اس لاک ڈاؤن کو اتنے بھر کے لیے درج نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں نے کچن میں کیا نیا بنانا سیکھا، کون سی نئی فلم ویب سیریز دیکھی یا کتنی کتابیں پڑھ گئے۔ یہ دور ہندوستانی سماج کے کئی چھلکے اتار کر دکھا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی نظر کہاں ہے؟
یہ سب کچھ پہلی بار ہو رہا ہے، ایک دم پہلی بار۔ جب ایک ایسی وبا سے پوری دنیا جوجھ رہی جس میں ایک وائرس نے انسان کو اپنا کیریئر بناکر پوری انسانیت کو ہی بحران میں ڈال کر ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔کو رونا نے دنیا کی رفتار دھیمی بھر نہیں کی ہے، روک دی ہے۔ ہندوستان جیسےملک میں تو موجودہ نسل نے شاید ہی کبھی یہ سب تصور کیا ہو کہ ایک ایسا بھی وقت آئےگا جب ہم مہینوں گھروں میں قید رہیں گے، اپنی زندگی بچانے کے لیے۔
مہینوں ایک شخص دوسرے شخص سے ہاتھ تک نہ ملاپائے گا۔ پورے ملک کا چپہ چپہ سڑکیں ویران ہو جائیں گی، ریل پٹریوں پر کھڑی ہو جائیں گی، اڑانیں زمین پکڑ لیں گی، مال کی بتیاں مہینوں نہیں جلیں گی، ہوٹل ریستوراں میں مہینوں ٹیبل کے اوپر ٹیبل الٹ کر رکھ دیا جائےگا۔
جی ہاں، یہ لاک ڈاؤن ہے اور یہ لاک ڈاؤن کب تک ہے اس پر غیر یقینی کی حالت بنی ہی ہے ابھی۔ فی الحال ہم لاک ڈاؤن پارٹ 2 میں ہیں۔ایسے میں پوری دنیا خود کو طرح طرح کے تخلیقی کاموں میں مصروف رکھ کر خود کو ذہنی اورجسمانی طور پر فعال اورمثبت بنائےرکھنے کی کوشش میں ہے۔
کوئی سالوں بعد رسوئی میں گیا ہے تو کوئی پہلی بار کسی ساز پر انگلی پھیر رہا ہے۔ کوئی اپنے اندر چھپی صلاحیت کو ٹٹول رہا ہےتو کوئی اس وقت کا استعمال تنہائی کی ‘سادھنا میں شانتی کی کھوج ‘کے لیے کر رہا ہے۔لیکن بطورقلمکار میں کیا کر رہا ہوں اس لاک ڈاؤن میں؟ کیا فرصت کے پل میں کچھ پڑھ رہا ہوں یا کچھ نیالکھ رہا ہوں؟
مجھے لگتا ہے کہ یہ قلمکار کے لیے عام سی بات ہے جس کو اس کو ہر عام دنوں میں بھی یہی کرنا چاہیے۔ میں بطورقلمکار لاک ڈاؤن کے اس دور کو اس طرح ضائع نہیں جانے دینا چاہتا۔میں اس وقت کتاب نہیں، پہلی بارہوئے اس واقعہ میں بدلی دنیا کو پڑھ رہا ہوں۔ بطورقلمکار یہ میرے لیے بالکل نئی دنیا ہے جس کو آج کے پہلے دیکھا پڑھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔
اپنے آس پاس دیکھ رہا ہوں کہ یہ آفت کسی کو گھر میں بٹھا کر تخلیقی بنا رہی ہے تو ایک آبادی ایسی ہے جسے سڑکوں پر کھڑے ہوکر یہ سوچنا پڑ رہا کہ اس کا گھر ہے ہی کہاں؟آج بطور قلمکاریہ دیکھنا کتنا واضح ہے کہ ایک ملک کے بھیتر کتنے ملک ہوتے ہیں۔ میں ملک کے بھیتر کے کئی ملک دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اس کی کہانی تو ہمارے حصہ کی کھوج بین میں رہتی ہی نہیں ہے۔
میں بالخصوص ہندوستانی دیہی زندگی پر لکھنے والاقلمکار ہوں اور اس لحاظ سے یہ دور مجھے نئےبحران کے نامانوس استعارہ دے رہا ہے۔یہاں میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ شاید ہی کوئی مستقبل میں یقین کرےگا کہ کسی مہانگر سے غریب مزدور لوگوں کا جتھا اپنی جان بچانے ہزاروں ہزار کیلومیٹر پیدل ہی چل دیا تھا اپنے گاؤں کی طرف۔
ایک قلمکار کے طور پر میری نظر یہ سمجھنے میں لگی ہے کہ کوئی طبقہ لاک ڈاؤن کاٹ رہا ہے، کوئی لاک ڈاؤن بھوگ رہا ہے اور کوئی طبقہ ایسا ہے جو لاک ڈاؤن بھگت رہا ہے۔
ایک قلمکار اگر اپنے سماج کی پرتوں کی پڑتال نہیں کرےگا تو تخلیق میں احساس اورسچائی، دونوں کہاں سے لائےگا؟لاک ڈاؤن کا،آفت کا یہ دور ہندوستانی سماج کے کئی چھلکے اتار کرآپ کو دکھا رہا، سوال ہے کہ آپ کی نظر کہاں ہے؟اگر سچ میں کچھ پڑھنا ہے تو کسی قلمکار یا سوشل سائنٹسٹ کے لیے یہ کتاب بند کر دینے کا وقت ہے۔
ہندوستانی تاریخ میں ذات پات،چھواچھوت کی ذہنیت سے اپجی شرمندگی نے نہ جانے ہندوستانی ادب کو کتنا مالا مال کیا، اپنے اعتراضات سے سماج کوسمت دی اور ترقی پسند بنایا۔آج لکھنے کی ذمہ داری شاید یکبارگی بڑھنے والی ہے۔ ہندوستانی سماج میں پہلی بار ‘سوشل ڈسٹنسنگ’ یعنی ‘سماجی دوری’ جیسےلفظ کو سنا گیا ہے جس پرہر کمیونٹی اور طبقہ کو پیروی کرنی ہے۔
یہ لاک ڈاؤن کا وقت تو ایک دن بیت جائےگا لیکن کو رونا کا خوف شاید ہی اس دنیا سے اتنی جلدی جائےگا۔بطورقلمکار اس تصور سے گزرتے ہوئے سہر رہا ہوں کہ نامعلوم کو رونا کے خوف سے جہاں سماجی دوری ہم میں سے اکثر لوگوں کی عادت نہ بن جائے۔
ایک ایساہندوستانی سماج جو پہلے ہی ذات پات،مذہب ،علاقہ اور امیری غریبی میں بٹا ہوا ہے اس کو یہ کو رونا کاخوف کس قدر بڑے منطقی اور قانونی طور پر بانٹتا ہی جائےگا۔فطری طور پرجشن منانےوالی معاشرتی زندگی نامعلوم وائرس کی موجودگی کے خوف سے خوف زدہ رہےگی، تباہ ہو جائےگی۔ سوچیے کہ عام طور پربیمار اور کھانستاشخص ابھی کتنے سالوں تک کو رونا کا اچھوت مشتبہ مانا جائےگا۔
سماجی طور پر یہ سب پریشانیاں ابھی آنی ہی آنی ہیں اور ایسے میں لکھنےوالوں کی ذمہ داری رہےگی کہ وہ اس المیہ پر لکھے اور اس نامعلوم خوف کے تئیں لوگوں کو آپس میں جوڑ نے کے لیے لکھے۔ابھی ہم جتنے زور شور سے لوگوں کو لوگوں سے دور رہنے کی اپیل کر رہےہیں ، کو رونا کے بعد لوگوں کو جوڑ نے کی اپیل کے لیے کوئی مہم نہیں چلنی ، نہ ہی سرکاریں اس کے لیے اشتہار دیں گی ۔
یہ کام تب قلمکاروں کا ہی رہےگا کہ اب جوڑ نے کی مہم کیسے اپنی رائٹنگ سے چلائی جائے۔ یہ بیماری بھلے امیر طبقہ لے کر آیا ہو لیکن اب موجودہ وقت میں کو رونا نے اقتصادی فرق کو ختم کر دیا ہے اور اس کے کئی غریب مریض بھی ملنے لگے ہیں۔تب سوچیے کہ جب ایک وقت کے بعد امیروں سے کو رونا ہارنے لگےگا، تب ایک غریب دکھنے والا کھانستا ہوا ہر میلا کچیلا شخص اس مہذب تہذیب کے لیے خطرہ نہ نظر آنے لگے اور دشمن کی طرح مارا نہ جائے اس دنیا کو بچانے کی مہم میں۔
اس المیہ کے ظہور سے پہلے مستقبل کا آئینہ لکھنا ہوگا قلمکاروں کو، جس میں دنیا اپنا ممکنہ عکس دیکھ سکے اور خود پرسوچ سکے۔اتفاق سے اس وقت گاؤں میں ہوں۔ آس پاس ہی کچھ کوارنٹائن سینٹر بنے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے سینٹر میں گاؤں دیہات کے مزدور ورگ ہی ملیں گے۔
ان کے معمول اور نفسیات کو پڑھنے کی کوشش میں ہوں۔ ایک دلچسپ واقعہ بتاتا ہوں۔ ایک مزدور کو جب 14 دنوں کے کورانٹائن کے بعد چھوڑا جانے لگا تو وہ مایوس تھا کہ اب اسے تین ٹائم کھاناکہاں ملے گا۔کچھ خوش تھے کہ ان کے کھاتے میں سرکار نے پیسے ڈالے اور وہ ان مزدوروں کے لیے افسوس کر رہے تھا جو کورانٹائن نہیں ہو پائے کیونکہ تب کچھ پیسے تو مل جاتے۔
ابھی کھیتی باڑی کے حالات، کام دھندے،یومیہ مزدوری کی بندی کے بعد کسانوں، مزدوروں وغیرہ کے لیے کیا پریشانی آ رہی اور کیا آنی ہے، اس پر ایک پینی نظر سے دیکھنا اور سوچنا ہی طے کرےگا کہ موجودہ نسل اس وقت کو کتنی سچائی کے ساتھ لکھے گی۔ایک قلمکار کے طور پر اس لاک ڈاؤن کو اتنے بھر کے لیے نہیں درج کر سکتا کہ اس دور میں لوگوں نے اپنے کچن میں کیا کیا نیا بنانا سیکھا اور کون کون سی نئی فلمیں ، ویب سیریز دیکھی یا کتنی کتابیں پڑھ گئے۔
میرے لیے یہ اپنے وقت کی گہری اور جامع پڑتال کا دور ہے۔ہندوستانی عوام کی مکمل سماجیات اور ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات کامطالعہ۔میں اس وقت کچھ اور پڑھنے لکھنے میں خود کو خرچ نہیں کرنا چاہتا۔ یہ وقت مستقبل کی بڑی ذمہ داری دے رہا ہے لکھنے بولنے والوں کو۔ جئے ہو۔
(نیلوتپل مرینال قلمکار ہیں۔)
Categories: فکر و نظر