جاوید اختر پہلے ہندوستانی ہیں، جنہیں تنقیدی سوچ کا رچرڈ ڈاؤکنز ایوارڈ دیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں آزادانہ سوچ تنزلی کا شکار ہے۔
جاوید اختر سیاست، مذہب کے سماجی سطح پر اثرات اور مذہبی بنیاد پرستی پر اپنے مدلل انداز کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ 75 سالہ جاوید اختر مذہب اسلام میں گروہ بندی کے علاوہ انتہا پسند ہندو طبقے کی طرف سے مسلم مخالف بیانیے کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں اپنی شاعری اور نثر میں عقلیت پسندی کی تحریک کے احیاء اور سماجی و سیاسی نقطہ نظر کی وجہ سے رچرڈ ڈاؤکنز ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں جاوید اختر نے کہا کہ ہندوستان میں رچرڈ ڈاؤکنز کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ انہیں اس ایوارڈ ملنے سے عوام کو پتہ چلا ہے کہ وہ صرف نظم، گیت یا اسکرپٹ لکھنے کی وجہ سے نہیں دیا گیا بلکہ تنقیدی سوچ پر دیا گیا ہے۔ جاوید اختر نے کہا کہ ان کے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جاوید اختر نے کہا کہ ہندوستانی معاشرہ قدامت پسند ہے اور اس صورتحال میں کسی نظریے پر یقین نہ رکھنا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ہندوستان نے کئی اہم لادین اور عقلیت پسند پیدا کیے ہیں۔ تاہم انہیں اپنے خیالات کا کھلے عام اور برملا اظہار کرتے ہوئے خوف ہوتا ہے کہ کہیں انہیں بے جا تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
جاوید اختر نے کہا کہ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے، تب سے اب تک بھارت میں کئی دانشوروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور انہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کے تحت قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکیل اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سدھا بھاردواج کو طویل قید کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
’ریاست اور قوم میں فرق ختم ہو گیا‘
جاوید اختر کے مطابق قوم اور ریاست کے مابین فرق غیر واضح ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قوم کی توہین کر رہا ہے۔ اگر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا ہی قوم مخالف عمل بن چکا ہے تو یہ کس طرح کی جمہوریت ہے؟ جمہوریت کا تو مطلب ہی یہی ہے کہ اقتدار میں موجود لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کی جائے تو آپ کی حب الوطنی کو چیلنج کر دیا جاتا ہے۔ لیکن کسی کی حکومت کے ساتھ وفاداری کبھی بھی قوم کے ساتھ وفاداری کے برابر نہیں ہو سکتی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان دونوں باتوں کو یکجا کر دیا ہے، جو بالکل درست نہیں ہے۔ یہ مایوس کن ہے لیکن ایسا ہو رہا ہے۔
ہندوستانی فلم انڈسٹری میں تنقیدی سوچ کی تنزلی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جاوید اختر نے کہا کہ ماضی میں فلمیں سینسر نہیں ہوتی تھیں، اس لیے کئی اہم موضوعات پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ تاہم اب یہ فلم انڈسٹری ویسی نہیں رہی۔ تنقیدی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نظم یا آرٹیکل تو لکھ سکتے ہیں لیکن ان حالات میں فلم سازی ایک انتہائی مہنگا کام ثابت ہو گا۔
’مسلمانوں کو بھی خود احتسابی کرنا ہو گی‘
وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر تبصرہ کرتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ غالباﹰ اب یہ معاملہ زیادہ حساس اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مودی کی حکومت سے پہلے بھی مسلمانوں پر ایک واضح دباؤ تھا۔ اس لیے اس صورتحال کے لیے کسی ایک سیاسی پارٹی یا شخص کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جاوید اختر کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں جبکہ کئی مسلم رہنما بھی اس صورتحال کو زیادہ ابتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
جاوید اختر نے کہا کہ اس سے پہلے کہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے، اپنے گریبان میں جھانکنا بھی ضروری ہے۔ ماضی میں بھی کئی تعصبات موجود تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان میں شدت آتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں سب کو مل کر احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
کیا نسلی بنیادوں پر کی جانے والی سیاست کی وجہ سے ہندوستانی سیکولرازم کی بقا کو خطرات درپیش ہیں؟ اس سوال کے جواب میں جاوید اختر نے کہا کہ انہیں تو ہندوستانی سیکولرازم کے نعرے پر ہی اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ ہندوستانی معاشرے میں لوگوں کو بقائے باہمی اور باہمی احترام کے ساتھ کیسے رہنا ہے بلکہ یہاں سوال سیاسی یکجہتی کا ہے۔
کچھ سیاسی جماعتیں بنیاد پرستی کو برداشت کر لیتی ہیں کہ یہ سیکولرازم کا حصہ ہی ہے لیکن یہ سیکولرازم کی عجیب تعریف ہے۔ دوسری طرف جو لوگ اس تعریف کو نہیں مانتے وہ معاشرے میں نسلی تعصب کو فروغ دیتے ہوئے اسے سیکولرازم کے جزو سے جوڑ دیتے ہیں۔ جاوید اختر کے بقول، سیاسی جماعتیں بنیاد پرستی ، نسلی تعصب اور ہر قسم کے تشدد کو برداشت کر رہی ہیں۔ وہ کبھی سیکولرازم کے لیے یک جا نہیں ہوئے۔ یہ صرف باتیں ہی ہیں۔