خصوصی رپورٹ : وزارت جہاز رانی کو یہ وارننگ دی گئی تھی کہ صلاح ومشورہ کے بغیر کسی آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قرار دینا صحیح نہیں ہوگا۔ اتنی بڑی تعداد میں قومی آبی شاہراہ کی ترقی کرنے پر نہ صرف مرکزی حکومت پر اقتصادی بوجھ پڑےگا بلکہ ماحولیات کو بھی گہرا نقصان ہوگا، جس کی بھرپائی مشکل ہے۔
نئی دہلی: ملک کے 106 آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قرار دینے کے فیصلے کو لےکر مرکز کے دو اہم محکمے نیتی آیوگ اور وزارت خزانہ نے سخت مخالفت کی تھی۔اصل میں وزارت کو یہ وارننگ دی گئی تھی کہ ترجیحات اور صلاح مشورہ کے بغیر کسی آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قررا دینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر یہ سبھی آبی شاہراہ قومی آبی شاہراہ قرار دیے جاتے ہیں تو مرکزی حکومت پر پیسے کا بہت بوجھ پڑےگا اور آبی ماحولیاتی نظام کو ایسے نقصان ہو سکتے ہیں جس کو کبھی ٹھیک نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے سرکاری دستاویزوں سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ وزارت خزانہ نے ایک ہی بار میں اتنے سارے آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قرار دینے کے فیصلے کو لےکر سخت اعتراض کیا تھا۔فائل نوٹنگ اور سرکاری خط وکتابت کی قریبی تفتیش سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وزارت خزانہ کے تبصروں کو مرکزی کابینہ کے سامنے غور و خوض کے لئے رکھا ہی نہیں گیا اور کابینہ نے بنا اس کے ہی قومی آبی شاہراہ بل، 2015 کی تجویز کو 25 مارچ 2015 کو منظوری دے دی تھی۔
وزارت جہاز رانی کے ذریعے 19 دسمبر 2014 کو بھیجے گئے ڈرافٹ کابینہ نوٹ کا جواب دیتے ہوئے وزارت خزانہ کے اخراجات محکمے نے 23 مارچ 2015 کو کہا، ‘اگر یہ سبھی آبی شاہراہ قومی بی شاہراہ قرار دیے جاتے ہیں تو مرکزی حکومت کے لئے ان کی تعمیر کرنا بہت زیادہ مہنگا ہوگا۔ صرف بہت بڑے آبی شاہراہ ہی قومی آبی شاہراہ قرار دیے جانے چاہیے۔ درمیانی اور چھوٹے آبی شاہراہ ریاستی آبی شاہراہ قراردیے جانے چاہیے اور ان کو بنانے کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہونی چاہیے۔ ‘وزارت نے آگے لکھا تھا، ‘ قومی آبی شاہراہ کی تعمیر کے لئے ڈریزنگ کے ذریعے کم از کم پانی کی رفتار کو یقینی بنانے، چینل مارکنگ کے ذریعے ندی تربیت اور موافق جہازرانی ماحولیات، رات میں جہازی مال براداری کے لئے معاون اوزار جیسے کہ جی پی ایس، ریور میپس اور چارٹس، دستیاب جہازوں اور ٹرمینل تعمیر جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے بھاری مالی بوجھ آئےگا۔ ‘
Ministry of Finance Comment… by The Wire on Scribd
وزارت نے کہا کہ آبی شاہراہ کے لئے ندی کے ایک کلومیٹر کے علاقے کی تعمیر میں 10-12 کروڑ روپے خرچ ہوںگے اور اگر ان سبھی آبی شاہراہ کو ترقی دی جاتی ہے تو ہزاروں کروڑ روپے خرچ ہوںگے، دیگر دیرینہ اسکیموں کو دیکھتے ہوئے اس کے لئے پیسہ دینا حکومت ہند کے لئے کافی مشکل ہوگا۔واضح ہو کہ وزارت جہاز رانی ہندوستان کے 25 ریاستوں میں 111 قومی آبی شاہراہ (پہلے سے قراردیے گئے پانچ قومی آبی شاہراہ سمیت) کو ترقی دینے کی اسکیم کو نافذ کر رہا ہے۔ اس وقت کے وزیر نتن گڈکری کی رہنمائی میں یہ بل منظور کیا گیا تھا۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ تمام مجوزہ آبی شاہراہ کی تعمیر کے لئے خرچ ہونے والی رقم کا اندازہ پہلے کیا جانا چاہیے تاکہ ایک صحیح فیصلہ لیا جا سکے۔ حالانکہ وزارت نے اس مانگ کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ خرچ کا اندازہ ایکٹ بننے کے بعد کیس-ٹو-کیس کی بنیاد پر کیا جائےگا۔
وزارت نے یہ بھی کہا تھا کہ آبی شاہراہ کی تعمیر کرنے اور ندی کی سطح پر جہاز چلانے سے آبی ماحولیات کو ایسے نقصان پہنچ سکتے ہیں جس کو کبھی ٹھیک نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے اس تناظر میں کافی ماحولیاتی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔غٖورطلب ہےکہ اکتوبر 1986 سے لےکر نومبر 2008 تک کل پانچ آبی شاہراہ قومی آبی شاہراہ قرار دیے گئے ہیں۔ گنگا-بھاگیرتھی-ہگلی ندی کے الٰہ آباد سے ہلدیہ تک کے علاقے کو قومی آبی شاہراہ -1 قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ برہمپتر ندی کی سادیہ-دھبری علاقے کو قومی آبی شاہراہ -2، مغربی ساحلی نہر اور چمپاکرا اور ادیوگ منڈل باندھکے کولم کوٹاپرم علاقے کو قومی آبی شاہراہ -3، کاکیناڈا-پڈچیری مارگور گوداوری اور کرشنا ندی کو قومی آبی شاہراہ -4 اور مشرقی ساحل نہر کے ساتھ برہمنی اور مہاندی ڈیلٹا کو قومی آبی شاہراہ -5 قراردیا گیا ہے۔
ان پانچ میں سے ابھی تک پہلے تین آبی شاہراہ ہی ٹھیک ٹھاک طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ باقی کے دو آبی شاہراہوں پر ابھی چلانے کا کام شروع نہیں ہو پایا ہے۔وزارت خزانہ نے اپنے دو پیج کے نوٹ میں کہا کہ ان پانچوں آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قراردیے جانے سے پہلے اور بعد میں آئی تبدیلیوں پر ایک تفصیلی مطالعہ کیا جانا چاہیے اور نئے قومی آبی شاہراہ بنانے سے پہلے ان تجربات کو صحیح طریقے سے سمجھا جانا چاہیے۔ اس پانچ آبی شاہراہ پر ٹریفک ناکافی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ قومی آبی شاہراہ بل، 2015 پر غور کرنے کے لئے 25 مارچ 2015 کو ہوئی مرکزی کابینہ کے اجلاس کے سامنے وزارت خزانہ کے ان تبصروں کو رکھا ہی نہیں گیا تھا۔دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے فائل نوٹنگ اور خط وکتابت سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت خزانہ کے اعتراضات اور اس پر وزارت کا جواب کے ساتھ 25 مارچ کی تاریخ میں ہی ایک ڈرافٹ نوٹ تیار کیا گیا اور اس کو کابینہ کے سامنے رکھا جانا تھا۔
لیکن اس کو جاری نہیں کیا جا سکا اور کابینہ نے اس کے بغیر ہی 25 مارچ 2015 کو تجویز کو منظوری دے دی۔صرف وزارت خزانہ نے ہی نہیں بلکہ نیتی آیوگ نے بھی اس تجویز پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ آبی وسائل، ندی کی ترقی اور گنگاسے متعلق وزارت نے بھی اس پر کچھ اعتراضات کیے تھے۔
پانچ فروری 2015 کو بھیجے اپنے جواب میں نیتی آیوگ نے کہا کہ جن آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قرار دینے کی تجویز رکھی گئی ہے، اس کو لےکے یہ بحث نہیں ہوئی کہ آخر کس بنیاد پر ان کو قومی آبی شاہراہ قرار دیا جا رہا ہے۔کمیشن کے ٹرانسپورٹ ڈویژن نے اپنے خط میں لکھا، ‘سب سے پہلے کسی بھی ندی کو قومی آبی شاہراہ قرار دینے کے لئے کچھ معیار جیسے کہ صنعتوں سے رابطہ، ماحولیاتی اثرات کااندازہ، پورے سال میں پانی کی موجودگی غیرہ طے کئے جانے چاہیے۔ ‘
کمیشن نے کہا تھا کہ ندیوں کو قومی آبی شاہراہ قراردینے کے لئے ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ بنا ترجیح کے سبھی کو قومی آبی شاہراہ قرار دینے سے حالت نہیں ٹھیک ہوگی۔ چونکہ جو پہلے سے قومی آبی شاہراہ قرار دیے جا چکے ہیں وہ زیادہ ٹریفک لے جانے کے قابل نہیں ہے، اس لئے اور قومی آبی شاہراہ قراردینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وزارت خزانہ نے بھی اپنے خط میں اس بات پر زور دیا تھا۔
وہیں اس بارے میں حاصل آر ٹی آئی دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وزارت نے 30 جنوری 2015 کو بھیجے اپنے خط میں پانی کی کم از کم گہرائی بنائے رکھنے کے لئے پانی کی مقدار کا اندازہ لگانے کی ضرورت بتائی تھی۔حالانکہ وزارت جہاز رانی نے اس مانگ کو خارج کر دیا تھا، جبکہ پارلیامانی کمیٹی نے بھی اس کی سفارش کی تھی۔
وزارت نے لکھا، ‘شپنگ کے لئے مجوزہ ندی کے حصوں / نہروں میں پانی کی کم از کم گہرائی بنائے رکھنے کے لئے پورے سال میں ایک ہفتہ/10 دن کی بنیاد پر پانی کی مقدار کا اندازہ لگانے کی ضرورت ہے تاکہ پینے، آب پاشی اور پانی کی دیگر مانگوں پر اثر نہ پڑے۔ ‘آبی وزارت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس ایکٹ کا اس وزارت کی ندی جوڑو منصوبہ کے ساتھ تال میل ہونا چاہیے اور کسی بھی ندی میں کام شروع کرنے سے پہلے وزارت کے ساتھ ملکر تکنیکی معاملوں پر رپورٹ تیار کی جانی چاہیے۔
کابینہ نے کل 101 آبی شاہراہ کو قومی قراردینے کی تجویز کو 25 مارچ 2015 کو منظوری دی تھی۔ اس کے بعد اس بل کو پانچ مئی 2015 کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا، جس کے بعد اس کو جانچنے کے لئے نقل وحمل، اورسیاحت پر بنی پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔اس کے بعد کمیٹی نے 12 اگست 2015 کو اس بل پر اپنے مشورےدیے۔ پھر وزارت نے کمیٹی کے کچھ مشوروں کو شامل کرتے ہوئے پرانے بل میں ترمیم کی اور 101 کے بجائے 106 نئے قومی آبی شاہراہ قراردینے کی تجویز پیش کی۔
مرکزی کابینہ نے 9 دسمبر 2015 کو نئی تجویز کو منظوری دی اور لوک سبھا نے 21 دسمبر 2015 اور راجیہ سبھا نے 10 مارچ 2016 کو اس بل کو منظور کیا۔پارلیامانی کمیٹی کے ذریعے اس بل کو جانچنے کے بعد وزارت نے دوبارہ تمام وزارتوں سے مشورہ مانگا۔ آر ٹی آئی کے تحت حاصل دستاویز دکھاتے ہیں کہ اس بار بھی وزارت خزانہ اور نیتی آیوگ نے نوٹ کی حمایت نہیں کی تھی۔
اس کے علاوہ آبی وزارت اور ماحولیاتی وزارت نے بھی کچھ اعتراضات کیے تھے۔ وزارت خزانہ کے ٹرانسپورٹ ڈویژن نے لکھا، ‘ تمام اندرونِ ملک آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قرار دیے جانے کے لئے ایسی ایک بلینکیٹ منظوری ہندوستان کے آئین کی ساتویں شیڈیول کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ‘
وزارت خزانہ نے کہا کہ ساتویں شیڈیول کے تحت تمام تینوں شیڈیول میں اندرونِ ملک آبی شاہراہ شامل ہے جن کا مقصد ہے کہ صرف منتخب آبی شاہراہ کو ہی قومی شاہراہ کا نام دیا جا سکتا ہے جبکہ دیگر ریاستی آبی شاہراہوں کے طور پر مروج کئے جانے چاہیے۔وزارت نے آگے کہا، ‘ آبی شاہراہ پر سڑک بنانے کا ضابطہ قائم کرنے کے لئے اتنی بڑی تعداد میں آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قرار دیے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ منتخب آبی شاہراہ جن پر نسبتاً زیادہ آمدورفت ہوتی ہے اور مستقبل میں اس میں آمدورفت بڑھنے کا امکان ہوتا ہے، کو ہی صرف قومی آبی شاہراہ قراردیا جا سکتا ہے۔ ‘
Ministry of Finance and NIT… by The Wire on Scribd
وزارت خزانہ نے اپنی پرانی بات دوہراتے ہوئے وزارت جہاز رانی کو خبردارکیا تھا کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں آبی شاہراہ قومی آبی شاہراہ قرار دیے جاتے ہیں تو حکومت ہند کے لئے اپنے وسائل سے ان کی ترقی کے لئے پیسہ فراہم کرنا ناممکن ہو جائےگا۔وہیں، نیتی آیوگ نے دوسری بار تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بنا کسی گہرے مطالعے کے اتنی بھاری تعداد میں قومی آبی شاہراہ قرار دینا صحیح حکمت عملی نہیں ہے۔ کمیشن نے ورلڈ بینک کے ایک ورکنگ پیپر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کسی بھی آبی شاہراہ کی ترقی انجینئرنگ ڈیزائن معیار کے بجائے اس کی ٹریفک صلاحیت کی بنیاد پر کی جانی چاہیے۔
کمیشن نے لکھا، ‘یہ بالکل صاف ہے کہ سبھی قومی آبی شاہراہ کو ترقی دینے کے لئے مالی اور تکنیکی صلاحیت دستیاب نہیں ہے جب تک کہ ٹریفک صلاحیت اور تجارتی بنیاد پر اچھی طرح سے غور نہ کیا گیا ہو۔ ‘9 اکتوبر 2015 کو وزارت جہاز رانی کے ذریعے بھیجے گئے نوٹ کا جواب دیتے ہوئے ماحولیاتی وزارت نے لکھا کہ اس بل میں شامل کی گئی کچھ ندیاں سدا بہار نہیں ہیں اور اس میں کافی مقدار میں پانی نہیں ہے، ایسی حالت میں ان ندیوں میں شپنگ شک کے گھیرے میں ہیں۔
وزارت نے مشورہ دیا کہ اس لئے ایسی ندیوں کو بل میں شامل کرنے سے پہلے تکنیکی اور اقتصادی نتیجہ کو لے کر مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ حالانکہ وزارت جہاز رانی نے کہا کہ بل منظور ہونے کے بعد کسی ندی پر کام سے پہلے یہ مطالعہ کرایا جائےگا۔وزارت جہاز رانی کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قراردینے میں کافی وقت لگتا ہے۔ براک ندی کا معاملہ دیکھیں تو آٹھ سال بعد بھی اس کو قومی آبی شاہراہ قرار نہیں دیا جا سکا۔ آبی شاہراہ پر نقل وحمل کے اختیاری وسائل کی ترقی کو دھیان میں رکھتے ہوئے کسی آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قراردینے میں لگنے والے وقت کو کافی کم کرنا ہوگا۔ اس لئے اتنے سارے آبی شاہراہ کو ایک ساتھ قومی آبی شاہراہ قررادیا گیا۔
حالانکہ دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کسی آبی شاہراہ کو قومی آبی شاہراہ قرار دیے جانے کے بعد بھی اس پر اصل کام شروع کرنے میں 9 سے 10 سال کا وقت لگےگا۔ وزارت کے ڈرافٹ کابینہ نوٹ میں لکھا ہے کہ قومی آبی شاہراہ قراردیے جانے کے بعد ماحولیات، جنگلی جانور جیسے کئی کلیرینس اور مالی اجازت لینے میں 2-3 سال کا وقت لگےگا۔اس کے بعد قومی آبی شاہراہ کی ترقی کے کام میں تین سے چار سال کا وقت لگےگا۔ اس طرح قومی آبی شاہراہ قرار دینے کے بعد اس میں جہاز رانی کے لئے پوری طرح تیار کرنے میں 6 سے 7 سال کا وقت لگےگا۔ کل ملاکر دیکھیں تو اس کے اصل استعمال کی شروعات ہونے میں 9 سے 10 سال کا وقت لگ جائےگا۔
ماحولیاتی کارکنان کا بھی یہی ماننا ہے کہ اگر صلاح ومشورہ کے بغیر قومی آبی شاہراہ بنائے جاتے ہیں تو ندی کی صحت اور اس میں رہنے والے حیوانات پر کافی برا اثر پڑ سکتا ہے۔
Categories: خبریں