بک ریویو:اس کتاب میں سیڈیشن جیسے پیچیدہ موضوع پراس طرح اور عام فہم زبان میں بات کی گئی ہے کہ پرائمر بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔اس میں میں کچھ ایسے بھی اہم سیڈیشن معاملات پر گفتگو کی گئی ہے جس کا عام طور پر سیڈیشن سے متعلق مباحث میں ذکر نہیں ہوتا۔
تحریک آزادی کے دوران عوامی بغاوت کو کچلنے کے لئے انگریزی حکومت نے جن قوانین کا جم کر اوربےجا استعمال کیا،اس میں سیڈیشن لاء یعنی تعزیرات ہند کی دفعہ 124اے کو سر فہرست رکھا جاسکتا ہے۔ آزادی سے قبل جن اہم شخصیات کے اوپر اس دفعہ کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا اور ان کو سزا ہوئی اس میں بال گنگادھر تلک، اینی بیسینٹ،مہاتما گاندھی،مولانا ابوالکلام آزاد اور جواہر لال نہرو کے نام شامل ہیں۔ ایسے میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آزادی کے بعد جس قانون کوتعزیرات ہند سے سب سے پہلے خارج کیا گیا ہوگا وہ یہی رہا ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، یہ قانون نہ صرف یہ کہ ہمارے تعزیراتی نظام کا اب بھی حصہ ہے بلکہ آج اس کا استعمال پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک طریقہ سے ہو رہا ہے۔
سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ سامراجی حکومت کے دوران اس دفعہ کے تحت سزا سنائے جانے پر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ باغی یا راج دروہی سمجھا جاتا اور کہا جاتا تھا، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ اس قانون کے تحت کسی شخص پر محض مقدمہ قائم ہو جانے سے اسے دیش دروہی اور وطن کا غدار مان لیا جاتا ہے۔ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ کیا آزادی کے بعد اس قانون کو ختم کرنے یا اس میں ترمیم کی کوئی کوشش نہیں ہوئی؟کیا دستوساز اسمبلی میں اس کو لےکر کوئی بحث ہوئی تھی؟ حالیہ دنوں میں جن لوگوں پر اس قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے اور اس طرح کے معاملات میں کورٹ، بشمول سپریم کورٹ کا کیا رویہ رہا ہے، جیسے اہم نکات پر زیر نطر کتاب دی گریٹ رپریشن : دی اسٹوری آف سیڈیشن ان انڈیامیں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔کتاب کے مصنف سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہیں اور قانونی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
گیارہ ابواب اورتین حصوں پر مشتمل یہ کتاب نہات ہی دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے اور بے حد معلوماتی ہے۔اس میں سیڈیشن جیسے پیچیدہ موضوع پراس طرح اور عام فہم زبان میں بات کی گئی ہے کہ پرائمر بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔اس کتاب کے ذریعہ مصنف ہمیں ہندوستان کی کوئی دو سو سالہ تاریخی، سیاسی اور قانونی سفر پر لے جاتے ہیں۔بہر کیف اس قانون کے تعزیرات ہند میں شامل کئے جانے کا پس منظر بیان کرتے ہوئےمصنف لکھتے ہیں کہ؛ سیڈیشن لاء کو نافذ کرنے کا فوری مقصد ‘وہابی تحریک’ کو کچلنا تھا، جو کہ پہلی جنگ آزادی (1857)کے بعد ہندوستان میں اپنی جڑیں جما رہا تھا۔
کتاب میں کچھ ایسے بھی اہم سیڈیشن معاملات پر گفتگو کی گئی ہے جس کا عام طور پر سیڈیشن سے متعلق مباحث میں ذکر نہیں ہوتا، مثلاً مولانا آزاد کا تاریخی کیس۔ میری علم کے مطابق مولانا کی زندگی کا یہ ایک ایسا باب ہے جس کے بارے میں اردو میں بھی نہ کے برابر لکھا گیا ہے۔یہ مقدمہ اس لئے بھی اہم ہے کیوں کہ مولانا نے جو بیان اس مقدمہ کے دوران دیا تھا وہ ازلی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں عدلیہ کے رویے کو بھی سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
مولانا آزاد نے اپنے بیان میں انسانی تاریخ میں عدلیہ کے رویے پر روشنی ڈالتے ہوئے 1921کہا تھا؛
تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمراں طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور نا انصافی، دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور نا انصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔
مولانا کا بیان اگر ہمارے سامنے ہو تو موجودہ دور کے عدالتی رویہ پر ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہوتی۔
کتاب میں اسی طرح کے اور کئی سارے مقدموں کے بارے میں بھی پڑھنے کو ملتا ہے، جس کے ذریعہ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آج ہم اور ہمارا سیاسی و قانونی نظام جہاں پہنچا ہے اس کی وجہ کیا ہے۔اور ناانصافی ،جبر و تشدد کا یہ سلسلہ کیوں جاری ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات بھی نکل کر آتی ہے کہ سیڈیشنجیسا سخت اور ظالمانہ قانون اس لئے بھی ابھی تک ہمارے نظام کا حصہ ہے کیوں کہ اس کو ختم کرنے میں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کسی بھی سیاسی جماعت کی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اس لئے کیوں کہ کسی بھی حکومت کے لئے اپنا اقتدار کو برقرار رکھنے اور عوامی آواز کو دبانے کے لئے اس سے اچھا ہتھیار اور کچھ نہیں ہو سکتا۔