اپنی زمینیں گنوانی پڑی۔ مشہور ماہر اقتصادیات اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر ابوالبرکت کی تحقیق کے مطابق، ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ کی وجہ سے بنگلہ دیش میں 1965 سے 2006 کے دوران اقلیت ہندوؤں کی ملکیت والی 26 لاکھ ایکڑ زمین دوسروں کے قبضے میں چلی گئی۔بنگلہ دیش میں’ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ’کا نقصان وہاں کی بودھ کمیونٹی کو بھی اٹھانا پڑا۔ چٹ گاؤں ڈویزن کے تحت بندرون، رنگاماٹی اور کھگراچھاری میں 22 فیصد بودھ کمیونٹی کی زمین اس قانون کی بھینٹ چڑھ گئی۔ سال 1978 میں یہاں بودھ مذہب کو ماننے والوں کے پاس 70 فیصدی زمین تھی، لیکن سال 2009 میں یہ گھٹکر 41 فیصد رہ گئی۔
‘ڈپرویشن آف ہندو مائنارٹی ان بنگلہ دیش لونگ وتھ ویسٹیڈ پراپرٹی’نامی کتاب کے پیش لفظ میں یہ تشویش بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ محمد غلام ربانی اور پروفیسر ابو البرکت ظاہر کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں،’ Enemy Property Act (ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ) کی وجہ سے اقلیتوں خاص طور پر ہندوؤں کی 26 لاکھ ایکڑ زمین دوسروں کے قبضے میں چلی گئی۔ ‘سال 1965 میں اس وقت کی پاکستان حکومت نے Enemy Property Actبنایا تھا۔ ہندوستان کے ساتھ جنگ میں ہوئی ہارکے بعد یہ قانون عمل میں لایا گیا۔ اس کے تحت 1947 میں مغربی اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے ہندوستان گئے لوگوں کی غیر منقولہ جائیدادوں کو Enemy Property قرار دیا گیا۔
جنگ آزادی(Liberation War) کے بعد 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان نے Enemy Property Act کا نام بدلکر ‘ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ’ کر دیا۔نیشنل اسمبلی میں اس کی بل کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ‘ہندوستان اور بنگلہ دیش دو آزاد اور خودمختار ملک ہیں۔ بنگلہ دیش کی تعمیر میں ہندوستان کی خدمات کو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا، اس لئے جب بنگلہ دیش اور ہندوستان آپس میں دوست ہیں توEnemy Property Act کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ’15 اگست 1975 کو راجدھانی ڈھاکہ میں شیخ مجیب کوان کی رہائش گاہ پر قتل کر دیا گیا۔ لہذا بنگلہ دیش میں رہنے والے اقلیتوں کی بہتری کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا اس کو صدمہ پہنچا۔
شیخ حسینہ کے آنے کے بعد
عوامی لیگ کے بعد اکیس سالوں تک بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور قومی پارٹی کی حکومتیں رہیں۔ اس دوران وہاں رہنے والی اقلیتوں کی غیر منقولہ جائیدادیں خرد-برد ہوتی رہیں۔ دو دہائی بعد 23 جون 1996 کو عوامی لیگ اقتدار میں آئی اور شیخ حسینہ وزیر اعظم بنیں۔اپنی مدت کار کے آخری سال 2001 میں انہوں نے ‘ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ’میں تبدیلی کر اس کا نام ‘ویسٹیڈ پراپرٹی رٹرن ایکٹ’ کر دیا۔ عوامی لیگ حکومت کے اس فیصلے کا مقصد بنگلہ دیش میں رہنے والے اقلیتوں کو ان کی غیر منقولہ جائیدادوں کا فائدہ دلانا تھا۔اس ترمیم شدہ قانون کے تحت اقلیتوں کی ضبط کی گئی زمینوں سے متعلق مقدمہ کا فیصلہ 90 دنوں میں اور 180 دنوں کے اندر درخواست گزاروں کو مذکورہ زمین پر دخل-قبضہ دلانے کا ہدف رکھا گیا تھا۔
لیکن اکتوبر 2001 میں بنگلہ دیش نیشنل اسمبلی کے انتخاب میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) دوبارہ حکومت میں آئی اور خالدہ ضیا وزیر اعظم بنیں۔ بی این پی حکومت نے ‘ویسٹیڈ پراپرٹی رٹرن ایکٹ’میں پچھلی حکومت کے ذریعے کئے گئے اہتماموں کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔
ہندوؤں کے مقدمے
جنوری 2009 میں عوامی لیگ پھر اقتدار میں آئی اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کی رہنمائی والی حکومت نے ‘ویسٹیڈ پراپرٹی رٹرن ایکٹ’ کو دوبارہ مؤثر بنانے کا فیصلہ کیا۔ سال 2013 میں اس بابت ہر ضلع میں فاسٹ ٹریک کورٹ تشکیل کی گئی۔ تاکہ اپنی زمین سے بےدخل ہو چکے اقلیتوں کو ان کی جائیداد واپس مل سکے۔حالانکہ اس وقت’ویسٹیڈ پراپرٹی رٹرن ایکٹ’سے جڑے تقریباً 10 لاکھ اقلیتوں خاص طور پرہندوؤں کے مقدمے بنگلہ دیش کی مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔بنگلہ دیش غیراراضی کسان کمیٹی کے جنرل سکریٹری سبل سرکار بتاتے ہیں،’عوامی لیگ کی حکومت نے Enemy Property Act میں کافی تبدیلی کی، لیکن اقلیتوں کو جتنا فائدہ ملنا چاہیے اتنا نہیں ملا ہے۔ یہ قانون ویسے لوگوں کے لئے فائدےمند بن گئی ہے، جو اقلیتوں کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب بنگلہ دیش میں اقلیت پوری طرح سے بے زمین ہو جائیںگے۔ ‘
بنگلہ دیش کمیونسٹ پارٹی (مارکس وادی-لینن وادی)کے جنرل سکریٹری محمد بدرل عالم ‘ویسٹیڈ پراپرٹی رٹرن ایکٹ’ میں ابھی تک ہوئی تبدیلیوں کو اقلیتوں کے مفادات کے لئے ناکافی مانتے ہیں۔ان کا کہنا ہے، Enemy Property Actیا ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ بنانے کا مطلب ہے کسی کمیونٹی خاص کے مفادات کی اندیکھی کرنا۔ اس طرح کے کالے قانون کو پوری طرح سے ختم کرنے کی جرأت حکومت کو دکھانی چاہیے۔ ‘
بنگلہ دیش لبریشن وار میں
بنگلہ دیش کسان فیڈریشن کے جنرل سکریٹری زائد اقبال خان بتاتے ہیں،’سال 1971 کی جنگ کے وقت کافی تعداد میں بنگلہ دیشی ہندو ہندوستان میں بس گئے۔ ان میں زیادہ تر لوگوں کے چچا، بھائی اور بہن بنگلہ دیش چھوڑکر نہیں گئے۔ یہاں رہنے والوں کی زمینیں ان کے آباواجداد کے نام پر ہیں۔ ایسے میں ان کی جائیداد کو ویسٹیڈ پراپرٹی قرار دے کر بےدخل کرنا ناانصافی ہے۔ سال 1965 میں Enemy Property Act نافذ ہونے وقت پاکستان تھا، لیکن 1971 کے بنگلہ دیش کی جنگ میں ہندوستان کی مدد اور ان کے ہزاروں فوجیوں کی قربانی کا کیا یہی نتیجہ ہے۔ ” ڈپریویشن آف ہندو مائنارٹی ان بنگلہ دیش لونگ وتھ ویسٹیڈ پراپرٹی’ کتاب کے پیش لفظ میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے جسٹس (ریٹائر) محمد غلام ربانی نے بھی لکھا ہے،
Enemy Property Act کی وجہ سے بنگلہ دیشی ہندو کتنے پریشان ہیں، اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب میں سال 1969 میں ڈھاکہ ہائی کورٹ میں وکالت کر رہا تھا۔ میرے پاس تین ہندو بھائیوں سے جڑا ایک معاملہ آیا۔ ان میں ایک بھائی 1952 میں ہندوستان چلا گیا۔ باقی دو بھائی نوگاؤں ضلع میں رہ گئے۔ حکومت ڈویزن کے افسروں نے ہندوستان گئے اس آدمی کی زمین کو ویسٹیڈ پراپرٹی قراردےدیا۔ نتیجتاً انہوں نے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ اس معاملے میں اس ہندو فیملی کی جیت ہوئی اور ان کو واپس زمین کا قبضہ مل گیا۔
دوسرا معاملہ بوگرا ضلع کا تھا۔ یہاں ایک ہندو کاروباری کا چاول اور تیل مل تھا۔ سال 1962 میں وہ کاروباری ہندوستان چلے گئے، لیکن ان کے دو سگے بھتیجوں نے بنگلہ دیش میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے ان کی جائیداد کو Enemy Property قرار دے دیا۔ متاثرہ فریق نے ہائی کورٹ میں مقدمہ کیا اور کئی سالوں بعد ان کو جیت ملی۔ ‘
جسٹس ربانی لکھتے ہیں،’بنگلہ دیش میں اس طرح کے لاکھوں مقدمے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ وہاں چند ایسے معاملوں میں جیت کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لہذا حکومت اور عدلیہ کو اس قانون کے خاتمے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ قانون غیر انسانی اور غیر آئینی ہے۔ ‘
فرضی دستاویزوں کے ذریعے زمینوں پر قبضہ
جنوبی بنگلہ دیش واقع بارسال ڈویزن کے تحت دشمنا ضلع میں ہندوؤں کی اچھی تعداد ہے۔ اسی سالہ وبھوتی رنجن چکرورتی بتاتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سالوں سی ان کی فیملی یہاں رہتی ہے۔ تقسیم سے پہلے دشمنا گاؤں میں ان کی مشترکہ فیملی میں ستر بیگھہ زمین تھی۔ لیکن 1947 میں ان کے دو بھائیوں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔کچھ سالوں تک بھائیوں کے حصے کی زمین ان کے قبضے میں رہی، لیکن 1965 میں Enemy Property Act بننے کے بعد حکومت نے اس کو Enemy Property قرار دے دیا۔ بنا چاس کئی سالوں تک زمین پرتی زمین رہی، لیکن 1971 میں مقامی مسلمانوں نے فرضی کاغذات کے ذریعے زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ فی الحال وہ سات بیگھہ زمین کے دخل کار ہیں اور اسی سے وہ اپنی اور اپنی فیملی کا گزارا چلاتے ہیں۔
اتم چکرورتی کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ 1947 سے پہلے ان کے آبا و اجداد جھالوکاٹھی ضلع میں رہتے تھے۔ 1946 کی نواکھالی فساد کی آگ ان کے گاؤں تک پہنچ گئی۔ گاؤں کے زیادہ تر ہندو اپنا گھر-بار چھوڑکر ہندوستان چلے گئے۔ لیکن ان کی فیملی دشمنا آکر بس گئی۔جھالوکاٹھی میں ان کے سو بیگھہ زمین پر غیرہندوؤں نے قبضہ کر لیا۔ ایک مندر میں پجاری اتم چکرورتی کے پاس چار بیگھہ زمین ہے۔ ان کی فیملی میں ان کی بیوی منالی چکرورتی اور دو چھوٹے بچے ہیں۔بارسال واقع دتاپاڑا گاؤں باشندہ میگھنا تعلقہ دار کی مشترکہ فیملی میں کبھی ڈیڑھ سو بیگھہ زمین تھی۔ بنگلہ دیش لبریشن وار کے بعد ان کے کئی رشتہ دار ہندوستان چلے آئے، لیکن ان کے شوہر اور ان کے دو بھائیوں نے بارسال میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان گئے ان کے رشتہ داروں کی زمینوں کو حکومت نے ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ قراردیا۔
میگھنا بتاتی ہیں،’ان کی زمینوں کو ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ کے تحت ضبط کرنا ایک غلط فیصلہ ہے کیونکہ ان کے رشتہ دارنے ہندوستان جانے کے وقت اپنے حصے کی زمین ان کے نام کر دی تھی۔ ‘راجدھانی ڈھاکہ سے ڈھائی سو کلومیٹر دور نوگاؤں (مشرق میں راج شاہی ضلع)واقع ہے اترئی۔ چھ ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں تقریباً سو گھر ہندوؤں کے ہیں۔
65 سالہ کالیکانت منڈل کے پاس پانچ بیگھہ زمین ہے۔ وہ بتاتے ہیں،’پہلے یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی یکساں تھی۔ تقسیم کے وقت اترئی سمیت حکومت کے زیادہ تر امیر ہندو ہندوستان چلے گئے۔ مغربی بنگال میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا اس لئے ان کی فیملی نے یہیں رہنا مناسب سمجھا۔ ‘1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کے ذریعے ہندو اکثریتی ضلعوں-کھلنا، راج شاہی، رنگ پور اور چٹوگرام (چٹ گاؤں)میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ جان بچانے کے لئے کافی تعداد میں یہاں کے ہندوؤں نے ہندوستان میں پناہ لی، جن میں ان کے چچا اور دو چچا زاد بھائی بھی شامل تھے۔ان کے حصے کی زمین پر کئی سالوں تک انہوں نے کھیتی کی، لیکن سال 1990 میں مذکورہ زمین پرکھیتی نہیں کرنے کا سرکاری فرمان سنایا گیا۔ وہ بتاتے ہیں،’کسٹوڈین کی طرف سے مجھے ایک نوٹس بھی ملا۔ ‘
ان کے مطابق سرکاری حکم کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی فیملی کی زمین پر کوئی دعویٰ-دلیل نہیں کیا، لیکن کچھ ‘سالوں بعد مقامی لوگوں نے اس زمین پر قبضہ کر لیا۔
اقلیتوں سے کئے وعدے نہیں ہوئے پورے
گزشتہ سال دسمبر میں ختم ہوئے نیشنل اسمبلی کے انتخاب میں حکمراں عوامی لیگ اور اہم حزب مخالف پارٹی بی این پی نے اپنے انتخابی منشور میں اقلیتی مفادات کو خاص ترجیح دی تھی۔عوامی لیگ کو ویسے بھی ہندوؤں کا خیر خواہ پارٹی مانا جاتا ہے اور ہندو رائےدہندگان بھی عوامی لیگ کے مضبوط ووٹ بینک مانے جاتے ہیں۔ اپنے منشور میں عوامی لیگ نے اقتدار میں آنے پر ‘قومی اقلیتی کمیشن’تشکیل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جبکہ بیگم خالدہ ضیاکی قیادت والی بی این پی نے اپنے منشور میں’اقلیتی فلاح و بہبود وزارت ‘بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
انتخاب میں بی این پی اور اس کی معاون جماعتوں نے کل بارہ اقلیتوں کو امیدوار بناکر حیران ضرور کیا تھا۔ وہیں حکمراں عوامی لیگ نے 18 اقلیتی امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا تھا، جن میں پندرہ ہندو، دو بودھ اور ایک عیسائی تھے۔عوامی لیگ کے تمام اقلیتی امیدوار انتخاب جیتنے میں کامیاب رہے۔ جنوری 2020 میں عوامی لیگ حکومت کو ایک سال پورے ہو جائیںگے، لیکن قومی اقلیتی کمیشن بنانے کا جو وعدہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کیا تھا، وہ ابھی تک پورا نہیں ہو سکا۔
گزشتہ سال نیشنل اسمبلی کے انتخاب کے وقت بنگلہ دیش ہندو-بودھ-عیسائی یکجہتی کونسل عوامی لیگ حکومت کو پانچ-نکاتی درخواست سونپا تھا۔ مذکورہ اطلاع میں ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ کی وجہ سے اپنی زمین گنوا چکے اقلیتوں کو واپس دخل-قبضہ دلانے کی مانگ کی گئی تھی۔ ساتھ ہی، یہ مانگ بھی تھی کہ حکومت ان رہنماؤں پر کارروائی کرے، جن پر اقلیتوں کی جائیداد ہڑپنے کے الزام لگے ہیں۔
رنگ پور کا زمین دار کاشی میں لی آخری سانس
1947 کی تقسیم کے وقت ہندوستان اور مشرقی و مغربی پاکستان دونوں طرف سے لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی ہوئی۔ وہ اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کو چھوڑ کر محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں نکلے۔ جئے پور میں رہنے والے سدھیندو پٹیل کی فیملی بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد کیشولال پٹیل بنگلہ دیش کے رنگ پور ڈویزن میں نامی زمینداروں میں تھے۔ رنگ پور ڈویزن واقع پاربتی پور، نیلفاماری، لال منیرہاٹ اور کوڈیگرام کے کئی موضع میں ان کی زمینداری تھی۔ لاولد ہونے کی وجہ سے ان کے ماموں نند کشور لالہ نے اپنی جائیداد تقریباً 2200 بیگھہ زمین کیشولال پٹیل کے نام کر دی۔
سدھیندو بتاتے ہیں،’تقسیم کے وقت زیادہ تر رشتہ دار مشرقی پاکستان سے بنارس آ گئے۔ کئی لوگوں نے میرے والد کو ہندوستان جانے کی صلاح دی، لیکن وہ زمینداری کی چاہت نہیں چھوڑ سکے۔ محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کی پارٹی سے وہ رنگ پور سے انتخاب بھی لڑے۔ 1971 میں جب بنگلہ دیش بنا اس کے بعد بھی وہ رنگ پور میں ہی رہے۔ حالانکہ، اس بیچ ان کی آدھی زمینیں سیلنگ ایکٹ میں چلی گئیں اور باقی زمین Enemy Property قرار دی گئیں۔ بڑھاپے اور بیماریوں کی وجہ سے 1984 میں وہ بنارس آ گئے اور دو سال بعد 1986 میں ان کی وفات ہو گئی۔ رنگ پور میں جس زمینداری کی وجہ سے انہوں نے اپنی فیملی کو چھوڑ دیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی ساری زمینوں پر مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ ‘
سنتوش کمار سرکار بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ہیں۔ بنیادی طور پر رنگ پور کے رہنے والے سرکارنے کیشولال پٹیل کی زمینوں کو سیلنگ اور ویسٹیڈ پاپرٹی ایکٹ سے آزاد کرانے کے لئے کئی سالوں تک مقدمہ بھی لڑا۔ لیکن پٹیل کی موت کے بعد ان کی فیملی کے کسی ممبر نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ سے منسلک کئی مقدموں کی پیروی کر رہے سنتوش کمار سرکار بتاتے ہیں کہ مقدمہ نمبر 604/2017 سندر مکھوپادھیائے وغیرہ بنام بنگلہ دیش سرکار میں ان کے موکلوں کی جیت ہوئی۔اس فیصلے کو بنگلہ دیش حکومت نے اپیلیٹ ٹریبونل میں چیلنج دیا، لیکن یہاں بھی فیصلہ ان کے حق میں رہا۔ عدالتی حکم کے باوجود ان کے موکلوں کو زمین پر دخل-قبضہ نہیں مل پایا ہے۔
ان کے مطابق، بنگلہ دیش میں ویسٹیڈ پراپرٹی سے جڑے فیصلوں کی تب تک کوئی اہمیت نہیں ہے، جب تک کہ متاثر ہ فریقوں کو ان کی زمینوں پر قبضہ نہ مل جائے۔سنتوش کمار سرکار کہتے ہیں،’بنگلہ دیش سے ہندوؤں کی نقل مکانی کی سب سے بڑی وجہ ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ ہے۔ Enemy Property Act نافذ ہونے سے پہلے یعنی 1961 میں بنگلہ دیش میں 18 فیصدی ہندو تھے، لیکن 1981 میں ان کی تعداد گھٹکر 12 فیصدی رہ گئی اور 2001 کی مردم شماری کے مطابق یہاں محض 10 فیصدی ہندو رہ گئے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو 1964 سے 2001 کے دوران 8.1 ملین ہندو بنگلہ دیش سے منتقل ہو گئے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ