گریتا کا یہ احتجاج دنیا کو بچانے کے لیے ہے۔ موجودہ وقت میں اس کا یہ احتجاج بین الاقوامی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔دنیا بھرسے لوگ اس کے ساتھ جڑ رہےہیں۔
ان دنوں ماحولیات پر باتیں ہورہی ہیں ،اورایک نام سب کی زبان پر ہے گریتا تُنبیرکاجس کو گریٹا تھنبرگ بھی لکھا جارہا ہے۔دراصل یہ پوری کہانی سویڈن کی گریتاسے شروع ہوئی ،جس نےمحض 11 سال کی عمر میں ہی موسمیاتی تبدیلی کےاثرات اور اس کےبحران کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔جس عمر میں بچے کھیل کود اور اپنے شوق کو پوراکرنے کی دھن میں ہوتے ہیں اس عمر میں گریتا نےماحولیات کےمسئلے پرسوال اٹھا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔
ننھی سویڈیش لڑکی گریتاکاتعلق ایسی فیملی سے ہے جس میں سب کسی نہ کسی طرح تھیٹر سے وابستہ ہیں۔گریتا کی والدہMalena Ernman اوپیرا سنگر ہیں، جو2009میں Eurovision Song Contestمیں سویڈن کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ والد Svante Thunberg رائٹر،ایکٹر،اور پروڈیوسرکے طور پر مشہور ہیں۔گریتا کے داد اولف(Olof Thunberg) بھی معروف ڈائریکٹر اور اداکاررہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گریتا کا رشتہ مشہور سائنسداں Svante Arrhenius بھی ہے، یہ وہی سائنسداں ہیں جن کو کیمسٹری کے لیے نوبیل ایوارڈ(1903) مل چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ پہلے سویڈیش تھے جن کو یہ اعزاز ملا تھا۔ان کو گلوبل وارمنگ کے شعبے میں بھی ان کی بیش بہا خدمات کے لیے جانا جاتا ہے۔شاید وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس بات کی تحقیق کی کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈکی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہواہے۔اس طرح ان کو گرین ہاؤس ایفکٹ شعبے میں بھی بنیاد گزار کی حیثیت حاصل ہے۔
اس طرح کے خاندانی پس منظر میں گریتا نے اپنی آنکھیں کھولی ہیں تو شاید کہہ سکتے ہیں کہ ماحولیات میں اس کی دلچسپی اور اس کو لے کر اس کی تحریک میں حیران کرنے والی بہت سی باتیں ہیں ،لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر یقین نہ کیا جاسکے۔ان باتوں سے قطع نظر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہر دن ہماری فضا آلودہ ہورہی ہے۔پانی کے ذخائر میں کمی کی خبریں آرہی ہیں ۔لیکن کوئی کچھ کر نہیں رہا ،ایسے میں گریتا کاماننا کہ ہم اس مسئلے سے اب اور نظریں نہیں چرا سکتے اصل میں اس دنیا کی بے حسی کو کریدنا ہے۔شاید اس لیے اس کا غصہ بھی جائز لگتا ہے کہ ،اگر ہم نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں توہم اپنے مستقبل کو دیکھنے کے لئے زندہ نہیں رہیں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2018سویڈن کی تاریخ کا سب سے گرم سال گزرا ہے۔وہاں جنگلوں میں آگ لگنے کی وجہ سےدرجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔چوں کہ گریتا حساس طبعیت کی مالک ہے اس لیے اس نے ان باتوں کا کافی اثرقبول کیااور اپنےوالدین سے ماحولیاتی تبدیلی کے بارےمیں باتیں کی۔ان کواحساس دلایا کہ کس طرح ہم لوگ اپنے ماحولیاتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں گریتا نے بتایا کہ کس طرح اس نے اپنے والدین کو زمین کی حفاظت کے لئے سبزی خور بننے پر راضی کیا۔کلاس میں خاموشی سے پیچھے بیٹھنے والی گریتا اس قدر حساس ہے کہ اس نے دوسروں سے زیادہ اپنے آس پاس کی چیزوں کا اثر قبول کیااورآج وہ پوری دنیا کے سامنے اپنی بات کھل کر کہہ رہی ہے اورعالمی رہنماؤں کوان کی غلطی کے لیے شرمندہ کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔
گریتااپنے مشن میں اکیلی نہیں ہے۔دراصل ماحولیات کے حوالے سے گریتا اور اس کی فیملی نے مل کر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان Our House Is On Fire: Scenes of a Family and a Planet in Crisisہے، یہ کتاب مارچ 2020 میں شائع ہونے والی ہے۔
دی گارڈین کے مطابق،گریتا کی ماں نے گریتا کے کہنے پر اپنے کیریئرتک کو چھوڑدیا ہےاور انہوں نے الگ سے اپنی فیملی کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کا انگریزی ترجمہ Scenes From the Heartکے نام سے شائع ہوچکا ہے۔اس کتاب میں ملینا نے اپنی بیٹی گریتا کی جدو جہد کےبارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔انہوں نےاس میں یہ بھی بتایاہے کہ گریتا ایک قسم کے آٹزم میں مبتلا ہے جس کو وہ اپنی بیماری نہیں بلکہ طاقت سمجھتی ہے۔
گریتا کی جس تحریک کی باتیں زور وشور سے ہورہی ہیں ،اس کو لے کر اس نے اگست 2018میں ایک مہم شروع کی جس کا نام ؛اسکول اسٹرائیک فار کلائمیٹ یافرائیڈے فار فیوچررکھا۔اس مہم کے تحت ہرجمعہ وہ اسکول جانے کے بجائے اسٹاک ہوم میں سویڈن پارلیامنٹ کے سامنے احتجاج کرنے لگی۔اس کا کہنا تھا کہ،اگر دنیا ہی نہیں بچی،اگر لوگ نہیں بچے، تواسکول جانے کا کیا مطلب ہے؟
گریتا کا یہ احتجاج دنیا کو بچانے کے لیے ہے۔ موجودہ وقت میں اس کا یہ احتجاج بین الاقوامی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔دنیا بھرسے لوگ اس کے ساتھ جڑ رہےہیں۔ بچے اسکول چھوڑ کراس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق مارچ2019تک اس تحریک سے 135 ملکوں کے 20لاکھ بچے جڑ چکے ہیں۔وہیں اگست 2019تک یہ تعداد 36 لاکھ ہو چکی ہے۔
گریتاکا مقصد دنیا بھر کے رہنماؤ ں کو اس مسئلہ کی طرف متوجہ کرانا ہے۔وہ کہتی ہے ،خواب دیکھنے کا وقت گزر گیا ہے اب جاگنے کا وقت ہے۔وہ عالمی رہنماؤں سے سائنس کو سمجھنے کی اپیل کرتی ہے؛ یعنی موسمیاتی تبدیلی کا جو پورا سرکل ہے اسے سمجھنا اور مستقبل میں اس کے مزید منفی اثرات سے دنیا کو بچانے کاحل سائنس کے ذریعہ سے تلاش کرنا ہی اول ہے۔گریتا کا کہنا ہے کہ اگر دنیا بھر کےرہنماؤں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تو ہمیں یعنی بچوں کو خود آگے بڑھ کراپنی زندگی کو بچانا ہوگا۔رہنماؤں کے جھوٹے وعدوں سے اب اپنے آپ کو مزیدبہلانا ٹھیک نہیں،ہمیں اپنی آوازخودبلند کرنا ہوگا۔
گزشتہ ایک سال میں گریتا دنیا بھر کی تقریباً ہر اہم کانفرنس میں حصہ لے چکی ہے۔2018 میں اقوام متحدہ کے ایک ادارے انٹر گورنمنٹ پینل آن کلائمیٹ چینج کی رپورٹ کے مطابق سینٹ کی کمیٹی نے بھی گریتا کو بلا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ اور اس کی ہم عمر دراصل موسمیاتی تبدیلی کے متعلق کیا سوچتی ہے۔حالاں کہ گریتارہنماؤں پر کم ہی بھروسہ کرتی ہے اور وہ اپنے عزم کی اتنی پکی ہے کہ اس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ وقت کی بربادی ہے۔
دی اکانومکس ٹائمس کے مطابق،گریتااپنی اس مہم میں اکیلی نہیں رہی بلکہ ہندوستان جیسے ملک کی11 سالہ بچی ردھیما پانڈےبھی اس مہم میں شامل ہے۔ردھیما کی بات کریں تو وہ اس بات سے فکر مندہے کہ گرمیوں کے دوران بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے گنگا کو کس طور سے متاثر کیا ہے۔وہ کہتی ہے ،میں اپنا مستقبل بچانا چاہتی ہوں،میں مستقبل کا مستقبل بچانا چاہتی ہوں۔
ایک رپورٹ کی مانیں توہندوستان موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔اعداد وشمار کے مطابق زمین کے درجہ حرارت میں 3سے 6ڈگری کااضافہ ہوا ہے۔ہر دس سال بعد درجہ حرارت میں کچھ اضافہ ہوتا ہے۔ہرسال ہندوستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے افراد ہلاک ہو تے ہیں۔ حال ہی میں جرمن واچ کی رپورٹ کے مطابق،1998سے 2017تک موسمیاتی تبدیلی کےباعث دنیا بھر میں 5.2لاکھ افراد کی جانیں گئی ہیں۔
اس طرح کے اعداد وشمار اور ہو سکتے ہیں ،لیکن یہی وہ وقت ہے کہ اگر ہم نے گریتا کی باتوں پر توجہ نہیں دی تو کھوکھلے دعوو ں اور باتوں کا شور بڑھتا جائے گا اور ہم اس شورکے بھنور میں اپنی زندگی تباہ کر لیں گے۔شاید اس لیے گریتاعالمی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے جذباتی طور پر کہہ اٹھتی ہے کہ،اگر آپ ہمیں ناکام بنانا چاہتے ہیں تو ہم نوجوان نسل آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
Categories: فکر و نظر