سرسید کے دور میں گئو کشی کو لے کربڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرسید نے اپنے ہم وطنوں سے باہمی مفاہمت کا طریقہ اختیار کیا اور مختلف اخبارات و رسائل میں گائے کے ذبیحہ کو مسلمانوں سے ترک کرنے کی اپیل جاری کی۔
ہر سال کی طرح آج بھی بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید کے یوم پیدائش 17/اکتوبر کے موقع پر ان کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع سے ہمیں ان کی خدمات کا پھر سے جائزہ لینا چاہئے تاکہ عصر حاضر میں ہندوستانی مسلمان جن سنگین حالات اور حادثات سے دوچار ہیں ان کا حل سرسید کے وژن اور مشن کی روشنی میں تلاش کیا جا سکے۔
آج ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں خاص طور پر ہندی بولنے والی ریاستوں میں‘گائے اور جئے شری رام’کے نام پر پر تشدد ہجوم کے ذریعہ جس طرح بے قصور لوگوں کا قتل کیا جارہا ہے وہ نہ صرف مسلم فرقہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے بلکہ جمہوری اور سیکولر نظام حکومت کے لیے بھی ایک بد نما داغ ہے۔
سرسید کے دور میں گئو کشی کو لے کربڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرسید نے اپنے ہم وطنوں سے باہمی مفاہمت کا طریقہ اختیار کیا اور مختلف اخبارات و رسائل میں گائے کے ذبیحہ کو مسلمانوں سے ترک کرنے کی اپیل جاری کی۔ خاص کر عید الضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں سے کہا کہ وہ ہندو فرقہ کے احساسات اور جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کی قربانی سے پرہیز کریں۔ خود اپنے ادارے میں گائے کے گوشت کے استعمال پر مکمل پابندی لگا کر غیر مسلموں کا دل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
سرسید کا دور مذہبی مناظروں کا دور تھا،سرسید نے مناظروں کی جگہ مذاکروں اور مکالموں کو اہمیت دی اور انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے ذریعہ اسلام اور مسلم دشمن عناصر سے بھی ربطِ باہمی کی فضا پیدا کی جس کی وجہ سے سرسید کو غیر مسلموں کا بھی بھرپور تعاون حاصل ہوا۔ مثال کے طور پرجب وہ بنارس میں تعینات تھے، آریہ سماج تحریک کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کو انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر مدعو کرکے ویدوں کے منتر پڑھوائے کیونکہ بنارس سناتن دھرم کا سب سے بڑا مرکز تھا اور دیا نند سرسوتی ایک خدا کی عبادت کے تصور کو لے کر منظرِ عام پر آئے تھے۔ سرسید کی اس حکمت عملی کی وجہ سے پنجاب کے آریہ سماجی سرسید کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور سرسید کو سب سے زیادہ کامیابی پنجاب میں ہی حاصل ہوئی۔ وہ اہلِ پنجاب کو’زندہ دلانِ پنجاب’خیال کرتے تھے۔
ہندوستانی مسلمان مختلف طبقاتی اور مسلکی جھگڑوں میں گرفتار ہیں، شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی کے نظریاتی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ سرسید کسی بھی طرح کے مسلکی جھگڑے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے جب دینی نصاب تیار کرنے کے لیے اپنے عہد کے ممتاز عالم مولانا قاسم نانوتوی سے درخواست کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس شرط پر نصاب تیار کریں گے کہ اس ادارے میں صرف سنی طلباکو ہی تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں جس پر سرسید نے صفائی سے کہہ دیا تھا کہ ان کے ادارے کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے رہیں گے، حتیٰ کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے ملک میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد واحد ایسی مسجد ہے جہاں سنی اور شیعہ دونوں اپنے اپنے طریقے سے عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح سرسید نے شیخ عبد القادر جیلانی، امام غزالی اور امام ربانی مجددالف ثانی کی مثالوں کو اپنے سامنے رکھا کیونکہ ان بزرگانِ دین کو بھی اپنی مصلحانہ کوششوں میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سرسید اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ہر نئی تحریک اختلافات کی آغوش میں ہی پرورش پاتی ہے۔ سرسید کی مذہبی اور جدید فکر کے مخالف مولانا اکبر آبادی نے شیعہ و سنی کو ایک مرکز پر یکجا ہوتے دیکھا تو انہیں اعتراف کرنا پڑا؛
شکر ہے سنی و شیعہ کا ارادہ نیک ہے
طرزِ طاعت دو سہی، ترکیبِ کالج ایک ہے
سرسید جس دورمیں پیدا ہوئے اس دور کے اپنے تقاضے تھے۔ سرسید عقل سلیم نہیں’عقل کلیم’ کے مالک تھے۔ لہٰذا ان کی عقل کسی بھی موقع پر کلام کرنے سے باز نہیں آئی۔ وہ مسلمانوں کو ملاؤں کی گرفت سے نکالنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیےیکم فروری 1884 کو لاہور کے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا
‘ہمارے بزرگوں کو نہایت آسانی تھی کہ مسجدوں اور خانقاہوں کے حجروں میں بیٹھے بیٹھے قیاس، دلائل اور عقل کو عقلِ براہین سے توڑتے پھوڑتے رہیں اور ان کو ہرگز تسلیم نہ کریں۔ مگر اس زمانے میں نئی صورت پیدا ہوئی ہے جو اس زمانے کے فلسفہ و حکمت کی تحقیقات سے بالکل علیٰحدہ ہے، اب مسائلِ طبعی تجربے سے ثابت کیے جاتے ہیں اور وہ ہم کو دکھائے جاتے ہیں۔ یہ مسائل ایسے نہیں جو قیاس دلائل سے اٹھا دیے جائیں۔’
سرسید اپنے دور کے سب سے بڑے نباض تھے جنہوں نے اپنے زمانے کی رفتار کے رجحان کونہ صرف پہچانا بلکہ اس کا حل بھی تلاش کیا۔ سرسید کے جن کاموں نے شہرتِ دوام حاصل کی اور جن اصلاحی تحریکوں کو قبولِ عام کی سند ملی وہ زیادہ تر تعلیمی، مذہبی اور معاشرتی حیثیت کی حامل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تمام ترکوششوں کے محرک اول وہ سیاسی اسباب تھے جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں نشو ونما پا رہے تھے اور جو پہلی مرتبہ 1857 کے ہیجان عام میں ظاہر ہوئے۔ بقول منشی سراج الدین،1857 کے غدر نے سرسید احمد خاں کی طبیعت کے ساتھ وہی کام کیا جو ایک بجلی گرنے کے واقعے نے لوتھر کے ساتھ کیا تھا۔ اس عظیم سانحہ سے ابھرنے کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی ملک و ملت کے لیے وقف کر دی۔
سرسید اعلیٰ تعلیم کو سیاسی اقتدار کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جیسے جیسے جدید تعلیم کو فروغ حاصل ہوگا، ہندوستانیوں میں سیاسی بیداری خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے تو نہ وہ سیاسی داؤں پیچ جان سکیں گے اور نہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی تناظر میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ تعلیم کے ذریعہ ہی سیاسی حقوق کی بازیافت ہو سکتی ہے۔ امرتسر کے ایک جلسہ کوخطاب کرتے ہوئے سرسید نے کہا تھا کہ اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک ہم کو نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہے تو بھی ہائر ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ مخطوطا طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔
سرسید ہندوستان میں ایک ایسے جمہوری نظام کا خواب دیکھ رہے تھے جس کی شبیہ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں پیش کی ہے؛
‘گورنمنٹ کا فرض ہے کہ جن لوگوں پر وہ حکومت کرتی ہے، جو ان کا کسب و پیشہ و معاش ہے، خواہ آزادی مذہب و آزادی رائے اور آزادی زندگی سے، ان کی محافظ ہو، غیر مساوی قوتوں سے کسی کو نقصان نہ پہنچنے دے….جس گورنمنٹ میں یہ چیزیں نہیں ہیں، وہ گورنمنٹ نامہذب و ناتربیت یافتہ ہوتی ہے اور ا س ملک میں کبھی امن نہیں رہتا۔ ملک کی، مال کی، دولت کی، قوم کی، رعایا کی کبھی ترقی نہیں ہوتی۔’
سرسید کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ سیاست شدت چاہتی ہے اور تعلیم مدت چاہتی ہے۔ سیاست میں اشتعال پیدا ہوتا ہے جبکہ تعلیم سے اعتدال۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب اس ملک کی عوام تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو وہ خود قانون بنائیں گے اور ملک کے اقتدار اور اختیار میں بھرپور نمائندگی کریں گے۔ سرسید کا یہ خواب آزاد ہندوستان کی شکل میں پورا ضرور ہوا لیکن 2019کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ممبران کی ایک بڑی تعداد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ ان ممبران پارلیامنٹ میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو نہ صرف ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے مخالف ہیں بلکہ فسطائی ذہن کے حامل ہیں۔ ایسے منتخب اراکین نہ صرف جمہوریت بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے بھی سنگین خطرہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیا ماڈرن ایجوکیشن کے پیروکار سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے؟
آج ہندوستانی مسلمان نہ صرف سیاست کے میدان میں بے وزن ہو گئے ہیں بلکہ ناخواندگی اور پسماندگی کی وجہ سے زندگی کے ہر میدان میں پچھڑتے جا رہے ہیں۔ ہمیں حکومت سے مطالبہ کرنے کے بجائے خود اپنا احتساب کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں سرسید کے نسخہ کیمیا کو اپنانا چاہئے۔
آج ہندوستان کے اکثریتی طبقہ کے ایک بڑے گروہ کی رائے مسلمانوں کے خلاف ہے جس کا اظہار ماب لنچنگ، ٹی وی مباحثوں اور سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سرسید ان چند بیدار ذہن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے دور کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کی مدد سے رائے عامہ کو مسلمانوں کے حق میں ہموار کیا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو علم و آگہی کا پیغام دیا بلکہ اہل وطن اور انگریزوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاملات کو استوار کرکے خوشگوار معاشرت کے ماحول کی آبیاری کی۔آج کی اصطلاح میں وہ سب سے بڑے رابطہ کار تھے اور ان کی صحافتی کاوشیں آج بھی اردو صحافیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
سرسید نے اپنی پوری تحریک کے دوران مسلمانوں کے لیے حکومت پر بھروسہ کرنے اور مالی امداد حاصل کرنے کے بجائے ‘اپنی مدد آپ’ کے تصور کو پیش کیا تھا۔ سرسید کے دور کی تمام عمارتوں پر لگے کتبوں کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سرسید نے چندہ جمع کرنے کے لیے کیا کیا جتن کیے تھے۔ 8/جنوری1877کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرسید احمد خاں نے کہا تھا؛
‘ہندوستان کی تاریخ میں یہ اول ہی موقع ہے کہ یہ کالج نہ کسی خاص شخص کی فیاضی یا علمی شوق سے اور نہ کسی بادشاہ کی شاہانہ سرپرستی سے بنا ہے بلکہ کل قوم کی متفقہ خواہشوں اور مجتمع کوششوں سے قائم ہوا ہے۔ اس کالج کی بنا اس بات پر ہے جو سابق میں اس ملک کو پہلے کبھی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ یہ کالج بے تعصبی اور ترقی کے اصول پر مبنی ہے جس کی نظیر مشرق کی تواریخ میں نہیں پائی جاتی ہے۔’
مسلمانوں کی علمی عظمت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے سرسیدیہ بھی چاہتے تھے کہ علی گڑھ اپنے اقتدار کو اس طرح کام میں لائے کہ اس کے مشعلِ علم اطرافِ ہند میں مسلمان گھروں میں علمی چراغ روشن کرے اور مسلمانوں میں وہ بصیرت، اولوالعزمی اور بلند نظری پیدا ہو جائے جو ان کو ترقی یافتہ قوموں میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے قابل بنائے اور ان کی قدامت پسندی، تنگ خیالی اور توہمات کو دور کر سکے۔
آج سرسید کے نام کی تسبیح پڑھنے والوں اور مجاوروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مگر ان کی شخصیت اور کارناموں کی پیروی اور تقلید کرنے والوں کی کمی ہے۔ سرسید کو سب سے شاندار خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ہم ان کی تعلیمات سے روشنی حاصل کریں اور عصر حاضر کے مسائل کا حل سرسید کی تعلیمات میں تلاش کریں۔
ممتاز دانش ور پروفیسر محمد مجیب کا کہنا تھا؛
‘سرسید کی معنویت پر گفتگو کرنا اس وجہ سے ضروری اور مفید معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں ان پر کفر کے فتوے لگے تھے۔ ان کے کفر نے ایمان کی راہیں کھول دیں جنہیں اندھی تقلید نے بند کر دیا تھا لیکن سرسید کی نکالی ہوئی راہیں بھی بند گلیاں ہو جائیں گی اگر ہم یہ بھول جائیں کہ راستہ آگے چلنے کے لیے ہوتا ہے، ایک جگہ بیٹھ جانے کے لیے نہیں۔’
زندگی کے کسی دائرہ فکر و عمل میں سرسید کی عظمت اور ان کی شخصیت کے گہرے اور پائیدار اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی سیرت اور افکار میں کوئی بات ایسی ضرور تھی کہ ان کو قومی اور ملی زندگی کے کسی دائرے سے نکال کر پھینکنا تو درکنار، انہیں نظر انداز کرنا بھی ممکن نہ ہو سکا۔ ان کی عظمت کا سورج آج بھی نصف النہار پر ہے اور پوری دنیا میں اور ہر مذہب اور ہر طبقہ فکر میں ان سے محبت کرنے والوں کی تعداد کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔
(مضمون نگار اردو اکادمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےڈائریکٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر