فیک نیوز راؤنڈ اپ: جیسے ہی ویٹنری ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کی خبر میڈیا میں آئی، بی جے پی کے لیڈروں، حامیوں اور میڈیا کے ایک مخصوص حصے نے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع کر دیا جس میں سیاسی لیڈران سے لےکر آئی اے ایس افسر تک شامل تھے۔ سب سے بڑی حماقت اس پروپیگنڈہ میں یہ کی گئی کہ بھگوا پروپیگنڈہ عام کرنے والوں نے مظلوم کی شناخت کو بھی سوشل میڈیا میں واضح کر دیا اور اس کے نام اور تصویروں کے ساتھ مسلمانوں سے اپنی نفرتوں کو عام کیا۔
اس ہفتے صوبہ تلنگانہ کے حیدرآباد سے ایک افسوس ناک خبر آئی۔ ایک 27 سالہ ویٹنری ڈاکٹر کے ساتھ ریپ کیا گیا اور اس کا گلا دبا کر مار دیا گیا۔ قاتلوں کی وحشت اور درندگی اس وقت تمام حدوں کو پار کر گئی جب انہوں نے اس مظلوم کی لاش کو ڈیزل اور پٹرول ڈال کر جلا ڈالا۔
سائبرآباد پولیس نے پریس کانفرنس میں اس ریپ اور قتل سے متعلق جانکاری فراہم کرتے ہوئے کہا کہ قاتلوں میں چار لوگوں پر الزام ہے شراب کے نشے میں دھت تھے۔ ان ملزموں میں محمد پاشا (26 سالہ)، نوین (20 سالہ)، کیشاولو (20 سالہ)، اور شیوا (20 سالہ) شامل ہیں۔ پاشا اور کیشاولو لوری ڈرائیور ہیں جبکہ نوین اور شیوا دونوں لوری کی صفائی کرتے ہیں۔
پولیس کے مطابق ڈاکٹر 27 نومبر کو غائب ہو جاتی ہے اور اگلے دن اس کی لاش چٹن پلی گاؤں میں نیشنل ہائی وے کے نزدیک جلی ہوئی حالت میں ملتی ہے۔ پولیس نے ٹول پلازا پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے اپنی تفتیش میں پایا کہ جب ڈاکٹر نے ٹول پلازا کے پاس اپنی اسکوٹی کو پارک کیا تو ملزموں کی نظر اس پر پڑ گئی۔ جب رات 9 بجے ڈاکٹر اپنی اسکوٹی واپس لینے آئی تو ان ملزموں نے پہلے ہی شراب پی لی تھی اور پولیس کے مطابق ڈاکٹر کو اغوا کرنے اور اس کا استحصال کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ نوین نے ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں اسکوٹی کے پچھلے پہیے کی ہوا نکال دی تھی۔ جب ڈاکٹر واپس ائی تو مدد کا بہانہ بناکر شیوا اس کی اسکوٹی کو مرمت کرانے کے لئے قریب میں کسی دکان پر لے گیا۔ جبکہ باقی تینوں نے ڈاکٹر کے ساتھ زور زبردستی کی، اس کا ریپ کیا، اس کا گلا دبا کر قتل کیا اور اپنی لوری کے ڈیزل اور خریدے ہوئے پٹرول سے اس کی لاش میں آگ لگا دی۔ شیوا بھی بعد میں واپس آگیا تھا اور اس جرم میں تینوں کے شانہ بہ شانہ رہا۔
جیسے ہی ویٹنر ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کی خبر میڈیا میں آئی، بی جے پی کے لیڈروں، حامیوں اور میڈیا کے ایک مخصوص حصے نے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع کر دیا جس میں سیاسی لیڈران سے لے کر آئی اے ایس افسر تک شامل تھے۔ سب سے بڑی حماقت اس پروپیگنڈہ میں یہ کی گئی کہ بھگوا پروپیگنڈا عام کرنے والوں نے مظلوم کی شناخت کو بھی سوشل میڈیا میں واضح کر دیا اور اس کے نام اور تصویروں کے ساتھ مسلمانوں سے اپنی نفرتوں کو عام کیا۔
بی جے پی ایم ایل اے، ٹی راجہ سنگھ نے چار ملزموں میں صرف ایک کی تصویر کو عام کیا۔ یہ تصویر محمد پاشا کی تھی۔
اڑیسہ بی جے پی کے جوائنٹ سیکرٹری امیتابھ چکرورتی نے بھی مظلوم کا نام لکھا اور اس کی تصویروں کو عام کرتے ہوئے صرف محمد پاشا کا نام اس کے قاتلوں میں لکھا۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے رکن کھیم چند شرما نے ‘ہینگ محمد پاشا’ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے لکھا، ‘کچھ تو ان لوگوں کی سوچ میں خطرناک ہے’۔
بی جے پی کے حامیوں میں سب سے اوپرآئی اے ایس افسر سنجے دکشت کا نام آتا ہے۔ انہوں نے محمد پاشا کو ہی اپنی ٹائم لائن پر جگہ دی اور یہ کہا کہ اب سیکولر لوگ اسکی حمایت میں لیپا پوتی کرنے آگے آئیں گے۔
مسلمانوں کے خلاف کسی پروپیگنڈہ میں فیک نیوز کی دنیا کے بڑے اسٹار پرشانت پٹیل امراؤ کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے کئی ٹوئٹ میں جو باتیں لکھی وہ اس سے یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ ہندوستان کے ہندو خطرے میں ہیں اور ان کو یہ خطرہ مسلمانوں سے ہے۔
پرشانت امراؤ کے ساتھ فیک نیوز کی دنیا کے دوسرے بدنام ستارے بھی پروپیگنڈہ میں شامل رہے۔ رشی باگری نے اس بات کا شکوہ کیا کہ سوشل میڈیا پر لبرل اور پروگریسو لوگ حیدرآباد ریپ پر احتجاج نہیں کر رہے ہیں کیوں کہ کٹھوعہ ریپ کی طرح اس معاملے میں مظلوم مسلم نہیں ہے اور ملزم ہندو نہیں ہے۔
فیک نیوز ویب سائٹ پوسٹ کارڈ نیوز کے بانی مہیش ہیگڑے نے سنجے دکشت کے ٹوئٹ کی عبارت ہی اپنے ٹوئٹ میں لکھی۔
پائل روہتگی کے ویریفائڈ ٹوئٹر ہینڈل سے پوسٹ کارڈ نیوز کا ایک گرافکس شئیر کیا گیا اور محمد پاشا کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہیش ٹیگ کا استعمال کیا گیا۔
مدھو کشور نے سوراج میگزین کے مضمون کا لنک شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ فرض کرو کہ یہ اقلیت اگر اکثریت میں تبدیل ہو گئے تو ہمارا کیا حشر کریں گے۔
اس پروپیگنڈہ میں بھگوا میڈیا بھی پہلی صف میں کھڑا نظر آیا۔ سدرشن نیوز کے سریش چہوانکے نے الزام لگایا کہ اس معاملے میں تین ہندؤں کو زبردستی پھنسایا گیا ہے اور یہ کام اسد الدین اویسی کے اشارے پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس کی تفتیش کا مطالبہ کیا۔
اسلاموفوبیا کے مرض میں گرفتار فیک نیوز ویب سائٹ اوپ انڈیا نے پولیس کی تفتیش کو ہی اپنی غرض کے مطابق تبدیل کر دیا۔ پولیس کو منسوب کرتے ہوئے ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا کہ اصل مجرم محمد پاشا ہی ہے۔
یہی پروپیگنڈہ سوراج میگزین، فری پریس جرنل، ای ٹی وی آندھرا پردیش، TV9 تیلگو، اڑیسہ پوسٹ پر بھی کیا گیا۔
لیکن ان تمام بھگوا پورٹلوں اور ٹوئٹر ہنڈلوں سے الگ اندھرا پردیش مہیلا کانگریس نے بھی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے Peaceful-M کا لفظ استعمال کیا۔ کانگریس کی کسی صوبائی اکائی کی جانب سے اس طرح کا ٹوئٹ آنا فکر مندی کا سبب ہے۔ حالانکہ بعد میں اس ٹوئٹ کو ان کے کارکن کی غلطی بتاکر ڈیلیٹ کر دیا گیا لیکن ڈیلیٹ ہونے کے بعد بھی یہ ٹوئٹ اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ کانگریس کے مقامی عملہ میں کارکنوں کی تربیت کن اقدار پر مبنی ہے۔ کیا وہ نہرو گاندھی کے فلاحی اور سیکولراصولوں سے بالکل بے حس ہوکر اب مکمل طور پر سنگھ کے راستے پر چل رہے ہیں؟
ایک طویل مدت کے بعد مہاراشٹرا کا سیاسی تماشہ اختتام پذیر ہوا اور 28 نومبر کو شیو سینا کے لیڈر ادھو ٹھاکرے نے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔ چیف منسٹر بننے کے بعد ادھو ٹھاکرے غالباً صوبے کی سیاسی و انتظامی ذمہ داریوں میں مصروف ہوں گے لیکن اسی وقت سوشل میڈیا پر ان سے متعلق فیک نیوز کی کثرت سے اشاعت کی جانے لگی۔ جھوٹی خبروں کی اس اشاعت میں کچھ ان کے حامیوں نے مورچہ سنبھالا تو کچھ ان کے مخالفین نے ان پر اور ان کی سیاسی جماعت شیو سینا کی تنقید کی۔
انصاری توصیف نامی فیس بک پروفائل سے ادھو ٹھاکرے کی کچھ تصویریں عام کی گئی۔ یہ تصویرں اجمیر کی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ وہ درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی پر حاضری کے لئے موجود ہیں۔ توصیف نے ان تصویروں کے ساتھ کیپشن میں لکھا:
خواجہ کے دربار میں پہنچے آدتیہ ٹھاکرے۔ شیوسینا کا وزیر اعلیٰ بننے کی مانگی تھی منت جو پوری ہوئی۔ میرے خواجہ چاہیں اسے نوازیں۔ ہندتوا کے مدعوں پر اڈگ رہنے والی پارٹی کو بھی اجمیر دربار میں بلا کے سلطنت کا امیر بنایا۔
توصیف کا یہ کیپشن بے علمی کا مظہر نظر آیا۔ ان کے مطابق ادھو ٹھاکرے نہیں بلکہ آدتیہ ٹھاکرے صوبے کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے آدتیہ ٹھاکرے کو شیوسینا کا چیف منسٹر قرار دیا جب کہ یہ ایک عام فہم کا نکتہ ہے کہ چیف منسٹر ایک صوبے کا ہوتا ہے، کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔ انصاری توصیف کے علاوہ بھی متعدد افراد نے ان تصویروں کو اسی کیپشن کے ساتھ عام کیا جس میں یہ دعویٰ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ سرزمین ہند میں مدفون تمام اولیا اور بزرگان حضرات کی نظر عنایات سے ہی ان مسلم مخالف سیاسی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ بلا شبہ، ایسے تمام دعوے جہالت پر مبنی تھے جن میں مذہبی تقاضوں اور تصوف کے حقائق کو درکنار کیا گیا تھا اور ملک کی موجودہ سیاسی تناظر سے بھی بے خبری تھی۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ یہ تصویریں پرانی تھیں۔ گوگل میں ریورس امیج سرچ کرنے پر معلوم ہوا کہ فیس بک پر عام کی گئی تین تصویریں مختلف سالوں کی تھی۔ پہلی تصویر جس میں آدتیہ ٹھاکرے درگاہ کی دالان میں نظر آرہے ہیں، وہ اسی سال جون ماہ کی ہے۔ انڈیا ٹی وی نے ان کی اس حاضری کو اپنے چینل پرنشر بھی کیا تھا:
دوسری تصویر میں آدتیہ ٹھاکرے اور ادھو ٹھاکرے درگاہ کے ایک نقشے کے ساتھ نظر آرہے ہیں، یہ تصویر مارچ 2017 کی ہے۔ مارچ میں ادھو ٹھاکرے اپنی زوجہ اور فرزند کے ساتھ اجمیر میں درگاہ پر چادر پوشی کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ انگریزی اخبار دی ٹائمز آف انڈیا نے اس خبر کو کور کیا تھا۔ یہ چادر اس سال 4 اپریل کو عرس میں پیش کی گئی تھی۔
تیسری تصویر میں مارچ 2018 کی ہے۔ اس بات کی تصدیق راہل کنال کے ٹوئٹ سے ہو جاتی ہے۔ لہٰذا بوم لائیو کے انکشاف سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آدتیہ ٹھاکرے اور ادھو ٹھاکرے کی اجمیر درگاہ کی تصویریں موجودہ وقت کی نہیں ہیں، یہ پرانی تصویریں ہیں۔
اسی طرح دوسری قسم کی تصویر بھی سوشل میڈیا میں وائرل کی گئی جس میں شیوسینا کے ناقدین نے ادھو ٹھاکرے پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے والد اور شیوسینا کے بانی بالا صاحب ٹھاکرے کے اصولوں کو پامال کیا ہے۔ تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ ادھو ٹھاکرے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کے بعد کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی کی تصویر اور ان کے مجسمے کے سامنے اپنا سر جھکا رہے ہیں اور خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ یہ تصویر ان پروفائلوں سے عام کی گئی تھی جن کو غالباً اس بات کا شکوا تھا کہ خود کو ہندوتوا کا علمبردار کہنے والی پارٹی نے سیکولر مانی جانے والی کانگریس کے ساتھ مل کر صوبے میں حکومت کی تشکیل کی ہے اور ہندتوا کی دوسری قومی سطح کی پارٹی بی جے پی کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے شیوسینا کو سوشل میڈیا میں ‘ملاوٹی پارٹی’ قرار دیا گیا۔
Welcome to Milawati Party. Finally, now onwards we r all Secular.#रामसेना_से_सोनियासेना #ShivSenaCheatsMaharashtra #shivsenacheatsbalasaheb pic.twitter.com/SyPUFyYk4r
— Sangeeta (@Sangeeta123S) November 27, 2019
الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں واضح کیا کہ سوشل میڈیا میں عام کی گئی تصویر جھوٹی ہیں اور اس کو فوٹو شاپ کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ الٹ نے واضح کیا کہ ادھو ٹھاکرے کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے اس تصویر کو 26 نومبر کو شیئر کیا گیا تھا جب پارٹی میٹنگ میں پارٹی ممبران نے یہ طے کیا تھا کہ شیوسینا کی جانب سے ادھو ٹھاکرے ہی چیف منسٹر کے عہدے کے امیدوار ہوں گے۔ اس اعلان کے بعد ادھو ٹھاکرے نے اپنے والد اور پارٹی کے بانی بالا صاحب ٹھاکرے کی تصویر اور مجسمے کے سامنے خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
महाविकास आघाडीच्या बैठकीत मुख्यमंत्री म्हणून शिवसेना पक्षप्रमुख मा. श्री. उद्धव साहेब ठाकरे यांच्या नावाची घोषणा झाल्यानंतर त्यांनी मातोश्री निवासस्थानी वंदनीय हिंदुहृदयसम्राट शिवसेनाप्रमुख मा. श्री. बाळासाहेब ठाकरे यांच्या स्मृतीला वंदन केले. pic.twitter.com/cfpIHKyaT1
— Office of Uddhav Thackeray (@OfficeofUT) November 26, 2019
اس تصویرمیں فوٹو شاپ کی مدد سے ترمیم کر دی گئی، بالا صاصب کے مجسمے کی جگہ ایک زنانہ مجسمہ لگا دیا گیا اور پورٹریٹ میں بالا صاحب ٹھاکرے کی تصویر کی جگہ سونیا گاندھی کی تصویرلگا دی گئی۔ لہٰذا، یہ دلچسپ انکشاف ہے جس میں دائیں بازو کے ٹرولز دائیں بازو کے لیڈر اور جماعت کو ٹرول کرتے ہوئے نظر آئے!
اکثر جذبات اور عقیدت کے آغوش میں آکر انسان عقل و فہم کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔ جب محمد اشرف خان نامی ٹوئٹر ہینڈل سے بابری مسجد کو منسوب کرتے ہوئے کچھ تصویریں عام کی گئی تو مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے ان تصویروں کو بغیر تفتیش کے ہی ری ٹوئٹ کر دیا! اشرف خان نے چار تصویروں کو ٹوئٹر پر اپ لوڈ کیا تھا اور لکھا تھا:
برٹش میوزیم نے بابری مسجد کی کچھ تصویریں شائع کی ہیں۔ ماشاء الله !
ब्रिटिश म्यूजियम ने बाबरी मस्जिद की कुछ तस्वीरें शाया की #माशा #अल्लाह@asadowaisi @AIMPLB_Official pic.twitter.com/wbm08okhkD
— MOHD ASHRAF KHAN محمد اشراف خان (@mohd_ashraf_111) November 26, 2019
الٹ نیوز نے ریورس امیج سرچ کی مدد سے انکشاف کیا کہ یہ تصویریں بابری مسجد کی نہیں ہیں۔ الٹ نیوز کے مطابق پہلی تصویر موتی جھیل مسجد کی ہے۔ یہ مسجد ضلع مرشد آباد، مغربی بنگال میں ہے۔ دوسری تصویر گلبرگہ قلعہ کی جامع مسجد کی ہے جو صوبہ کرناٹک میں ہے۔ یہ مسجد 1367عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ تیسری تصویر میں مسجد کا ممبر موجود ہے۔ یہ ممبر بابری مسجد کا نہیں ہے بلکہ ترکی کی سبز مسجد کا ممبر ہے۔ چوتھی تصویر میں موجود محرابیں روضہ ابراہیم کی ہیں جو صوبہ کرناٹک کے بیجا پور میں ہے۔ اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسد الدین اویسی نے جن تصویروں کو ری ٹوئٹ کیا تھا وہ بابری مسجد کی نہیں ہیں۔
Categories: خبریں