خبریں

’ہم اس ہندوستان کی تعمیر کا حصہ بننا چاہتے ہیں، جو بسمل اور اشفاق بنانا چاہتے تھے‘

اتر پردیش کے الہ آباد شہر کے روشن باغ میں شہریت قانون، این آر سی اوراین پی آر کے خلاف گزشتہ 12 جنوری سے لگاتار مظاہرہ چل رہا ہے، جس میں خواتین  بڑی تعداد  میں حصہ لے رہی ہیں۔

الہ آباد کے روشن باغ  میں شہریت  قانون، این آر سی اوراین پی آر کے خلاف چل رہے مظاہرہ میں کئی آرٹسٹ اپنی پیش کش دینے آتے رہے ہیں۔ (سبھی فوٹو: میناکشی تیواری/د ی وائر)

الہ آباد کے روشن باغ  میں شہریت  قانون، این آر سی اوراین پی آر کے خلاف چل رہے مظاہرہ میں کئی آرٹسٹ اپنی پیش کش دینے آتے رہے ہیں۔ (سبھی فوٹو: میناکشی تیواری/د ی وائر)

‘بڑھے چلو، ابھی تو قافلہ  انقلاب کو آگے، بہت آگے جانا ہے، اسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ بھلے ہی یہ تحریک ایک خاص وجہ سے شروع ہوئی ہو، لیکن اسے ابھی اور آگے لے جانا ہے…’الہ آباد کے روشن باغ علاقے کے منصور علی پارک میں گزشتہ 12 مارچ کی رات تقریباً دس بجے ایک مقرریہ بات مائیک سے بول رہے تھے اور سینکڑوں برقع نشیں عورتیں ان کی بات دھیان سے سنتے ہوئے تالیاں بجاکرحمایت  دے رہی تھیں۔

دہلی کے شاہین باغ میں شہریت قانون (سی اےاے)، این آر سی اوراین پی آرکے خلاف خواتین کے ذریعےکیے جا رہے مظاہرہ کے بعد تقریباً ایک مہینے بعد الہ آباد میں 12 جنوری 2020 سے یہ مظاہرہ شروع ہوا تھا۔اس وقت اتر پردیش انتظامیہ  کے ذریعے سی اے اےمخالف مظاہروں پر ہوئی کارروائی کو دیکھتے ہوئے ایسی امید تھی کہ خواتین  کا یہ مظاہرہ زیادہ دن نہیں چل  سکےگا، لیکن تمام چیلنجزکے باوجود مظاہرین  کا جذبہ پھیکا نہیں پڑا ہے۔

دھرنے کے شروعاتی ہفتے سے لےکر اب تک پولیس کئی بار یہاں پہنچی لیکن خواتین  کی ضد کو دیکھتے ہوئے اسے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا۔اس مظاہرہ کی کمان الہ آباد کے شہری  سماج کے لوگ سنبھال رہے ہیں، جومختلف کمیونسٹ، عوامی  اور سماجوادی اور طلبا تنظیموں سے جڑے ہیں۔ حالانکہ وہ اس کوعام مسلم خواتین  کی  ہی تحریک  کہہ رہے ہیں۔

پارک میں بتائے دو مہینے سے زیادہ کے وقت میں ان مظاہرین کے یہاں جمعہ کی نماز سے لےکر یوم جمہوریہ اور ہولی جیسے تیوہار بھی اجتماعی طور پر منائے ہیں۔یہاں کئی طلبہ و طالبات اور سماجی کارکن بھی موجود ہیں، جو یہاں کی مختلف  ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ایسی ہی ایک کارکن ہیں سارہ  احمد صدیقی، جو اس مظاہرہ کی شروعات سے ہی یہاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘ہمارے اس مظاہرہ کے 60 دن سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اب تک یہ پرامن  ڈھنگ سے چل رہا ہے۔’

Allahabad-Roshan-Bagh-CAA-Protest-Photo-The-Wire

ذیشان رحمانی الہ آباد یونیورسٹی کے طالبعلم  ہیں۔ وہ سارہ کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ‘یہ مظاہرہ شروع سے ہی پرامن  رہا ہے  باوجود اس کے انتظامیہ  نے دفعہ 144 کے 250 مقدمے درج کئے ہیں۔ خود مجھ پر تین کیس درج ہوئے ہیں۔ 37 ساتھیوں پر آئی پی سی کی مختلف دفعات میں مقدمے درج کئے گئے ہیں، لیکن ان کا کوئی اثر نہیں پڑا۔’

عموماً روشن باغ کے کپڑا بازار کی چہل پہل سے گلزار رہنے والے اس علاقے میں اب پارک کے قریب خواتین اور بچے لگاتار آتے جاتے دکھتے ہیں۔ پارک کے آس پاس کے گھروں کی دیواروں پر سی اے اے اور این آر سی کے خلاف نعرے لکھے ہوئے ہیں۔

خواتین کی بھیڑ میں تنوع ہے۔ یہاں غیر مسلم خواتین بھی ہیں، عمردراز بھی اور ننھے بچوں کو گود میں لےکر آئی نئی مائیں بھی۔

سارہ کہتی ہیں، ‘چند لوگوں کے ساتھ شروع ہوئی  اس تحریک سے آج ہزاروں کی تعداد میں عورتیں جڑ چکی ہیں۔ یہ تحریک  کسی ایک کمیونٹی  یاخاص طبقے کا نہیں ہے، یہ سبھی مذاہب ،ذات کی  تحریک ہے۔ دوردراز علاقوں سے لوگ یہاں ساتھ دینے آ رہے ہیں۔ انتظامیہ  کی طرف سے کارروائی  ہوتی ہے، لیکن یہ خواتین  ڈری نہیں ہیں۔ یہ اپنی آواز اٹھا چکی ہیں۔ اور اب ان آوازوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔’

سارہ آگے کہتی ہیں، ‘شاہین باغ سے شروع ہوئی تحریک  سے اب پورے ملک میں ہزاروں شاہین باغ بنتے جا رہے ہیں اور یہ انقلاب تب تک نہیں رکے گا جب تک سرکار سی اے اے کا کالا قانون واپس نہیں لے لیتی۔ کیونکہ اب ہم مذہبی بنیاد پر ہونے والی سیاست کو بڑھاوا نہیں دیں گے۔ ہمارا ملک انیکتا میں ایکتا کے لیے جانا جاتا ہے اور یہ الہ آباد ہے، جو گنگا جمنی تہذب کا گہوارہ ہے۔’

Allahabad-CAA-Protest-Photo-The-Wire3

دشا طلبہ تنظیم  سے جڑی نیشو بتاتی ہیں، ‘جب ہم نے پہلے دن تحریک شروع کی تھی  تب پانچ چھ لوگ ہی تھے اور انتظامیہ  کو لگ رہا تھا کہ شام تک یہ بھیڑ ختم ہو جائےگی، لوگ کم ہو جائیں گے۔ لیکن جیسے جیسے رات بڑھی، دن گزرے، لوگ جڑنے لگے۔’وہ بتاتی ہیں کہ اس دوران کئی بار یہاں رات برات پولیس دھرنا ختم کروانے کے ارادے سے آئی لیکن خواتین  کی بڑی تعدادہونے کی وجہ سے انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اب پولیس اورانتظامیہ  نے مظاہرین  کا حوصلہ  توڑنے کا نیا طریقہ نکالا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ‘یہاں انتظامیہ مظاہرہ سے جڑے لوگوں کے اہل خانہ کو پریشان کر رہی ہے۔ یہاں ایک ڈاکٹر آشیش متل ہیں، ان کی بیوی  کے کلینک کو سیز کر دیا گیا۔ ایک ساتھی ہیں عمر، ان کے بھائی کے اسکول کو نوٹس دیا گیا وہ بھی ایک دم فرضی بنیاد پر۔ یہیں ایک دلت بستی ہے، جہاں سے لوگ آیا کرتے تھے، لیکن بستی میں پولیس جاکر بول رہی ہے کہ آپ میں سے کوئی وہاں دکھائی نہ پڑے۔ اس طریقے سے ہماری تحریک کو کمزور کیا جا رہا ہے۔’

ڈاکٹر آشیش آل انڈیا کسان مزدور سبھا کے جنرل سکریٹری ہیں اور اس مظاہرہ میں کافی فعال ہیں۔ ان کی بیوی  ڈاکٹر مادھوی متل ریڈیولاجسٹ ہیں، جن کے الٹرا ساؤنڈ سینٹر کو انتظامیہ نے رجسٹریشن کے دستاویز نہ دکھانے کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتی  آٹھ مارچ کو سیل کر دیا تھا۔

ڈاکٹر مادھوی متل اس وقت شہر میں نہیں تھیں۔ الہ آباد میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس کو زیادتی قرار دیتے ہوئے شہر کے سبھی الٹرا ساؤنڈ سینٹر 16 سے لےکر 18 مارچ تک بند رکھنے کو بھی کہا تھا۔پولیس کے ذریعے تحریک  میں شامل ہونے والوں کوزدوکوب کرنے کی بات ڈاکٹر متل بھی کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ‘یہاں ویلفیئر پارٹی کے ایک جاوید صاحب ہیں، ان کے خلاف قبرستان میں پیڑ کٹوانے کا فرضی کیس درج کیا گیا ہے۔’

Allahabad-Roshan-Bagh-protest-Wall-Photo-The-Wire

مظاہرہ میں لگاتار اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما، مختلف  شہروں کے سماجی کاارکن ، آرٹسٹ اورماہر ین تعلیم بھی شرکت کر رہے ہیں اور اس کو  اپنی  حمایت دے رہے ہیں۔ کیا اس سے سرکار پر دباؤ بنانے یاعوام  کے بیچ اس قانون کو لےکر بیداری  پھیلانے میں کوئی مدد ملے گی؟

ڈاکٹر متل کو لگتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں میں اس معاملے کو لے کر عوام کے بیچ اترنے کی خواہش نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘یہاں جب یہ رہنما آتے ہیں تو کافی بڑی تعداد میں آتے ہیں اور اچھے اچھے بیان بھی دےکر جاتے ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ عوام کو لے کرتنظیم  نہیں بنا رہے ہیں۔’

وہ آگے کہتے ہیں، ‘دوسری طرف سرکار لگاتار اس کو لےکرعام لوگوں کوفریب میں مبتلا کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ این آر سی-این پی آر کو لےکر منع کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف ریلیوں میں سخت  بیان دیتے ہیں۔عوام  سمجھ نہیں پا رہی کہ یہ کیا قانون ہے۔ اپوزیشن پارٹی اس کی مخالفت تو کرتے ہیں لیکن عوام  کے بیچ میں جاکر نہیں سمجھاتے، اس وجہ سے صورت حال  صاف نہیں ہو رہی ہے۔’تحریک  میں غیر مسلموں کی حمایت کو لےکر نیشو کہتی ہیں،‘دوسری جگہوں پر ہو رہی تحریک  میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر مسلموں کی حصہ داری  ہے لیکن اگر یہاں کی بات کروں تو یہاں ان کی اتنی تعداد نہیں ہے کیونکہ یہاں ان میں بھرم ہے۔’

نیشو ایک تجربہ شیئر کرتی ہیں، ‘ایک دن ہماری ایک ٹیم اس قانون اور ہماری مخالفت کے بارے میں پرچے باٹنے کے لیے سول لائنس گئی تھی، توانتظامیہ  کی طرف کہا گیا کہ تم لوگ یہاں دکھائی نہیں پڑو گے اور ہم لوگوں نے خود دیکھا تھا کہ کئی پولیس اہلکار سی اے اے کی حمایت میں پرچے بانٹ رہے تھے۔ اس سے زیادہ شرم کی بات کچھ ہو ہی نہیں سکتی۔’

یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کی جانب سے لکھنؤ کے مظاہرین  کے خلاف کارروائی کے بعدخواتین  چہرہ اور پہچان ظاہر کرنے سے بچتی نظر آ رہی ہیں۔

Allahabad-People-at-Roshan-Bagh-CAA-Protest-Photo-The-Wire

روحی (بدلا ہوا نام)پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور اس مظاہرہ میں باقاعدگی  سے حصہ لے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘سی اے اے، این آر سی اوراین پی آرامامتیازی  ہیں اورغیر آئینی  بھی۔ ہمارے آئین  میں مذہب  کی بنیادشہریت  دینے کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن سی اے اے مذہب کی بنیاد پرامتیاز کرتا ہے۔’

وہ آگے کہتے ہیں، ‘این پی آر کامقصد مردم شماری  سے جڑا تھا، 2010 میں جب این پی آر کیا گیا تھا، تب اس میں کچھ متعین  سوال تھے، جن میں آپ کے والدین  کی پیدائش کی تاریخ یا مادری زبان نہیں پوچھی گئی تھی، لیکن اس بار ایسا کیا جا رہا ہے۔ تیسرا، این آر سی۔ سرکار کہہ رہی ہے کہ اس کو نافذ نہیں کیا جائےگا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ این پی آر کو مستقبل  میں این آر سی کے لیے استعمال کیا جائےگا۔

ذیشان کا کہنا ہے کہ سی اے اے ملک کو باٹنے کی سازش ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘بھارت کا ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی مل کر رہا ہے اور مل کر رہےگا۔ جس ہندوستان  کی تعمیر کی رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ کھان نے سوچی تھی، ہم بھی اسی ہندوستان کی تعمیر کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے کسی ہندوستان  کی تعمیر کا حصہ نہیں بننا چاہتے، جس میں آر ایس ایس جیسی فسطائی ذہنیت کے لوگ ہوں۔’

نیشو بھی اس قانون اور بی جے پی سرکار کے رویے کو جرمنی سے برآمدفسطائی ماڈل مانتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘بی جے پی  سرکار کی سیاست رہی ہے کہ یہ عوام کو ہمیشہ ایک نقلی دشمن دے دیتے ہیں اور ان کے لیے وہ نقلی دشمن یہاں کی مسلم آبادی ہے۔ اور انہوں نے یہ سیکھا کہاں سے ہے… یہ جرمنی سے، ہٹلر سے سیکھا ہے، جہاں ہٹلر بتاتا تھا کہ ہمارا دشمن یہودی ہے۔ یہاں انہوں نے مسلم کو دشمن سمجھا ہوا ہے۔’

تحریک  میں آس پاس کے شہروں سے بھی خواتین حمایت  دینے آئی ہوئی ہیں۔ درخشاں ان میں سے ایک ہیں۔ وہ پاس کے ٖفتح پور ضلع کی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘میرا بس اتنا کہنا ہے کہ سرکار سی اے اے کو واپس لے اور جس طرح شہریت  دی جا رہی تھی، ویسے ہی دی جائے۔ یہ قانون ہمارے آئین  کے حساب سے ٹھیک نہیں ہے۔’

ان کا کہنا ہے، ‘میں شاہین باغ تک گئی ہوں۔ اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ اتنا مظاہرہ ہو رہا ہے اور سرکار ہمیں سن نہیں رہی ہے۔ انہیں ہم لوگوں کو سننا چاہیے، ہم یہاں کے شہری ہیں۔ ہم نے انہیں ووٹ کیا ہے۔ مل کر انہیں گدی پر بٹھائے ہیں، لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں، بس مخالفت کر رہے ہیں۔ جب تک قانون واپس نہیں ہوگا، ہٹیں گے نہیں۔’

نوری بھی اس بات سے خفا ہیں۔ وہ کہتی ہیں،‘وزیراعظم مودی ہمارے بھائی ہیں۔ تین طلاق قانون کے وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن  آج ان کی بہنیں دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں، وہ کیوں نہیں آتے؟ وہ یہاں نہیں آ سکتے، لیکن شاہین باغ تو ان کے لیے دس قدم پر ہے، وہیں چلے جائیں۔’