خصوصی رپورٹ : راجستھان کے سیکر ضلع کے دیورالا گاؤں میں چار ستمبر 1987 کو بیماری سے شوہر کی موت کے بعد ان کی چتا پر جلکر 18 سالہ روپ کنور کی بھی موت ہو گئی تھی۔
راجستھان میں 32 سال پہلے ہوا روپ کنور ستی معاملہ ایک بار پھر سے سرخیوں میں ہے۔ چار ستمبر 1987 کو سیکر ضلع کے دیورالا گاؤں میں اپنے شوہر کی موت کے بعد اس کی چتا پر جلکر 18 سال کی روپ کنور ‘ ستی ‘ ہو گئی تھی۔دسمبر 1829 میں برٹش حکومت کے ذریعے اس روایت پر پابندی لگائے جانے کے 158 سال بعد پوری دنیا کا دھیان ستی ہونے کے اس معاملے نے کھینچا تھا۔ 4 ستمبر 1987 کو ہوئے اس واقعہ میں 32 لوگوں کو گرفتار کیا گیاتھا جو سیکر کورٹ سے اکتوبر 1996 میں بری ہو گئے۔
اس کے بعد 16 ستمبر 1987 کو راجپوت سماج نے روپ کنور کی تیرہویں(13 دن کے سوگ کی روایت) کے موقع پر چنری مہوتسو کا انعقاد کیا تھا۔ اس جشن میں دیورالا گاؤں میں لاکھوں لوگ جمع ہو گئے تھے۔جشن کا انعقاد ہائی کورٹ کی روککے باوجود کیا گیا۔ حالانکہ اس معاملے میں کوئی مقدمہ نہیں بنا۔ اسی لئے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھا۔
ابھی موضوع بحث کیوں؟
اس کے بعد روپ کنور کی پہلی سالگرہ کے موقع پر 22 ستمبر 1988 کو راجپوت سماج کے لوگوں نے دیورالا سے اجیت گڑھ تک ایک جلوس نکالا، لیکن بارش کی وجہ سے جلوس زیادہ آگے نہیں جا سکا۔اس کے بعد رات کے 8 بجے ایک ٹرک میں 45 لوگوں نے اجیت گڑھ کے لئے جلوس نکالا۔ اس میں استعمال کئے ٹرک پر ‘ جئے روپ کنور کی جئے ‘ کا بینر لگا تھا۔ ملک کے کئی حصوں سے آئے راجپوت سماج کے لوگوں نے ننگی تلواریں لہرائیں اور ستی روایت کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی۔
پولیس نے اس معاملے میں ستی کی روایت کو بڑھاوا دینے کے الزام میں تمام 45 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔گرفتاری کے چار دن بعد ہی 26 ستمبر 1988 کو ملزمین کے خلاف کورٹ میں چالان پیش کیا گیا۔ کئی دہائی تک چلی سماعت کے بعد 2004 میں عدالت نے 45 میں سے 25 ملزمین کو بری کر دیا۔ سماعت کے دوران 6 ملزمین کی موت ہو گئی اور 6 ملزم فرار بتائے گئے۔
اس طرح باقی بچے آٹھ ملزمین کے خلاف سماعت آخری دور میں ہے، لیکن حال ہی میں ایک اور ملزم لکشمن سنگھ نے کورٹ میں خود سپردگی کر دی ہے۔ اسی لئے اب ستی کی روایت کو بڑھاوا دینے کے الزام میں 9 لوگوں کے خلاف سماعت ہونی ہے۔یہ سماعت ستی روک تھام کورٹ میں اپنے آخری دور میں ہے اور اس معاملے میں کبھی بھی فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ اسی لئے 1987 میں ہوا ستی کاواقعہ ایک بار پھر بحث میں آ گیا ہے۔
2004 میں بری کئے گئے 25 لوگوں میں سے فی الحال راجستھان کی کانگریس حکومت میں نقل وحمل کے وزیر پرتاپ سنگھ کھاچریاواس، پچھلی بی جے پی حکومت میں صحت اور پنچایتی راج کے وزیر رہے راجیندر سنگھ راٹھوڑ، روپ کنور کے بھائی گوپال سنگھ راٹھوڑ اور ایک چچا زاد بھائی سمیت کئی بڑے نام بھی شامل تھے۔سرکاری وکیل نرپت سنگھ نے اسی سال اگست میں خط لکھکر ملزمین کی پھر سے گواہی کی اجازت کورٹ سے مانگی تھی، لیکن بچاؤ اترے وکیل سریندر سنگھ نارکا نے پھر سے گواہی کرانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے کی بات کہی ہے۔
اب معاملے کی اگلی سماعت چار اکتوبر کو ہونی ہے۔ اس میں کورٹ طے کرےگا کہ عدالت میں پھر سے گواہی کی جائے یا نہیں؟ اس کے علاوبچاؤ میں اترےوکیل سرکاری وکیل کے ذریعے لکھے گئے خط کا جواب بھی کورٹ میں پیش کرےگا۔ملزمین وکیل سریندر سنگھ نے بتایا کہ شرون سنگھ، مہیندر سنگھ، نہال سنگھ، جتیندر سنگھ، ادے سنگھ، نارائن سنگھ، بھنور سنگھ اور دشرتھ سنگھ کے خلاف ابھی ٹرائل چل رہا ہے۔ کورٹ بعد میں ان کا فیصلہ سنائےگی۔
وہیں، سرکاری وکیل نرپت سنگھ کا کہنا ہے کہ کورٹ کی اگلی سماعت میں حال ہی میں سرینڈر ہوئے ملزم لکشمن سنگھ پر الزام طے ہوںگے اور پھر سے گواہی کرانے کو لےکر لکھے خط کا جواب ملزم کے وکیل کورٹ میں پیش کریںگے۔
روپ کنور ستی معاملہ ، جس نے وزیراعلیٰ کی کرسی چھین لی
یہ واقعہ 4 ستمبر 1987 کو پیش آیا تھا۔ سیکر ضلع کے دیورالا گاؤں میں راجپوت سماج کے مال سنگھ (24) کے پیٹ میں تین ستمبر کی شام کو اچانک درد اٹھا۔ ان کو علاج کے لئے سیکر لایا گیا اور چار ستمبر کی صبح ان کی موت ہو گئی۔جئے پور کے ٹرانسپورٹ کاروباری بال سنگھ راٹھوڑ کے چھے بچوں میں سب سے چھوٹی 18 سال کی روپ کنور کی مال سنگھ سے محض آٹھ مہینے پہلے ہی جنوری میں شادی ہوئی تھی۔ مال سنگھ کی موت کے بعد اس کی چتا پر روپ کنور بھی جلکر ستی ہو گئی تھیں۔
حالانکہ راجپوت سماج اور گاؤں والوں نے کہا کہ روپ کنور اپنی خواہش سے ستی ہوئی ہے لیکن پولیس جانچ میں یہ بات صحیح نہیں نکلی کہ روپ کنور اپنی خواہش سے ستی ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے اس وقت روپ کنور پر ستی ہونے کے لئے دباؤ بنایا گیا تھا۔مقامی اور راجپوت سماج کے لوگوں نے روپ کنور کو ستی ماتا کا روپ دے دیا اور اس کی یاد میں چھوٹے سے مندر کی تعمیر بھی کر دی۔
اس کے بعد راجپوت سماج نے 16 ستمبر کو دیورالا گاؤں میں چتاستھل پر چنری مہوتسو کا اعلان کر دیا۔ جئے پور میں کئی خاتون تنظیموں ، سماجی کارکنان اور وکیلوں نے راجستھان ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جے ایس ورما کے نام اس تقریب کو روکنے کے لئے خط لکھی اور ورما نے اس خط کو ہی پی آئی ایل مانکر تقریب پر روک لگا دی۔ہائی کورٹ نے چنری مہوتسو کو ستی روایت کو بڑھاوا دینے والا مانا اور حکومت کو حکم دیا کہ یہ تقریب کسی بھی حالت میں نہ ہو۔
چیف جسٹس کے نام خط لکھنے والوں میں سے ایک راجستھان وومن کمیشن کی سابق صدر لاڈ کماری جین اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،’چار ستمبر کے واقعہ کے بعد 14 ستمبر کو ہم وزیراعلیٰ سے ملنے سکریٹریٹ گئے تھے، لیکن وزیراعلیٰ ہری دیو جوشی ہم سے نہیں ملے۔ شروعات میں پوری حکومت بالواسطہ طور پر اس روایت کی حمایت کر رہی تھی۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘اس ‘قتل ‘کے خلاف ہم نے 14 ستمبر کو سیکڑوں خواتین کے ساتھ جئے پور میں ایک بڑی ریلی نکالی اور اسی دن ہم نے خاتون وکیل سنیتا ستیارتھی کے ساتھ ملکر ایک پیج پر چیف جسٹس کے نام خط لکھا۔ 15 ستمبر کو کورٹ میں سماعت ہوئی۔ ستی روایت کے حق میں کافی وکیل کورٹ میں تھے، اس کے خلاف گنتی کے وکیل ہی کھڑے ہوئے۔ شام تک کورٹ نے چنری مہوتسو پر روک لگا دی تھی۔ ‘جین الزام لگاتے ہوئے کہتی ہیں،’اس وقت انتظامیہ نے سیکر ایس پی کے ذریعے دیورالا میں اطلاع بھجوا دی کہ کورٹ نے جشن پر روک لگا دی ہے اسی لئے اس کو وقت سے پہلے ہی کر لیا جائے۔ ‘
لاڈ کماری آگے کہتی ہیں،’روککے باوجود 10 ہزار کی آبادی والے دیورالا گاؤں میں 15 ستمبرکی رات سے ہی لوگ جمع ہونے لگے۔ اگلے دن صبح تک گاؤں میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ جشن کے لئے جمع ہو گئے۔ ہائی کورٹ کے احکام پر عمل کرنے کے لئے مجبور پولیس دیورالا سے چار کلومیٹر دور ہی کھڑی رہی۔ پولیس تماش بین بنی رہی اور لوگوں نے طے وقت 11 بجے سے پہلے ہی صبح 8 بجے جشن منا لیا۔ ‘
جین آگے کہتی ہیں،’اس وقت چاہے کانگریس ہو یا بی جے پی تمام پارٹیاں صرف دکھنے کے لئے مخالفت میں تھے۔ ان کے ایکشن سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بالواسطہ طور پر ستی روایت کی حمایت میں ہیں۔ نہ تو اقتدار کے کسی ایم ایل اے نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور نہ ہی حزب مخالف جماعتوں کے کسی رہنما نے۔ کیونکہ 1990 میں اسمبلی کے انتخاب ہونے تھے اسی لئے رہنما عوام کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے تھے، خاص طور پر پورے راجپوت سماج کی۔ جشن میں دونوں پارٹیوں کے کئی ایم ایل اے بھی شامل ہوئے تھے۔ ‘جئے پور کے ٹرانسپورٹ نگر علاقے میں رہ رہے روپ کنور کے بھائی گوپال سنگھ راٹھوڑ کی رائے لاڈ کماری سے الگ ہے۔ وہ اپنی بہن کو دیوی کے مانند مانتے ہیں۔
ٹرانسپورٹ کاروباری گوپال سنگھ راٹھوڑ کہتے ہیں،’ہمارے لئے روپ کنور دیوی ماں کے مانند ہیں اور بےحد قابل احترام ہیں۔ آج بھی ہرسال جل جھولنی ایکادشی کو دیورالا میں ستی کا میلا لگتا ہے۔ آس پاس کے گاؤں سمیت گجرات سے بھی سیکڑوں لوگ وہاں آتے ہیں ۔ پورا دن ستی کی جوت جلتی ہے اور بھجن-کیرتن ہوتا ہے۔ اسی ستمبر کی نو تاریخ کو دیورالا میں بڑا میلا لگا۔ آس پاس کے لوگوں میں ستی کے تئیں عقیدت ہے۔ ‘
چنری مہوتسو کو یاد کرتے ہوئے گوپال بتاتے ہیں،’اس دن دیورالا میں لاکھوں لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ہائی کورٹ نے جشن نہیں ہونے کے حکم دئے تھے، لیکن اس وقت کے وزیراعلیٰ ہری دیو جوشی نے سوچ سمجھ سے کام لیا اور پولیس کو گاؤں سے چار کیلومیٹر دور ہی رکنے کا زبانی حکم دیا۔ کیونکہ اگر پولیس کا گاؤں والوں سے مقابلہ ہوتا تو ہزاروں لوگوں کی جان جاتی۔ ‘
ستی روایت غلط اور صحیح کے سوال پر گوپال کہتے ہیں،’میں بھی ستی روایت کی مخالفت میں ہوں، لیکن روپ کنور روایت کے بجائے اپنی خواہش سے ستی ہوئی تھیں۔ جو کہ راجپوت تہذیب کے مطابق صحیح ہے۔ روایت کے تحت تو تمام بیواؤں کو ستی ہونا ضروری تھا۔ ‘انہوں نے کہا، ‘روپ کنور کی اپنے شوہر سے اتنی محبت تھی کہ وہ ان کے بنا زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اگر ستی ہونے کے لئے کسی نے ان پر دباؤ ڈالا ہوتا تو ہم سب سے پہلے ان پر مقدمہ کر دیتے، لیکن اس گاؤں میں ہماری کافی رشتےداریاں ہیں، پھوپھی-بہن پہلے سے بیاہی ہوئی ہیں تو ہمیں یہی پتہ چلا کہ روپ کنور اپنی خواہش سے ستی ہوئی ہے۔ ‘
روپ کنور ستی واقعہ کے بعد دیورالا اور جئے پور میں ملکی-غیر ملکی میڈیا کی بھیڑ لگ گئی۔ اس واقعہ نے پوری دنیا میں ہندوستان کی امیج خراب کی۔ تب کی مرکزی وزیر مارگریٹ الوا نے جولائی 2016 میں جئے پور میں اپنی آپ بیتی’کریج اینڈ کمٹ منٹ’ کی رسم رونمائی کے موقع سے دیورالا ستی مقدمہ سے جڑا ایک قصہ سنایا تھا۔بقول الوا، ‘دیورالا ستی واقعہ کی مخالفت پر تب کے کچھ راجپوت رکن پارلیامان مجھ سے آکر ملے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ عیسائی ہیں، راجپوتوں کی روایتوں کے بارے میں کیا جانتی ہیں؟ تب میں نے ان کو جواب دیا کہ آپ کے گھروں میں جو ماں-بہنیں بیوہ ہیں، ان کو ستی کیوں نہیں کیا گیا؟
‘کتاب کے مطابق، الوا نے اسی تقریب میں کہا تھا کہ دیورالا مقدمہ کے بعد انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو استعفیٰ کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے استعفیٰ نامنظور کر دیا اور کہا کہ آپ استعفیٰ کیوں دیںگی جو لوگ قصوروار ہیں ان کو استعفیٰ دینا چاہیے۔اس کے بعد راجستھان کے اس وقت کے وزیراعلیٰ ہری دیو جوشی کو کانگریس قیادت نے گورنر کو اپنا استعفیٰ سونپنے کی ہدایت دے دی۔ اس طرح روپ کنور ستی واقعہ نے وزیراعلیٰ کی کرسی ہری دیو جوشی سے چھین لی۔
تنقید کے بعد راجستھان حکومت بل لائی
روپ کنور ستی واقعہ سے راجستھان کی ملک بھر میں تنقید ہونے لگی۔ راجستھان کے اس وقت کے وزیر داخلہ گلاب سنگھ شکتاوت کی صدارت میں کمیٹی بنی۔ ریاستی حکومت ایک اکتوبر 1987 کو ستی روک تھام اور اس کو بڑھاوا دینے کو لےکر ایک بل لائی جس کو اس وقت کے وزیراعلیٰ ہری دیو جوشی کی صدارت میں کابینہ نے منظوری دی۔
بل کے تحت کسی بیوہ کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر ستی ہونے کے لئے اکسانے والوں کو پھانسی یا عمر قید کی سزا دینے اور ایسے معاملوں کو بڑھاوا دینے والوں کو سات سال قید اور زیادہ سے زیادہ 30 ہزار روپے جرمانہ لگانے کا اہتمام رکھا گیا۔کابینہ کے ذریعے بل منظور کرنے کے بعد اس وقت کے گورنر بسنت دادا پاٹل نے راجستھان ستی روک تھام بل 1987 پر دستخط کر دیے۔ بعد میں ستی (روک تھام) قانون کو راجستھان حکومت کے ذریعے 1987 میں قانون بنایا۔ حکومت ہند نے اس کو 1988 میں وفاقی قانون میں شامل کیا۔
روپ کنور کے بھائی گوپال سنگھ راٹھوڑ اس قانون کو غلط مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’ہماری مذہبی شناخت کے درمیان قانون نہیں آنا چاہیے۔ اسی لئے ہم اس قانون کےخلاف ہیں۔ اکتوبر میں بل لانے کے بعد بھی راجپوت سماج نے جئے پور کے رام لیلا میدان میں قانون کی مخالفت کی تھی۔ میں ستی روایت روک تھام قانون کی مخالفت میں آج بھی ہوں۔ ‘قانون کی مخالفت اور ستی میں ان کی مذہبی شناخت کی تصدیق گوپال سنگھ کے آفس کے کمرے کے پوجاگھر میں رکھی روپ کنور کی چتا پر بیٹھی تصویر کر رہی ہے جس کو آسمان سے دیوتا آشیرواد دے رہے ہیں۔
1987 کے بعد راجستھان میں ستی کے 24 کیس سامنے آئے
راجستھان ستی قانون بننے کے بعد اس کے تحت راجستھان میں ستی کے 24 کیس درج کئے گئے گئے ہیں۔ ان میں سے 13 کیس 1987 میں، سات کیس 1988، دو 1989 اور ایک ایک کیس 1993 اور سال 2000 میں سامنے آئے ہیں۔ان تمام معاملوں میں کل 151 لوگوں کو ملزم بنایا گیا۔ ان میں سے 129 کو بری کیا جا چکا ہے۔ نو ملزمین پر ابھی ٹرائل چل رہا ہے۔ باقی بچے 13 ملزمین میں سے کچھ کی موت ہو گئی اور کچھ فرار چل رہے ہیں۔
حالانکہ روپ کنور کیس ستی ہونے کا آخری کیس ہے، جس میں کسی خاتون کی موت ہوئی ہے۔ اس کے بعد درج ہوئے معاملوں میں خواتین نے ستی ہونے کی کوشش کی، لیکن ان کو بچا لیا گیا۔سینئر صحافی جتیندر سنگھ شیخاوت کہتے ہیں،’راجپوتوں کی نظر میں ستی ہونا صحیح اور روایتی معاملہ تھا لیکن جدید سماج میں ایسے واقعات کی مخالفت ہونی ہی تھی۔ راجپوتوں نے روپ کنور کی ستی ہونے کی حمایت میں جئے پور میں کافی مظاہرہ کیا تھا، جس سے حکومت بھی تھوڑی ڈر گئی تھی۔وہ کہتے ہیں،’لیکن جتنے راجپوت اس واقعہ کی حمایت میں تھے، اتنا ہی تیز مظاہرہ اس روایت کی مخالفت میں بھی دیکھنے کو ملا تھا۔ لیفٹ تنظیموں سے جڑے لوگوں نے ان مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ ‘
آٹھ مہینوں میں شوہر کے ساتھ صرف 20 دن رہی تھی روپ کنور: فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ
روپ کنور کی ستی کے کیس کے بعد ممبئی یونین آف جرنلسٹ نے خاتون اور میڈیا کی ایک ٹیم بنائی تھی۔ تین ممبروں کی اس ٹیم کی 40 پیج کی رپورٹ میں روپ کنور کیس اور اس کی میڈیا رپورٹنگ کو باریکی سے سامنے رکھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق روپ کنور 10ویں کلاس تک پڑھی تھیں اور ان کے شوہر مال سنگھ گریجویٹ تھے مال سنگھ کے والد سمیر سنگھ گاؤں کے ہی ایک اسکول میں پرنسپل تھے۔دونوں کی 17 جنوری 1987 کو شادی ہوئی۔ جنوری سے چار ستمبر 1987 تک شادی کے ان 8 مہینوں میں روپ کنور شوہر مال سنگھ کے ساتھ صرف 20 دن ہی رہی تھی۔ اس میں زیادہ تر دن شادی کے بعد تو کچھ دن روپ کنور کی موت سے پہلے دونوں نے ایک ساتھ گزارے تھے۔
اس بارے میں روپ کنور کے بھائی کہتے ہیں، ‘ مجھے اس بارے میں صحیح سے یاد نہیں کہ دونوں ایک ساتھ کتنے دن رہے تھے، لیکن دونوں شوہر-بیوی ساتھ میں کم ہی دن رہے تھے۔ شادی کے بعد زیادہ تر دن روپ کنور نے اپنی ماں کے گھر میں ہی گزارا تھا۔ ‘رپورٹ کہتی ہے کہ روپ کنور کے ستی ہونے اور مال سنگھ کی موت کے بارے میں اس کے والد بال سنگھ راٹھوڑ کو اگلے دن اخباروں کی خبروں سے پتہ چلا تھا۔ جبکہ جئے پور سے دیورالا کی دوری محض دو گھنٹے کی ہی تھی۔
گوپال سنگھ کے مطابق، ان کو واقعہ کے اگلے دن راجستھان پتریکا کے نامہ نگار وشن سنگھ شیخاوت (راجستھان کے سابق سی ایم اور نائب صدر بھیروسنگھ شیخاوت کے چھوٹے بھائی) نے فون کر کےبتایا تھا۔رپورٹ کے مطابق، واقعہ کے 11 دن بعد کافی مخالفت کی وجہ سے راجستھان کے اس وقت کے وزیراعلیٰ ہری دیو جوشی نے ٹیلی ویژن پر واقعہ کی مذمت کی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ گلاب سنگھ شکتاوت واقعہ کے وقت سوکھا متاثر علاقے کے دورے پر نکلے تھے۔ شکتاوت کا دعویٰ تھا کہ ان کو واقعہ کے بارے میں 7-8 ستمبر کو جیسے ہی پتہ چلا انہوں نے اس کی جانچکے حکم دے دئے۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے روپ کنور معاملے میں ہندی، انگریزی اور تمام میڈیا کی رپورٹنگ اس کیس کے بارے میں کی گئی تفصیلی خبروں کے بارے میں بھی رپورٹ سونپی تھی۔’ ساماجک کاریہ کرتا اور وودھا: مہیلا آلیکھن ایوم سندربھ کیندر’ کی سکریٹری ممتا جیتلی نے دیورالا ستی کیس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔’روپ کنور: دیہہ دہن سے عدالتوں تک ‘ واقعہ کی تفصیل بتاتی ہے اور آخر میں عورتوں کی آزادی کے نظریے سے کئی اہم سوال اٹھاتی ہے۔
اس معاملے میں انتظامیہ کا ڈھیلا رویہ، سیاسی قوت ارادی کی کمی اور عدالت کے احکام کی توہین کے کئی قصّہ بتائے گئے ہیں۔کتاب کے مطابق، ‘دیورالا کا واقعہ کو بل کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا تھا، لیکن فرمان جاری ہونے کے بعد ستی کی حمایت میں ہو رہی سرگرمیاں ا س کے دائرے میں آ رہی تھیں۔ مگر ذاتوں اور تمام گروپوں سے جڑے لوگوں نے اس کی کھلےعام دھجیاں اڑائیں۔ راجپوت سماج کے لوگوں نے ستی ہونے کو اپنی روایت کے طور پر جوڑا۔ ‘
کتاب کے مطابق، ‘اس وقت ستی دھرم رکشا کمیٹی کی تشکیل ہوئی اور کچھ لوگوں نے اس سے اپنی سیاست شروع کی۔ کتاب کے مطابق اس وقت ستی کی حوصلہ افزائی میں جئے پور اور الگ الگ مقامات پر 22 سے زیادہ انعقاد ہوئے، لیکن اس میں سے کارروائی صرف 1988 والے واقعہ میں ہی ہو سکی۔ ‘ممتا کہتی ہیں،’روپ کنور کے کیس میں مذہب، سیاست اور پدری سماج کا جو گٹھ جوڑ دکھائی دیا اس سے یہ تو طے ہو گیا کہ حکومت بھی پدری ذہنیت سے متاثر ہے۔ اسی لئے اس کا جھکاؤ انہی طاقتوں کی طرف ہے۔ ‘
بہر حال روپ کنور کی موت کو جائز ٹھہرانے کی بھی جو دلیل تب تھی وہ اب بھی دی جا رہی ہیں اور جو مخالفت میں تھے وہ 32 سال بعد بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر