وہ لوگ جو گاندھی جی کے آخری جنم دن پر ان سے ملنے گئے تھے، ان کی نظر میں یہ گاندھی جی کے لئے ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن تھا۔
برج موہن ہیڈا کا یہ مضمون ایم کے گاندھی ڈاٹ او آر جی پرانگریزی میں پڑھا جا سکتا ہے۔ گاندھی جی کے آخری جنم دن کے حوالے سے لکھا گیا یہ مضمون بے حد دلچسپ ہے۔ لہذا آپ کی خدمت میں اس کا ترجمہ ایم کے گاندھی ڈاٹ او آر جی کے شکریے کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہےــــــ: سید کا شف
ہندوستان کے آزاد ہونے کے امکان کی خبر لگتے ہی ملک بھر میں ہندو- مسلم فسادات بر پا ہونے لگے تھے۔ گاندھی جی دو قومی نظریے کے سخت مخالف تھے۔ انہوں نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ کانگریس کے لیڈران اور عوام نے ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال سے تنگ آ کر بٹوارہ کو یہ کہہ کر تسلیم کرلیا کہ یہ فرقہ پرستی کے مقابلے کم مہلک ہے۔ گاندھی جی کو بھی آخر کار ان کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑا۔
عدم تشدد اور سچائی کا وہ ہتھیار جسے کانگریس(بشمول عوام)نے آزادی کی لڑائی میں استعمال کیا تھا، وہ اب انہی کانگریسی لیڈران اور عوام کی نظر میں مناسب نہیں رہ گیا تھا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، کھادی، دیہی صنعت، اردو، دیوناگری رسم الخط، ہندوستانی(خالص سنسکرت آمیز ہندی کے بدلے) کا استعمال اور ہندوستانی زبانوں کے احیا کے حوالے سے پورے سماج کا نظریہ مختلف ہوچلا تھا۔ گاندھی جی اب ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئے تھے۔
خون کا ایک قطرہ گرے بغیر آزادی نصیب ہونے جانے کے بعد، لیڈران اب ملک کی فوج کو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ انہیں یہ لگنے لگا کہ ملک کی حفاظت کے لئے ایک طاقتور فوج ناگزیر ہے۔ اس طرح کی نفسیات کے پنپنے کے پیچھے جو اسباب تھے، وہ بہت نمایاں تھے۔ ہتھیاروں پر انحصار کرنے والوں کو اخلاقیات کے اصول کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، انہیں بس ایک مہرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقی عدم تشدد پر عمل کرنے کے لئے آپ کے اندر بین الا قوامی بھائی چارہ کا احساس پیدا ہو نا چاہئے۔ اور یہ احساس آپ کی باتوں اور سوچ سے ضرور عیاں ہو۔ گاندھی جی اپنی پرارتھنا سبھا میں ایسے ہی معاشرے کی تخلیق کا سندیش دیتے تھے۔
کانگریس کا قیام ہندوستان کی جدو جہد آزادی کے لئے عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان کے آزاد ہوجانے کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ اسی لئے گاندھی جی یہ چاہتے تھے کانگریس کو تحلیل کر دیا جائے۔ لیکن کانگریس کے کارکنان اب قیادت کا مزہ چکھنا چاہتے تھے۔مقصد کی حصولیابی کے لئے اپنائے گئے وسیلے کے تقدس کا جو آئیڈیا تھا، وہ اب فرسودہ ہو چکا تھا۔
ملک کی صورت حال اوربدلتی ہوئی رائے عامہ کو دیکھ کر گاندھی جی خود کو تنہا اور الگ تھلگ محسوس کرنے لگے تھے ۔ ان کی بے بسی ان کی باتوں سے جھلکنے لگی تھی۔ اب انہیں موت کا خیال بار بار آنے لگا تھا۔ وہ پرارتھنا کیا کرتے تھے کہ بھگوان یا تو انہیں اتنی شکتی دے دے کہ وہ سب کچھ بدل دیں یا پھرانہیں موت کی آغوش نصیب ہو جائے ۔ اسی ہما ہمی میں گاندھی جی کا 78 واں جنم دن یعنی دو اکتوبر1947آن پڑا۔ یہ ان کی زندگی کا آخری جنم دن ثابت ہوا۔ لوگ با گ انہیں سالگرہ کی مبارکباد کہنے آئے ہوے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے گاندھی جی سےمزاحیہ انداز میں کہا—’باپو جی ہم اپنے جنم دن پر دوسروں کے پاؤں چھوتے ہیں اور ان کا آشیرواد لیتے ہیں، اور آپ کے جنم دن پر بھی ہمیں ہی آپ کے چرن اسپرش کرنے پڑتے ہیں،یہ کیسی بات ہوئی؟ گاندھی جی مسکرا ئے اور گویا ہوئے—’مہاتما کے طریقے ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔ یہ میری غلطی نہیں ہے۔ آپ لوگوں نے مجھے غلط طور پر مہاتما قرار دیا ہے، لہذا اب اس کا خمیازہ آپ کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ ‘
معمول کے مطابق، گاندھی جی نے اپنے جنم دن پر ورت رکھا، عبادت میں مشغول رہے اورزیادہ وقت چرخہ کاتنے میں گزارا۔ گاندھی جی نے یہ بیان کیا ہے کہ روزہ انسان کے د ل و جا ن کو پا ک کر تا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی زندگی خدا کی مخلوق (اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک) کی خدمت کے لئے وقف ہے۔ لہذا اس جنم دن کو بھی گاندھی جی نے چرخہ کی تزئین اور آرائش میں لگایا، جو ان کی نظر میں امن اور عدم تشدد کی علامت تھا۔ اس طرز عمل سے اپنا جنم دن منانے کا سلسلہ انہوں نے اس امید سے جاری رکھا تھا کہ وہ لوگ جو چرخہ کاتنے میں ابھی بھی دلچسپی رکھتے تھے انہیں یہ سندیش ضرور سمجھ میں آئے گا۔
ان کے قریبی اور خیر خواہ انہیں مبارکاد دینے کے لئے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں پنڈت نہرو، سردار، میزبان( گاندھی جی کے) گھنشیام داس برلا اور ان کے (گاندھی جی کے )وہ رشتہ دار جو دہلی میں رہتے تھے، سب شامل تھے۔ گاندھی جی کے بیٹھنے کی جگہ کو میرا بین نے رنگ برنگے پھولوں سے “ہے رام”، “اوم” اور “کراس” لکھ کر بڑی خوبصورتی سے سجا یا تھا۔ ایک چھوٹی سی پرارتھنا سبھا ہوئی، جس میں سب نے حصہ لیا۔ اس کے بعد گاندھی جی کے پسندیدہ بھجن گائے گئے۔
پورے دن، راشٹر پتا کو نیک خوا ہشات کہنے کے لئے، دوستوں اور خیر خواہوں کا آنا جانا لگا رہا۔ ان میں بہتیرے غیر ملکی بھی تھے۔ بہت ایسے بھی تھے جو اپنے ملک کے لیڈر کا پیغام (نیک خواہشات) گاندھی جی تک پہنچا نے آئے تھے۔ سب سے آخر میں لیڈی ماؤنٹ بیٹن آئیں۔ وہ اپنے ساتھ گاندھی جی کے لئے چند خطوط اور ٹیلی گرامز لائیں تھیں۔ لیڈی ماؤنٹ بیٹن سے گاندھی جی نے کیا کہا ملاحظہ کیجیے—’اس وقت جب میرے چہار جانب آگ لگی ہوئی ہے، میں اپنا جنم دن با لکل بھی نہیں منانا چاہتا۔ یا تو اس آگ کو بجھا ئیں یا پھر دعا کریں کہ خدا مجھے اس دنیا سے اٹھا لے۔’
وہ لوگ جو گاندھی جی کے آخری جنم دن پر ان سے ملنے گئے تھے، ان کی نظر میں یہ گاندھی جی کے لئے ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن تھا۔ گاندھی جی سردارپٹیل سے کیا بول پڑے تھے ملاحظہ کیجئے—’میں نے ایسا کون سا جرم کیا ہے کہ ایسا اندوہ نا ک دن دیکھنے کے لئے میں زندہ ہوں؟’فرقہ وارانہ فسادات جو ان کے ارد گرد بر پا تھے، وہ دیکھ کر خود کو بے بس اور لاچار محسوس کر رہے تھے۔ مانی بین پٹیل(سردار پٹیل کی صاحبزادی)نے لکھا ہے—’ہم وہاں جوش و جذبے کے ساتھ گئے تھے، مگر جب لوٹے تودل افسردہ تھا۔’
سارے ملاقاتی کے چلے جانے کے بعد، گاندھی جی کو دوبارہ کھانسی کا دورہ آن پڑا۔ اپنی کھانسی پر قابو پاتے ہوئے وہ پھر گویا ہوئے،’مجھے اب 125 سال زندہ رہنے کی با لکل بھی خواہش نہیں ہے۔ بجائے اس کے کہ میں ایک بے بس انسان کی طرح اس قتل و غا رت کا چشم دید گواہ بنوں، میں چاہوں گا کہ مجھے اس دنیا سے اٹھا لیا جاے۔’
آل انڈیا ریڈیو گاندھی جی کے جنم دن کے حوالے سے ایک خاص پروگرام نشر کر رہا تھا۔ کسی نے گاندھی جی سے پوچھا کیا وہ یہ پروگرام سننا چاہیں گے۔ گاندھی جی نے بے ساختہ جواب دیا—’میرے لئے زیا دہ اہم رینٹیو (گجراتی میں چرخہ کاتنا) ہے نہ کہ ریڈیو۔انہوں نے کہا کہ چرخہ کاتنے کا جو دھن ہے وہ کہیں زیادہ سریلا ہے۔ خطوط، سندیش اور ٹیلی گرامز جو انہیں موصول ہوئے تھے، انہوں نے اسے شائع/نشر کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ انہیں ایسا لگنے لگا تھا کہ جب ان کی باتیں کوئی کان نہیں دھر رہا ہے تو پھر ان نیک خواہشات اور سندیشوں کا کیا مطلب ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ سارے پیغامات ان کے لئے پیغامات نہیں بلکہ تعزیت نامہ ہیں۔
بہتیرے سندیش جو انہیں ملے، ان میں ایک سندیش تھا لاڑد اسمے کا (وائسرائے کے دفتر سے)بھی تھاــــ’بھگوان آپ کو لمبی عمر عطا کرے تاکہ ہم سب کو امن کی راہ پر چلنے میں آپ کی راہ نمائی ملتی رہے۔’ ہندوستان میں، پاکستان کے ہائی کمشنر ذاکر حسین کا پیغام تھا—’آج کی ہندوستانی عوام (جس میں پاکستانی بھی شامل ہیں) ایک قسم کی آفت سے دو چار ہے۔اس کی وجہ نا قابل بیان نفرت اورعداوت ہے۔ ایسے وقت میں جب ہم شدید مصیبت میں مبتلا ہیں، ہم سب کی نگاہیں آپ کی جانب ٹکی ہیں…’
80سالہ لیڈی پیتھک-لارنس کا پیغام ملا حظہ کیجیے—2 اکتوبر ہماری شادی کی سالگرہ بھی ہے…آپ نے دنیا کی تاریخ میں ایک چھاپ چھوڑا ہے، جو صدیوں تاک باقی رہے گا۔ گزشتہ سال آپ نے کہا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ اپنا شتک منائیں؛ میں تہہ دل سے چاہتی ہوں کہ آپ کی یہ خواہش ضرور پوری ہو…’
سر اسٹیفورڈ کرپس دور سے ہی گاندھی جی کے اس ذہنی کرب کو محسوس کر رہے تھے، جس سے گاندھی جی بٹوارہ کے بعد دو چار تھے۔ ہندوستان میں جو تکلیف دہ واقعات رو نما ہو رہے تھے، ان میں برٹش سرکار کا جو رول تھا اس کا انہیں شدید احساس تھا۔ انہوں نے لکھا تھا—’میں جان بوجھ کر آپ کو خط لکھنے سے بچنا چاہتا تھا، تب جب آپ کا ملک ایسے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ برائیوں کا جواب اچھائی سے دینے کی آپ کی جو کاوش رہی ہے، اس کے مداح یہاں آپ کے کئی دوست ہیں۔ ہم آپ کے ملک کی خوشحالی کے لئے دعا گو ہیں۔ ہم آپ کے کام اور کوششوں سے سچ مچ بہت متاثر ہیں۔ تاریخ میں کی گئی غلطیاں آج کی بد حالی کے لئے ذمہ دار ہیں۔ ان کی یاد ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ تی ہے اور تکلیف پہنچاتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کی کوششوں سے آپ کے ملک میں ہورہے فرقہ وارانہ فسادات پر قا بو پا لیا جائے گا۔ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ترقی کی راہ طے کریں گے…’
Categories: فکر و نظر