19 دسمبر1927 کو مجاہدآزادی اشفاق اللہ خاں کو فیض آباد جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ایودھیا میں ان کی شہادت کے موقع پر ہرسال منعقد ہونے والی تمام تقاریب پر شہریت ترمیم قانون کو لےکر مظاہرہ کے خدشہ کی وجہ سے روک لگا دی گئی ہے۔
شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کےخدشہ سے ڈرے ایودھیا کی ضلع اور جیل انتظامیہ نے ایک غیر متوقع اور غیرمعمولی قدم اٹھاکر وہاں جیل احاطہ میں واقع اشفاق اللہ خاں کی شہادت کےمقام پر 19 دسمبر یعنی ان کےیوم شہادت کی یادمیں منعقد سبھی تقاریب پر روک لگا دی ہے۔عام لوگوں کے لئے وہاں پہنچکر شہید کے مجسمہ پر گل پوشی یا اظہار عقیدت پر بھی روک ہے۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں1967کے بعدیہ پہلا موقع ہے، جب اشفاق اللہ خان کے یوم شہادت پر ان کی یاد میں نصب مجسمہ کے آس پاس سناٹا رہا اور اس کو انتظامیہ کی گل پوشی سے ہی صبر کرناپڑا۔
عام لوگوں کے لئے جیل کا پھاٹک کھولا ہی نہیں گیا اور اس کے لئے ریاستی حکومت کے ذریعے ریاست بھر میں نافذ حکم امتناعی کو بہانہ بنایا گیا۔ضلع جیل کے سپرنٹنڈنٹ برجیش کمار نے ایک ریلیز میں بتایا کہ اشفاق اللہ خاں میموریل شہید شودھ سنستھان کے زیر اہتمام مذکورہ مقام پر پچھلے کئی سالوں سے ہوتی آ رہی تقریب روک دی گئی ہے۔ساتھ ہی کسی دوسرےادارہ کو بھی وہاں کسی پروگرام کے انعقاد کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا گیا کہ جیل انتظامیہ اور ضلع انتظامیہ ملکر وہاں اشفاق کا یوم شہادت منا رہے ہیں، لیکن جیل کے بند دروازوں کےپیچھے مبینہ طور پر منعقد ان کی تقریب میں اس عوام کی علامتی شرکت کی بھی فکر نہیں کی گئی ہے، جس کی آزادی کے لئے اشفاق نے شہادت دی۔
یہ بھی پڑھیں :شہید اشفاق اللہ خاں کی زبانی انقلاب کی کہانی
واضح ہوکہ آزادی کی لڑائی کے دوران انقلابیوں نے اپنی سرگرمیوں کے لئے رقم جٹانے کے لئے 9 اگست، 1925 کی رات لکھنؤ کے پاس واقع کاکوری ریلوے اسٹیشن پر برٹش حکومت کی ٹرین سے لے جائے جا رہے خزانہ لوٹ لیا تھا۔رام پرساد بسمل، راجیندرناتھ لاہڑی اور روشن سنگھ کےساتھ مذکورہ کام کے ہیرو میں شامل اشفاق کو مقدمہ کے ڈرامے کے بعد انیس دسمبر،1927 کو فیض آباد کی جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ بسمل، لاہڑی اور روشن کے ساتھان کی شہادت کو ملک کی ساجھی وراثت کی علامت مانا جاتا ہے۔
ان کے یوم شہادت پر جیل احاطے میں مذکورہ ادارے کےذریعے منعقد تقریب میں تو کل مذہبی دعا، جلسہ اور ‘ ماٹی رتن ‘ اعزاز تقسیم سمیت مختلف پروگرام منعقد کئے ہی جاتے تھے، دوسری کئی تنظیموں کے رہنما اور کارکن بھی جلوس کی شکل میں ان کے مجسمہ پر ھل پوشی کیا کرتے تھے۔ان کے یوم شہادت پر یہاں خراج عقیدت کی روایت کئی دہائی پرانی ہے۔ آزادی کی دو دہائیوں بعد تک اس کو نظر انداز کرنے سے غم زدہ مجاہدین آزادی نے 1967 میں جیل انتظامیہ کی بےرخی کے درمیان اس کے خس و خاشاک صاف کیے اور وہاں میلے کی روایت ڈالی تھی۔
ویڈیو:شہید اشفاق اللہ خاں کی زبانی انقلاب کی کہانی
بعد میں اشفاق کے مجسمہ کی تنصیب کے ساتھ ہی یہ میلہ آزادی کی لڑائی کے اصولوں اور قدروں کو سنبھالنے کی خواہش مند عوام کے اجتماعی شعور کے تہوار جیسا ہو گیا تھا۔اس کے آرگنائزر سوتنترتا سینانی پریشد نے کچھ سال پہلےکئی وجہوں سے اس کے انعقاد میں اپنی معذوری کا اظہار کر دیا تھا، تو تھوڑی مداخلت کے بعد اشفاق اللہ خاں میموریل شہید شودھ سنستھان نے اس کا ذمہ سنبھال لیا۔ اس سے بدلی ہوئی صورت میں ہی صحیح میلے کی روایت جاری رہی تھی۔
اس تقریب کو روکے جانے سے ناراض اشفاق اللہ میموریل شہید شودھ سنستھان کے ڈائریکٹر سوریہ کانت پانڈے نے اس پر یہ کہہکر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے کہ آزادی کے لئے شہید شخصیتوں کی یادوں کو بھی سیاست کی نذرچڑھانے کی یہ گھٹیا روایت تاریخی بھول ثابت ہوگی۔
انہوں نے کہا ہے کہ اس سے گھبرانے یا مشتعل ہونے کےبجائے لوگوں کو متوازن رہکر سماج اور ملک اور سماج کے مفاد میں کام کرتے رہناچاہیے۔
(کرشن پرتاپ سینئر صحافی ہیں۔)