ادبستان

آ ر ایس ایس کے بانیان اور شہریت قانون کے پس پردہ ان کے ایجنڈہ کے بارے میں بتاتی کتاب

بک ریویو: ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر ، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں، بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیادپر طے کیا جاسکتا ہے ۔یہی سی اے اے کا بنیادی نکتہ ہے کہ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے ۔ اور اسی بنیاد پر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے ۔

فوٹو: دی وائر

فوٹو: دی وائر

کون کہتا ہے کہ سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی ’جوڑی‘ کے دماغ کی اپج ہے ! یہ تو کوئی59؍برس پرانا ،آر ایس ایس کا وہ ایجنڈا ہے ، جسے سنگھ کے بانی اول کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد سنگھ کے دیگر بانیان اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے ۔

آج سنگھ اور بی جے پی کا وہ ٹولہ جو سی اے اے ،این آر سی ، این پی آر کو ’لاگو‘ کرنے کے لیے حرکت میں ہے ، وہ دراصل سنگھ کے اسی 59؍ سالہ پرانے ایجنڈے کو ہندوستان کے ان شہریوں پر تھوپنے کی ایک کوشش ہے ، جو نہ سنگھ کے ’نظریات‘ کو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی سنگھیوں کی ایجنڈے کو لاگو کرنے کی کوشش کی حمایت کرتے ہیں ۔ مودی اور شاہ تو بس آر ایس ایس کے بانیان کا (انہیں انگریزی میں Iconsکہا جاسکتا ہے)ایجنڈا لاگو کرنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل و ذرائع کا بشمول مقننہ ، انتظامیہ ،عدلیہ اور صحافت اندھا دھند استعمال کررہے ہیں ۔

یہ بانیان یاآئکنز ہیڈگیوار کے علاوہ اور کون ہیں؟ ان کا ظاہر و باطن کیا ہے ؟ ملک کی آزادی ،ترقی اور جمہوری نظام کے استحکام میں ان کاکوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب انگریزی کے سینئر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے کی انگریزی کتابThe RSS: Icons & The Indian Right میں تفصیل سے دیے گئے ہیں ۔ اور مصنف نے جو بھی باتیں کی ہیں انہیں شہادتوں اور دلائل سے ثابت بھی کیا ہے ۔ کتاب میں ہیڈگیوار کے علاوہ آر ایس ایس کے جن بانیان کا تذکرہ شامل ہے وہ ہیں وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولوالکر ، شیاما پرساد مکھرجی ،دین دیال اپادھیائے ،بالا صاحب دیورس، وجئے راجے سندھیا ، اٹل بہاری واجپائی ، لال کرشن اڈوانی ، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے ۔

آر ایس ایس کے بانیان کی فہرست میں آخر الذکر نام دیکھ کر ابتداءمیں کچھ حیرت ہوئی تھی کیونکہ ٹھاکرے کبھی نہ آر ایس ایس کے رُکن رہے نہ ہی عہدیدار ۔ مگر اس فہرست میں ان کا نام اس لیے درست ہے کہ اپنی حمایت سے سنگھی نظریات کو انہوں نے زبردست تقویت دی، بلکہ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں شامل غیر ملکیوں کے صفائے اور ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک میں انہوں نے سنگھی اراکین اور سنگھی قائدین سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔

بات سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر سے شروع ہوئی تھی لہٰذا بات اسی کا اعادہ   کرتے ہیں ۔ کیشو بلی رام ہیڈگیوار کے باب میں مصنف نے پہلے سر سنگھ چالک کی اس بات پر کہ تمام ہندوستانی بلا لحاظ مذہب ’ہندو‘ ہی ہیں ، زور دیتے ہوئے اسے ’متنازعہ گھر واپسی‘ تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے ۔ یہ تحریک لوگوں کو ’ہندو دھرم‘ میں داخل کراتی ہے ، اور جو داخل نہ ہو وہ ’غیر‘ کہلاتا ہے ۔ ہیڈگیوار کا یہی فلسفہ تقسیم ہند کے بعد’ملکی ‘ اور ’غیر ملکی‘ میں بدل گیا۔ ونائک دامودر ساورکر کے باب میں مصنف نے اس پر تفصیل سے بات کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ؛

ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر ، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں، بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیادپر طے کیا جاسکتا ہے ۔

یہی سی اے اے کا بنیادی نکتہ ہے کہ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے ۔ اور اسی بنیاد پر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے ۔ مصنف نے آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک مادھو سدا شیو گولوالکر کے باب میں اس پر مزید بات کی ہے ۔ان کے مطابق بٹوارے کے بعد جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے گولوالکر انہیں ’بچے کھچے‘ کہتے تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہندو پاک کے درمیان ہندوؤں اور مسلمانوں کے تبادلے کا منصوبہ بنایا جائے تاکہ ’بچے کچھے‘ جو مسلمان ہیں انہیں بھارت سے نکالا جاسکے ۔ سنگھی نظریہ ساز شیا ما پرشاد مکھرجی کے باب میں مصنف بھارتیہ جن سنگھ کے جنرل سکریٹری آشوتوش لہر ی کو ان کی طر ف سے دی گئی اس ہدایت کا ذکر کرتے ہیں کہ ؛

اب جب انہیں اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر مل گئی ہے ، ان مسلمانوں کو جو ’ہندو استھان ‘ میں رہتے ہیں یہاں سے نکال باہر کرنا چاہیے ، کیونکہ اگر وہ رہے تو غداری ، تخریب کاری اور وطن دشمنی کریں گے۔

دہلی میں اگر’’گولی مارو غداروں کو ‘‘ کے نعرے کو پیش نظررکھا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ 59 سالوں سے آر ایس ایس کے آئکنز کس طرح اپنےنظریات سے لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرتے چلے آرہے ہیں۔دین دیال اپادھیائے چوٹی کے سنگھی قائد تھے ،انہوں نے بھی ’’بلا تفریق مذہب سب ہندو ہیں ‘‘ پر زور دے کر ان پر جو خود کو ’ہندو‘ نہیں کہتے ، ہندوستان کے دروازے بند کرنے کی پوری کوشش کی تھی ۔

کتاب میں آر ایس ایس کے تیسرے سر سنگھ چالک بالا صاحب دیورس پر سب سے طویل اور سب سے دلچسپ باب ہے ۔ اس باب میں ’مہاجر‘ اور ’گھس پیٹھئے‘ کی تشریح جو دیورس نے کی ہے شامل ہے ۔ دیورس کے بقول’ ’مہاجر اورگُھس پٹھیئے برابر نہیں ہوسکتے ، ہندو جو بنگلہ دیش سے آتے ہیں وہ الگ ہیں کیونکہ وہ رفیوجی ہیں ، جو اپنے گھروں سے اسلامی حکومت کے ہاتھوں ستائےجانے کی وجہ سے بھاگے ، اس لیے آسامی ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ ان کا خیر مقدم کریں ، لیکن بنگلہ دیشی مسلمانوں کا نہیں کیونکہ ان کی آمد سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا۔‘‘ یہی وہ ’دلیل‘ ہے جو آج مودی اور شاہ کی جوڑی سی اے اے کے حق میں دے رہی ہے۔اور اسی کی بنیاد پر ’’گھس پیٹھئے ‘‘ جو ہیں انہیں ’کھدیڑنے ‘ کی مہم شروع کی گئی ہے ۔ بال ٹھاکرے کا ذکر آچکا ہے ۔

نیلانجن ان کے باب میں لکھتے ہیں کہ ٹھاکرے نے تو باقاعدہ ’’بھیونڈی کو مِنی پاکستان‘‘ کا نام دے دیا تھا۔ بعد میں وہ بنگلہ دیشیوں کی بات بھی کرنے لگے تھے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر پارٹیوں کی مدد سے وزیر اعلیٰ بننے والے شیوسینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے سی اے اے کے حامی ہیں ۔ اور ان کے چچا زاد بھائی راج ٹھاکرے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ تو خم ٹھونک کر پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کو بھگانے کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔یہ دراصل ملک کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی تحریک ہے ۔ نیلانجن نے کتاب میں سنگھ اور جرمنی کے نازی ،اٹلی کے فاشست اور دیگر’قوم پرست جماعتوں‘کے درمیان روابط کوغیر جانبداری کے ساتھ اجاگر کیا ہے ۔

مصنف کے بقول ہیڈگیوار کے دست راست ڈاکٹر مونجے کی ڈائری میں اس تعلق سے بہت ساری باتیں تحریر ہیں ، مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں’’ہندوؤں کو منظم کرنے کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہمارا ماضی کے شیواجی یا مسولینی یا ہٹلر جیسا ہندو ڈکٹیٹر نہ ہو‘‘۔ برطانیہ کے محکمۂ خفیہ کی رپورٹ کا بھی مصنف نے حوالہ دیا ہے کہ سنگھ کو یہ یقین ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں وہ وہی بن جائیں گےجو ’فاشست‘اٹلی میں ہیں اور ’نازی‘ جرمنی میں ہیں‘‘۔

نیلانجن نے کتاب کے ابتدائیہ میں تحریرکیا ہےکہ اس کتاب میں انہوں نے آر ایس ایس کے بانیان کے نظریے ہی نہیں ان کے باطن کو ٹٹولنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اور وہ اس میں یقیناً کامیاب ہیں۔ چاہےساورکر کی شخصیت کا ظاہر و باطن ہو یا ٹھاکرے اور دیورس اور واجپائی کی شخصیت کا نیلانجن بغیر کسی جانبداری کے سب واضح کردیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دیورس ایک طرح سے’غیر مذہبی‘ تھے لیکن آر ایس ایس کا سر سنگھ چالک بننے کے بعد انہوں نے ’پوجا پاٹ‘ شروع کردی تھی ۔ واجپائی نے بی جے پی کے قیام کے بعد گاندھی جی کے سوشلزم کو اپنایا مگر پھر دین دیال اپادھیائے کے سنگھی فلسفے پر واپس آگئے۔

غور کیاجائے تو مصنف نے گیارہ کی گیارہ شخصیات کی ’مفاد پرستی‘ بلکہ ’خود غرضی ‘ کو اُجاگر کیا ہے ۔ ہیڈگیوار کم عمری میں انگریز مخالف تھے، آر ایس ایس کے قیام کے بعد آزادی کی تحریک سے غائب رہے ۔ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تاکہ سیاسی زندگی کو آگے بڑھاسکیں ۔ ٹھاکرے نے علاقائیت کے نام پر اپنی دوکان چمکائی، واجپائی مکھوٹا بنے رہے ، اور اسی کے نتیجے میں ملک کے وزیر اعظم بنے ۔ وجئے راجے سندھیا کو کانگریس سے اس لئے نفرت تھی کہ اس نے راج پاٹ کرنے والوں کی لگامیں کھینچ لی تھیں۔

نیلانجن کی یہ کتاب آر ایس ایس کے گیارہ بانیان کے ظاہر و باطن کو عیاں کرنے کے ساتھ آر ایس ایس کے قیام کی تاریخ کو بھی سامنے لاتی ہے،اور آر ایس ایس اور کانگریس کے ’پیچیدہ ‘ رشتے بھی جگ ظاہر کرتی ہے ۔ رشتہ ، محبت اور نفرت کا رہا ہے ۔ پنڈت نہرو اور گاندھی جی آر ایس ایس کے سخت مخالف تھے ۔ مگر سردار پٹیل اور بڑی تعداد میں ایسے بھی کانگریسی تھے جو آر ایس ایس اور کانگریس کے ’رشتے‘ کو مضبوط کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ یہ کتاب ملک کی آزادی کی تاریخ میں آر ایس ایس اور ہندوتوادیوں کے منفی کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے۔اور آزادی سے پہلے اور بعد میں نفرت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالتی ہے ۔

یہ کتاب مہاتما گاندھی کے قتل اور اس میں آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے کردار پر بھی بات کرتی ہے ۔ اور مسئلہ کشمیر ، بالخصوص آرٹیکل 370 کا بھی ذکرکرتی ہےجس کی مخالفت شیاما پرساد مکھرجی نے کی تھی اور کشمیر کی جیل میں ’مردہ‘ پائے گئے تھے ۔یہ ایک دلچسپ اور معلوماتی کتاب ہے جو غیر جانبداری سے لکھی گئی ہے، اسے انگریزی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے TRANQUEBARنے اہتمام سے شائع کیا ہے ۔