دی وائر کی خصوصی رپورٹ: آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویز بتاتےہیں کہ مہاراشٹر، راجستھان، اتر پردیش سمیت کئی دیگر ریاستوں نے مرکز کے ذریعےطےشدہ ایم ایس پی پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ ریاستوں نے اپنے یہاں کی پیداواری لاگت کے حساب سے امدادی قیمت طے کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن مرکز نے تمام تجاویز کوخارج کر دیا۔
نئی دہلی: پارلیامنٹ کا بجٹ سیشن شروع ہونے سے پہلے گزشتہ31جنوری کو صدر رام ناتھ کووند نے پارلیامنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ مرکزی حکومت کسانوں کو لاگت کا ڈیڑھ گنا قیمت دینے کے لئے ذمہ دارے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خریف اور ربیع کی فصلوں کے لئے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) میں لگاتار کیے گئے اضافے اسی سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔حالانکہ صدر کا یہ دعویٰ سرکاری فائلوں میں درج ایم ایس پی کے حقائق پر کھرا نہیں اترتا ہے۔
دی وائر کے ذریعے آرٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے سرکاری دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی مقتدرہ ریاستوں سمیت کئی ریاستی حکومتوں نے مرکزی حکومت کے ذریعے طے کی گئی فصلوں کی ایم ایس پی پر اتفاق نہیں کیا تھا اور اس میں تبدیلی کرنے کی مانگ کی تھی۔
سرکاری فائلوں کے مطابق ریاستی حکومتوں کے ذریعے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کے مطابقC2 کی بنیاد پر لاگت کی ڈیڑھ گنا قیمت دینے کی مانگکے بجائے مرکزی حکومتA2 + FL کی بنیاد پر لاگت کی ڈیڑھ گنا قیمت دے رہی ہے۔
A2 + FL لاگت میں سبھی نقدی لین دین اورکسان کے ذریعے کی گئی ادائیگی سمیت فیملی مزدوری قیمت شامل ہوتا ہے۔ اس میں پٹہ پرلی گئی زمین کا کرایہ/قیمت بھی شامل ہوتا ہے۔
وہیںC2 میں A2 + FL لاگت کے ساتھ-ساتھ خود کی زمین کا کرایہ /قیمت اور خود کے سرمایہ پر سود بھی شامل ہوتا ہے۔
زراعتی لاگت اور قیمت کمیشن کے ذریعے قیاسی لاگت اور ایم ایس پی ؛2019-20
گزشتہ سال تین جولائی کو کابینہ نے 2019-20 سیزن کی خریف فصلوں کی ایم ایس پی کو منظوری دی تھی، جس میں 2018-19 سیزن کے مقابلے میں دھان کی ایم ایس پی میں 3.7 فیصدی، جوار میں 4.9 فیصدی، باجرا میں 2.6 فیصدی، مکئی میں 3.5 فیصدی،مونگ میں 1.1 فیصدی، ارد میں 1.8 فیصدی، کپاس میں 2.0 فیصدی کا معمولی اضافہ کیاگیا تھا۔
مرکزی وزارت زراعت کی سی اے سی پی کی سفارشوں کی بنیاد پر وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ نے فصلوں کی اس ایم ایس پی کو منظوری دی تھی۔ حالانکہ دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ چھتیس گڑھ،ہریانہ، مہاراشٹر، راجستھان، اترپردیش، پونڈیچیری، تمل ناڈو، اڑیسہ اور کرناٹک حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی۔
عالم یہ ہے کہ کابینہ اجلاس سے پہلے تمل ناڈو اور کرناٹک حکومت کاتبصرہ آ جانے کے باوجود ان کی باتوں کو کابینہ نوٹ میں شامل نہیں لیا گیا۔کابینہ نوٹ وہ اہم دستاویز ہوتا ہے جس کی بنیاد پرکابینہ کسی بھی موضوع پر فیصلہ لیتی ہے۔
اگر ایم ایس پی کے دائرے میں آنے والی تمام فصلوں کو ملا دیا جائےتو C2 لاگت کے مقابلے کل فائدے کا مارجن محض 14 فیصدی ہے۔ یعنی کہC2 لاگت کے مقابلے صرف 14 فیصدی زیادہ رقم جوڑکر ایم ایس پی طے کی گئی ہے۔
سرکاری دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک کی الگ الگ ریاستوں میں مختلف فصلوں کی الگ الگ پیداواری لاگت ہونے کی وجہ سے ایک ایم ایس پی ریاستوں کے کسانوں کی مانگوں کو پورا نہیں کر پاتی ہے۔ اس کو لےکر کئی ریاستوں نے اعتراض کیا تھا۔
مغربی بنگال
مرکزی زراعتی سکریٹری سنجے اگروال کے ذریعے 22 اپریل 2019 کو بھیجےگئے خط کا آٹھ مئی 2019 کو جواب دیتے ہوئے مغربی بنگال حکومت نے کہا کہ سی اے سی پی نے دھان کی ایم ایس پی 1815 روپے فی کوئنٹل طے کی ہے لیکن ریاست نے اپنےاندازے کی بنیاد پر 2100 روپے فی کوئنٹل کی تجویز رکھی ہے۔
ریاست کے وزارت زراعت کے جوائنٹ سکریٹری جتیندر رائے نے اپنے حساب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، مغربی بنگال کے مزدور محکمے کے ذریعے طے کی گئی کم ازکم مزدوری کو دھیان میں رکھتے ہوئے 2017-18 کے دوران دھان کی لاگت کی C2 قیمت1751 روپے تھی۔ چونکہ اب لاگت میں شامل مختلف چیزوں اور لیبر چارج میں اوسط 9فیصدی کا اضافہ آیا ہے اس لئے 2019-20 سیزن کے دوران ریاست میں دھان کی C2 لاگت کی قیاسی رقم 1909 روپے ہے۔
اس بنیاد پر مغربی بنگال حکومت نے مرکز سے دھان کی ایم ایس پی18151 روپے فی کوئنٹل رکھنے کے بجائے 2100 روپے فی کوئنٹل کرنے کی گزارش کی تھی۔ حالانکہ حکومت نے ریاست کی یہ سفارش منظور نہیں کی۔
چھتیس گڑھ
اسی طرح تین مئی 2019 کو ایک خط لکھکر چھتیس گڑھ حکومت نے بھی مرکز سے ایم ایس پی بڑھانے کی مانگ کی تھی۔ اپنے تین پیج کے خط میں ریاست کے محکمہ زراعت نے اہم خریف فصلوں کی لاگت کا تفصیل سے حساب کرتے ہوئے کم از کم امدادی قیمت بڑھانے کے لئے کہا تھا۔
ریاستی حکومت نے لاگت میں مزدوری لاگت، قرضوں پر سود، لگان زمین کرایہ، رکھوالی پر خرچ، نقل وحمل پر خرچ سمیت کئی پوائنٹس کو شامل کرتے ہوئے دھان کی ایم ایس پی 2500 روپے فی کوئنٹل، راگی کی 3100 روپے فی کوئنٹل، مکئی کی1800 روپے فی کوئنٹل، ارہر کی 6800 روپے فی کوئنٹل، مونگ کی 7300 روپے فی کوئنٹل، ارد کی 6800 روپے فی کوئنٹل، مونگ پھلی کی 5800 روپے فی کوئنٹل،سویابین کی 3800 روپے فی کوئنٹل، سورج مکھی کی 6500 روپے فی کوئنٹل اور تل کی6500 روپے کرنے کی سفارش کی تھی۔
مرکز اور چھتیس گڑھ حکومت کے ذریعے مجوزہ امدادی قیمت
ریاست کی مانگکے برعکس مرکز نے کافی کم دھان کی ایم ایس پی 1815روپے، راگی کی 3150 روپے، مکئی کی 1760 روپے، ارہر کی 5800 روپے، مونگ کی7050 روپے، ارد کی 5700 روپے، مونگ پھلی کی 5090 روپے، سویابین کی 3710روپے، سورج مکھی کی 6485 روپے اور تل کی 6485 روپے فی کوئنٹل طے کی ہے۔
زراعتی لاگت اور قیمت کمیشن کے ذریعے سفارش ایم ایس پی پر چھتیس گڑھ حکومت نے لکھا، چھتیس گڑھ حکومت کی تجویز کے مقابلے میں کمیشن کے ذریعےسفارش کی گئی قیمت مختلف فصلوں میں کافی کم ہے۔ لہذاجن فصلوں میں کم از کم امدادی قیمت ریاستی حکومت کے ذریعے ارسال کردہ تجویز سے کم ہے، ان میں ریاستی حکومت کے ذریعے مجوزہ کالم ترتیب 3 کے مطابق کم از کم امدادی قیمت طے کرنے کے لئے ضروری کارروائی کرنے کی زحمت فرمائیں۔
مرکز کے ذریعے ریاستی حکومت کی مجوزہ ایم ایس پی نہیں منظور کرنےکی وجہ سے چھتیس گڑھ حکومت نے دھان پر بونس دینے کی بات کی تھی۔ حالانکہ مرکز نےاس کی کڑی مخالفت کی تھی۔ مرکز نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر چھتیس گڑھ حکومت دھان پر بونس دیتی ہے تو وہ اس کو نہیں خریدیںگے۔
مہاراشٹر
دیویندر فڈنویس کی رہنمائی والے مہاراشٹر کی اس وقت کے بی جےپی-شیوسینا حکومت نے بھی مرکز کے ذریعے طے کی گئی خریف فصلوں کی ایم ایس پی پر عدم اتفاق کا اظہارکیا تھا۔
ریاست کے محکمہ زراعت کے سکریٹری ایکناتھ داؤلے نے ایم ایس پی بڑھانے کی مانگ کرتے ہوئے 17 مئی 2019 کو بھیجے خط میں لکھا،ریاستی حکومت نے 29مارچ 2019 کو خط لکھکر کم از کم امدادی قیمت پر مشورہ اور تجویز بھیجی تھی۔ لیکن زراعتی لاگت اور قیمت کمیشن کے ذریعے خریف فصلوں کے لئے طے کی گئی ایم ایس پی ریاستی حکومت کی تجویز کے مقابلے کافی کم ہے۔
خط میں آگے لکھا گیا،اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ مہاراشٹر حکومت کے ذریعے بھیجے گئی پہلے کی تجاویز پر غور کریں اور خریف فصلوں کے لئے کم از کم امدادی قیمت بڑھائیں۔
مرکز اور مہاراشٹر حکومت کے ذریعے مجوزہ امدادی قیمت
اس وقت کی فڈنویس حکومت نے دھان کی ایم ایس پی 3921 روپے، جوارکی 3628 روپے، باجرا کی 4002 روپے، مکئی کی 2001 روپے، ارہر کی 6161 روپے،مونگ کی 9943 روپے، ارد کی 8556روپے، مونگ پھلی کی 9416 روپے، سویابین کی5755 روپے، سورج مکھی کی 7534 روپے اور کپاس کی 7664 روپے فی کوئنٹل کرنے کی سفارش کی تھی۔
یہ رقم مرکز کے ذریعے طے کی گئی ایم ایس پی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ وہیں مرکزی حکومت نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ کوئی بھی ریاست طے ایم ایس پی پر بونس دےکر خریداری نہیں کریںگی کیونکہ اس سے بازار میں خرابی آتی ہے۔
ہریانہ
اسی طرح بی جے پی مقتدرہ ایک دیگر ریاست ہریانہ نے بھی خریف فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت بڑھانے کی مانگ کی تھی۔ ریاست نے کہا کہ سفارش کی گئی ایم ایس پی پیداواری لاگت کے برابر بھی نہیں ہے۔
ریاست کے محکمہ زراعت نے سی اے سی پی کی رپورٹ کا اندازہ کرنے کےبعد 18 مئی 2019 کو بھیجے اپنے خط میں کہا،یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈیزل، جراثیم کش، کیمیائی کھاد، مشین اور زراعت میں شامل دیگر چیزوں کی قیمت پچھلے سال کےمقابلے میں بڑھ گئے ہیں۔ مزدوروں کی کمی ہونا لاگت میں اضافہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
ریاست نے آگے کہا،سی اے سی پی کے ذریعے مجوزہ قیمت ہریانہ میں بڑھی لاگت کے مقابلے کافی کم ہے۔ ہریانہ ملک میں سب سے زیادہ چاول پیداوار کرنےوالی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ لیکن گزشتہ سال کے مقابلے میں چاول کی ایم ایس پی میں صرف 65 روپے کے اضافہ کی سفارش کی گئی ہے۔
ہریانہ کی زراعت اور کسان کی سے متعلق فلاحی محکمے نے سی اے سی پی کے ذریعےسفارش کی گئی ایم ایس پی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست میں لاگت کی قیمت بڑھنے کے موافق نہیں ہے۔ ریاست کی کھٹر حکومت نے دھان کی ایم ایس پی 1815 روپےفی کوئنٹل کے بجائے 2677 روپے فی کوئنٹل طے کرنے کو کہا تھا۔
Haryana Govt. letter to inc… by The Wire on Scribd
اپنے دو پیج کے خط میں ہریانہ نے کہا،زراعتی لاگت اور قیمت کمیشن کے ذریعے سفارش کی گئی ایم ایس پی پیداواری لاگت کے برابر بھی نہیں ہے۔ہریانہ کے کسانوں کے مفاد میں دھان کی ایم ایس پی کم سے کم 2650-2750 روپے فی کوئنٹل رکھی جانی چاہیے۔
بارش پر منحصر علاقوں کے کسانوں کی خراب اقتصادی حالت بیان کرتے ہوئے ہریانہ حکومت نے کہا کہ ایسے علاقوں کے لئے باجرا کافی مناسب فصل ہوتی ہے کیونکہ اس میں کافی کم پانی لگتا ہے۔ لیکن باجرے کی بھی ایم ایس پی مرکزکے ذریعے کافی کم رکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا، ریاست کے محکمہ زراعت کے ذریعے اندازے میں پتہ چلاہے کہ باجرے کی پیداواری لاگت 2170 روپے فی کوئنٹل ہے۔ لیکن سی اے سی پی نے اسی ایم ایس پی صرف 2000 روپے فی کوئنٹل رکھنے کی سفارش کی ہے۔
اس طرح ریاست کامشورہ ہے کہ باجرا کی ایم ایس پی 2200 روپے فی کوئنٹل رکھی جانی چاہیے۔ ‘ لیکن باوجود ا س کے مرکز نے باجرا کی ایم ایس پی نہیں بڑھائی۔ یہی حال مکئی کا بھی ہے۔ ہریانہ حکومت نے اپنے خط میں کہا کہ مکئی ایک اہم اناج اورجانوروں کے چارے کی فصل ہے لیکن لگاتار ایم ایس پی کم رہنے کی وجہ سے اس کی پیداوار اچانک سے کم ہوئی ہے۔
معلوم ہو کہ پنجاب، ہریانہ جیسی ریاست اندھادھند دھان کی پیداوارکی وجہ سے اس وقت شدید پانی کے بحران سے جوجھ رہے ہیں۔ اس لئے حکومت اس وقت دھان کے بجائے دیگر فصلوں پر دھیان دینے کی بات کر رہی ہے جس میں پانی کم لگتا ہو۔
ہریانہ حکومت نے مکئی کا استعمال آبی تحفظ کی سمت میں کرنے کامشورہ دیتے ہوئے کہا، دھان کے مقابلے میں مکئی کافی کم پانی لیتا ہے اور اس کی پیداوار کو آبی تحفظ اور فصل کی تنوع کی سمت میں بڑھاوا دیا جانا چاہیے۔
ریاستی حکومت نے کہا کہ وہ اس وقت دھان کی جگہ پر مکئی اگانے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے کسانوں کو صحیح ایم ایس پی دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی پیداوار کو بڑھاوا دیا جا سکے۔ لیکن ریاستی حکومت کے مطابق مرکز نے اس کی ایم ایس پی اتنی بھی نہیں رکھی ہے کہ پیداواری لاگت بھی کور کر سکے۔
مرکز اور ہریانہ حکومت کے ذریعے مجوزہ امدادی قیمت
ریاست نے کہا، سی اے سی پی نے مکئی کی ایم ایس پی 1760 روپےرکھنے کا مشورہ دیا ہے جو کہ بہت کم ہے اور پیداواری لاگت کے برابر بھی نہیں ہے۔مکئی کی ایم ایس پی 2350 روپے فی کوئنٹل طے کی جانی چاہیے۔
جراثیم کش کے بڑھتے حملے کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھنے کا حوالہ دیتے ہوئے کھٹر حکومت نے مرکز سے کہا کہ وہ کپاس کی ایم ایس پی 5255 روپے کےبجائے 7000 روپے فی کوئنٹل رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ سی اے سی پی کے ذریعے سفارش کی گئی رقم کسانوں کی لاگت کی بھرپائی نہیں کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ہریانہ ارہر، مونگ، ارد اور مونگ پھلی کی ایم ایس پی بالترتیب 7850 روپے، 9500 روپے، 7400 روپے اور 6600 روپے فی کوئنٹل رکھنےکی سفارش کی۔
راجستھان
مرکز کے ذریعے ایم ایس پی طے کرنے کو لےکر زراعتی وزارت کے 22اپریل 2019 کے خط کا 13 مئی 2019 کو جواب دیتے ہوئے راجستھان حکومت سی اے سی پی کےذریعے سفارش کی گئی ایم ایس پی پر عدم اتفاق کا اظہار کیا اور ریاست میں لاگت کے بڑھے دام کا حوالہ دیتے ہوئے ایم ایس پی بڑھانے کی مانگ کی۔
ریاستی حکومت نے اپنے خط میں لکھا،ریاست کے زیادہ تر حصے میں ریگستانی علاقہ ہونے اور بارش کی تیز صورتِ حال کی وجہ سے فصلوں کی لاگت دیگرریاستوں کے مقابلے میں زیادہ رہتی ہے۔
اس بنیاد پر راجستھان نے باجرا، مکئی، سویابین، ارد اور مونگ کی خریداری قیمت بڑھانے کی مانگ کی۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ حکومت ہند کے ذریعے طےکئے گئے مکئی کی ایم ایس پی 2000 روپے فی کوئنٹل کے بجائے 2200 روپے فی کوئنٹل رکھی جانی چاہیے۔
مرکز اور راجستھان حکومت کے ذریعے مجوزہ امدادی قیمت
اس کے علاوہ مکئی کی ایم ایس پی 1760 روپے فی کوئنٹل کے بجائے2650 روپے فی کوئنٹل، سویابین کی ایم ایس پی 3710 روپے فی کوئنٹل کے بجائے4500 روپے فی کوئنٹل، ارد کی 5700 روپے کے بجائے 6200 روپے اور مونگ کی ایم ایس پی 7050 روپے کے بجائے 8601 روپے فی کوئنٹل رکھی جانی چاہیے۔
راجستھان کے چیف سکریٹری ڈی بی گپتا نے مرکز کے زراعتی سکریٹری سنجے اگروال کو بھیجے خط میں لکھا، چونکہ ان فصلوں کے لئے بوائی اور پیداواردونوں ہی نظریے سے راجستھان ریاست کا ملک میں اہم مقام ہے، اس لئے برائے مہربانی ان فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت کے تعین میں ریاست کے ذریعے ارسال کردہ کم از کم امدادی قیمت تجاویز کو اور زیادہ ترجیح اور اہمیت عطا کروانے کا کام کرائیں۔
حالانکہ مرکز کے ذریعے ریاست کی ان مانگوں کو منظور نہیں کیا گیا۔
اتر پردیش
مرکز کے ذریعے 2019-20 سیزن کے لئے خریف فصلوں کی مجوزہ ایم ایس پی پر اتر پردیش کی یوگی حکومت نے بھی اتفاق نہیں کیا تھا۔ ریاستی حکومت نے ریاست کی پیداواری لاگت کے مطابق ایم ایس پی طے کرنے کی سفارش کی تھی۔ دی وائر کے ذریعےحاصل کئے گئے اترپردیش حکومت کے 12 پیج کے خفیہ خط سے اس کا انکشاف ہوتاہے۔
ریاستی حکومت نے وزارت زراعت کو بھیجے اپنے خط میں کہا، ‘ فصلوں کی کم از کم امدادی قیمتوں کے تعین کی اہم بنیاد ان کی پیداواری لاگت ہوتی ہے۔فصلوں کی پیداواری لاگت قیمت، ان کی پیداوار کے لئے مستعمل انسانی محنت، جانور کام،مشین کام، زمین کا کرایہ اور زراعتی سرمایہ کاری وغیرہ پر کئے گئے خرچ پر منحصرکرتے ہیں۔
یوگی حکومت نے ریاست میں چھوٹے اور حاشیائی کسانوں کی تعداد زیادہ ہونے، ریاست میں جوت کی ساخت کافی چھوٹا ہونے اور کسانوں کے وسائل اور زراعتی سرمایہ کاری کے استعمال کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے ایم ایس پی میں اضافہ کی مانگ کی تھی۔
ریاستی حکومت کے مطابق اتر پردیش میں 92.81 فیصدی چھوٹے اورحاشیائی کسان ہیں۔ ریاست میں جوتوں کی ساخت محض 0.73 ہیکٹئر ہے اور حاشیائی کسانوں کے لئے یہ محض 0.38 ہیکٹیئر ہے۔حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ زراعتی لاگت اور قیمت کمیشن اوراترپردیش حکومت کی پیداواری لاگت کے اندازے میں کافی فرق ہے جس کی وجہ سے ریاستی حکومت ایم ایس پی بڑھانے کی مانگکر رہی تھی۔
اترپردیش حکومت نے فصل بیمہ کے ڈائریکٹر کی رہنمائی میں ریاست کی اگریکلچر یونیورسٹیوں کے زراعتی ماہر اقتصادیات کے ساتھ ملکرپیداواری لاگت کا اندازہ کیا گیا تھا۔ ریاست نے پیداواری لاگت میں انسانی کام،مشین کام، دوا کی قیمت، بیمہ کا پریمیم، زمین کا کرایہ سود سمیت کئی چیزوں کو شامل کیا تھا۔
اس بنیاد پر ریاست نے دھان کی پیداواری لاگت (C2) 1679 روپےفی کوئنٹل لگایا اور اس کی ایم ایس پی 2520 روپے فی کوئنٹل رکھنے کی سفارش کی تھی۔ جبکہ مرکز نے دھان کی پیداواری لاگت (C2) 1619 روپےفی کوئنٹل لگایا اور اس کی ایم ایس پی صرف 1815 روپے فی کوئنٹل طے کی۔
مرکز اور اترپردیش حکومت کے ذریعے مجوزہ امدادی قیمت
دیگر فصلوں کو لےکر سی اے سی پی کے ذریعے پروجیکٹیڈ پیداواری لاگت اترپردیش حکومت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ لیکن سی اے سی پی مجوزہ ایم ایس پی ریاستی حکومت کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سی اے سی پی نے C2 پیداواری لاگت کی بنیاد پر نہیں بلکہA2 + FL پیداواری لاگت (جوکہ C2 کےمقابلے کافی کم ہوتا ہے)کی بنیاد پر ایم ایس پی طے کی ہے۔
اتر پردیش نے باجرا کی ایم ایس پی 2265 روپے، مکئی کی 2225روپے، ارد کی 6225 روپے، مونگ کی 6375 روپے، ارہر کی 5855 روپے، مونگ پھلی کی 5390 روپے، سویابین کی 4245 روپے اور تل کی 6660 روپے فی کوئنٹل کرنے کی سفارش کی تھی۔
حالانکہ مرکز نے ریاست کی ان سفارشوں کو نہیں مانا۔
ریاستی حکومت نے لکھا، ریاست کے کسانوں کو ان کی فصلوں کے منافع بخش قیمت دلانے اور ریاست کی زیادہ تر آبادی زراعت اور زراعت سے متعلق کاروبار پرمنحصر ہونے کو دھیان میں رکھتے ہوئے ریاست کے محکمہ زراعت کے ذریعے قیاسی قیمتوں کے مطابق فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت طے کئے جانے چاہیے تاکہ کسانوں کو ان کی فصلوں کے منافع بخش قیمت حاصل ہو سکیں اور کسانوں کو زراعتی سیکٹرسے منتقل ہونے سے روکا جا سکے۔
تمل ناڈو
تمل ناڈو حکومت نے کہا کہ 2019-20 سیزن کے لئے خریف فصلوں کی مجوزہ ایم ایس پی کسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
24 جون 2019 کو بھیجے خط میں اس کی وجہ بتاتے ہوئے ریاستی حکومت نے کہا، ہرسال بارش، پانی کی دستیابی، باندھ سے پانی چھوڑنا اور اس کی لاگت میں اتار-چڑھاؤ اور پورے سال بہنے والی ندیوں کا ختم ہوناپیداواری لاگت میں اہم کردار نبھاتا ہے۔
ریاست نے آگے کہا، دالوں کے تناظر میں، کم پیداوار اور دیگراناج کے لئے زیادہ کم از کم امدادی قیمت نے دالوں کی زراعت کو حاشیے پر دھکیل دیا ہے۔ اس لئے دالوں کی ایم ایس پی بڑھاکر اس کی پیداوار کو بڑھاوا دیا جا سکتاہے۔
تمل ناڈو حکومت نے کہا، صرف پیداواری لاگت قیمت ہی کم از کم امدادی قیمت طے نہیں کرتی ہے۔ کسانوں کی سماجی اور اقتصادی حالت جیسے فیکٹر کو بھی دھیان میں رکھا جانا چاہیے تاکہ کسانوں کو پُروقار زندگی دی جا سکے۔
مرکز اور تمل ناڈو حکومت کے ذریعے مجوزہ قیمت
اس بنیاد پر ریاستی حکومت نے دھان کی ایم ایس پی 2700 روپے، جوارکی 2750 روپے، باجرا کی 2150 روپے، راگی کی 3150 روپے، مکئی کی 2100 روپے،ارہر (ارہر) کی 6300، مونگ کی 7700، ارد کی 6200 روپے، مونگ پھلی کی 5400روپے اور کپاس کی 6200 روپے کرنے کی سفارش کی تھی۔
اس کے علاوہ ریاست نے اضافی لمبے اسٹیپل کپاس کی ایم ایس پی 9000روپے سے 10000 روپے فی کوئنٹل طے کرنے کی مانگ کی تھی۔ تمل ناڈو حکومت نے کہاکہ اضافی لمبے اسٹیپل کپاس کی الگ سے کم از کم امدادی قیمت طے کرنے کی ضرورت ہےتاکہ کپاس کسانوں کو اس فصل کو اگانے میں بڑھاوا دیا جا سکے۔
حالانکہ مرکز نے ریاست کی ان سفارشوں کو منظور نہیں کیا۔
اڑیسہ
اڑیسہ حکومت نے مرکز کے ذریعے سفارش کی گئی ایم ایس پی پر عدماتفاق کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ زراعتی لاگت اور قیمت کمیشن کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہےکہ حکومت نے A2 + FL لاگت کی بنیاد پر ایم ایس پی کی سفارش کی گئی ہے، جبکہ ریاست کا مشورہ ہے کہ C2 لاگت کی بنیاد پر ایم ایس پی طے کی جانی چاہیے جو پیداواری لاگت کا بہتر اندازہ ہے۔
ایک جولائی 2019 کو بھیجے اپنے خفیہ خط میں ریاست نے کہا، اڑیسہ دھان پیداکرنے والی ایک اہم ریاست ہے اور یہاں پر ذخیرہ کا کافی درست سسٹم ہے، اس لئےدھان کی ایم ایس پی میں معمولی اضافہ سے ریاست کے کسانوں کو شاید ہی کوئی فائدہ ملے۔
اڑیسہ نے ریاست میں پیداواری لاگت کا اندازہ کر ایم ایس پی 2930روپے فی کوئنٹل رکھنے کی سفارش کی تھی۔ وہیں مکئی کی 1800 روپے، راگی کی 3000روپے، ارہر کی 5900 روپے، مونگ کی 7400 روپے، ارد کی 5850 روپے، مونگ پھلی کی 5140 روپے، سورج مکھی کی 5500 روپے اور کپاس کی 5350 اور 5650 روپے فی کوئنٹل طے کرنے کی سفارش کی تھی۔
مرکز نے ریاست کی ان سفارشوں کو منظور نہیں کیا۔
کرناٹک
اس کے علاوہ کرناٹک کی اس وقت کے کانگریس-جے ڈی ایس حکومت نے 29جون 2019 کو خط لکھکر مرکزی حکومت سے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کی بنیاد پر C2 لاگت کا ڈیڑھ گنا دینے کی مانگ کی تھی اور مرکز کے ذریعے طے کی گئی ایم ایس پی کو خارج کر دیا تھا۔
ریاست نے کرناٹک زراعتی قیمت کمیشن کے ذریعے سال 2016 سے کسانوں سے آن لائن اکٹھا کی گئی جانکاری کی بنیاد پر کہا کہ ان کے ذریعےاندازہ کی گئی پیداواری لاگت سی ایس سی پی کے پیداواری لاگت کے مقابلے کافی کم ہے۔
ریاست نے کہا تھا،اس لئے 2019-20 سیزن کے لئے طے کی گئی ایم ایس پی ریاست کی پیداواری لاگت کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ اس کی وجہ سے کسانوں کے منافع کا فرق یا تو کم ہے یا پھر منفی ہے۔
ریاست نے پیداواری لاگت اور ایم ایس پی کا موازنہ کرتے ہوئے اپنےخط میں لکھا کہ کہ ارہر کے معاملے میں ایم ایس پی A1 + FL لاگت کے برابر بھی نہیں ہے، جس کی وجہ سے کسانوں کو کوئی فائدہ پہنچتا نہیں دکھتا ہے۔
چونکہ کرناٹک میں زمین کو لیز پر دینے کی قانونی منظوری نہیں ہے اس لئے A1 لاگت اور A2 لاگت ایک جیسے ہوتے ہیں۔
ریاست کی لاگت قیمتوں کے مقابلے میں ایم ایس پی کی حالت
کرناٹک حکومت نے لکھا، اگر کے اے پی سی کے ذریعے اندازہ کئے گئے C2 لاگت کو شامل کیا جاتا ہے تو مکئی اور مونگ کو چھوڑکر دیگر فصلوں کے لئے فائدے کا فرق منفی ہو جاتا ہے۔ پورے ملک میں ایک جیسی ایم ایس پی نافذ ہونے کی بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگر A1 + FL لاگت کی جگہ C2 لاگت کو شامل کیا جاتا ہے تو یہ ہندوستان کی ریاستوں کی پیداواری لاگت میں عدم مساوات کے مسئلے کا حل کر دیتا۔
ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے کہا کہ ریاست کی پیداواری لاگت کو دھیان میں رکھتے ہوئے کسانوں کی بھرپائی کے لئے مجوزہ ایم ایس پی کے اوپر ریاستی حکومت کو بونس دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا،اس لئے سی اے سی پی کا یہ کہنا کہ بونس دینے کی وجہ سے بازار میں خرابی آتی ہے، اس پرنظرِ ثانی کی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ ریاستی حکومت نے اپنے 10 پیج کے لمبے خط میں زراعت سےجڑے دیگر مسائل کا حل کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔ حالانکہ مرکز نے ریاست کی ان سفارشوں کو منظور نہیں کیا، اس لئے گزشتہ سال کے دسمبر مہینے میں ریاستی حکومت نےاعلان کیا کہ وہ ارہر کی ایم ایس پی پر 300 روپے فی کوئنٹل کا بونس دیںگے۔
حال ہی میں صارفی امور کی وزارت کے ذریعےلوک سبھا میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق انڈین فوڈ کارپوریشن (ایف سی آئی)نے 30 جنوری 2020 تک میں ملک بھر میں چاول کی کل 333.42 لاکھ میٹرک ٹن کی خریداری کی ہے۔ وہیں اس دوران گیہوں کی 341.32 لاکھ میٹرک ٹن کی خریداری کی گئی ہے۔
Categories: خبریں