اس کتاب نے ’مجرموں‘ کے چہروں کو، کچھ پختہ شہادتیں اور ثبوت پیش کر کے مزید عیاں کر دیا ہے ۔سیکولر چہرے جنہوں نے ایودھیا تنازعے کا ’استعمال‘ یا ’استحصال‘ اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے لیے کیا، اور مسلم قیادت کے وہ چہرے جو جان دینے اور لینے کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کو بیچ راہ میں چھوڑ گئے، اور اس طرح چھوڑ گئے کہ ’ہندوتوادیوں‘ کو اپنے مذموم منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔
یوں تو سینئرصحافی معصوم مرادآبادی کی کتاب بابری مسجد :آنکھوں دیکھا حال لاک ڈاؤن سے پہلے حاصل ہو گئی تھی لیکن اس کا مطالعہ لاک ڈاؤن کے دوران اور وہ بھی اس وقت شروع کیا جب سپریم کورٹ کی جانب سے لکھنؤ کی خصوصی سی بی آئی عدالت کو دی گئی یہ ہدایت نظروں سے گزری کہ آئندہ 31اگست کو بابری مسجد کی شہادت میں مجرمانہ سازش کے مقدمے کی سماعت مکمل کرلی جائے۔
خیر عدالت میں تو ساری شہادتوں اور ثبوتوں کے بعد ہی کسی کے ’مجرم‘ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے،اور جب فیصلہ آئے گا تو ان ہی بنیادوں پر آئے گا، تب تک ہم سوائے انتظار کرنے کے کچھ نہیں کر سکتے ۔لیکن ایک عدالت عوام کی ہوتی ہے اور عوام کی عدالت تو بابری مسجد کے ’مجرموں‘ کو خوب جانتی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ’مجرموں‘ کے چہرے کبھی بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں، خوب عیاں تھے، عیاں ہیں اور عیاں رہیں گے بھلے فیصلہ کچھ آئے ۔
اس کتاب نے ’مجرموں‘ کے چہروں کو، کچھ پختہ شہادتیں اور ثبوت پیش کر کے مزید عیاں کر دیا ہے ۔اس کتاب کی کئی خوبیاں ہیں جن میں سے ایک طرح طرح کے ’رنگ‘رکھنے والے چہروں کو بے نقاب کرنا بھی ہے ۔ سیکولر چہرے جنہوں نے ایودھیا تنازعے کا ’استعمال‘ یا ’استحصال‘ اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے لیے کیا، اور مسلم قیادت کے وہ چہرے جو جان دینے اور لینے کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کو بیچ راہ میں چھوڑ گئے، اور اس طرح چھوڑ گئے کہ ’ہندوتوادیوں‘ کو اپنے مذموم منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔
کتاب کے پیش لفظ میں معصوم مرادآبادی بڑے کرب و الم سے یہ جملے تحریر کرتے ہیں
6دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کے واقعے سے مسلمانوں کو زبردست دھچکا لگا ۔ جن قائدین نے بابری مسجد کے تحفظ کی قسمیں کھائی تھیں، وہ سیکولر لیڈروں پر تکیہ کرکے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے ۔ مجھے یاد ہے کہ6 دسمبر 1992 کی رات میں دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کے اندر غم و غصے سے بھرے ہوئے فرزندان توحید کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، دہلی اور آس پاس کے شہروں کے لوگ یہاں آ کر جمع ہو گئے تھے ۔
چونکہ بابری مسجد بازیابی تحریک کے دوران دہلی میں شاہجہانی جامع مسجد ہی قائدین اور عام مسلمانوں کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر شدید صدمہ پہنچا کہ زخمی جذبات کو لے کر جامع مسجد پہنچنے والے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی مسلم قائد وہاں موجود نہیں تھا ۔بعض قائدین کے خلاف غصہ اتنا شدید تھا کہ اگر وہ سامنے ہوتے تو کوئی انہونی بھی ہو سکتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ ہی مسلم قیادت بھی منہدم ہو گئی۔
معصوم مرادآبادی نے اپنی اس کتاب کو پانچ ابواب میں منقسم کیا ہے، پہلے باب کا عنوان ہے ’سپریم کورٹ کا فیصلہ‘ اس باب میں، 18 ضمنی ابواب کے ذریعے بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کے اس ’فیصلہ‘ کے، جسے ’آستھا‘ یعنی ہندو عقیدے کی بنیاد پر دیاگیا فیصلہ کہا جاتا ہے، مضمرات پر بحث کی ہے، اور بابری مسجد کے مقدمے کی تفصیلات پر روشنی ڈالی نیز’سیکولر‘ اور’غیر سیکولر‘ چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔
واضح رہے کہ فیصلہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے سنایا تھا جو ریٹائرمنٹ کے بعد راجیہ سبھا کے رکن بن چکے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ یہ بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپنے کا انعام ہے، پر بڑا ہی چھوٹا انعام ۔
مصنف کے بقول ؛
اب جبکہ فیصلہ آ چکا ہے مسلمانوں کے پاس اس پر صبر و تحمل کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔واضح رہے کہ مسلمان قائدین شروع سے ہی کہہ رہے تھے کہ وہ بابری مسجد کے معاملے میں عدالت کے فیصلے کو ہی تسلیم کریں گے جبکہ دوسرا فریق رام مندر بنانے کے لیے آرڈیننس لانے یا پارلیامنٹ سے قانون سازی کا مطالبہ کر رہا تھا اور وہ اس معاملے میں عدالت کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے پر آمادہ تھا ۔
لیکن اس فیصلے کا ایک اہم پہلو بقول مصنف یہ ہے کہ عدالت نے شہادت کو مجرمانہ فعل قرار دیا ہے ۔اور ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی مانا ہے کہ ’’وہاں بابری مسجد استادہ تھی اور نماز کا سلسلہ منقطع ہو جانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہو جاتا ‘‘۔ پھر سوال یہ ہے کہ سب مان اور جان کر بھی بابری مسجد کی اراضی کیوں ایک مندر تعمیر کرنے کے لیے سونپ دی گئی؟ اس لیے کہ بقول مصنف ؛
عدالت کا کہنا ہے کہ ’ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم’گربھ گرہ‘ میں ہوا تھا اور ایک بار اگر آستھا قائم ہو جائے تو عدالت کو معاملے سے دور رہنا چاہیئے اور دستوری نظام کے تحت تشکیل شدہ عدالت کو عقیدت مندوں کی آستھا اور عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالت نے اس مقدمے کی سماعت سے قبل یہ واضح کیا تھا کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی کی آستھا یا عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق ملکیت کی بنیاد پر کرے گی‘‘۔
معصوم مرادآبادی نے آگے عدالت عظمیٰ کے ذریعے نظر ثانی کی 19 عرضیوں کو خارج کرنے کا بھی ذکر کیا ہے، ان میں ایک عرضی مسلم پرسنل لا بورڈ کی تھی ۔عرضیوں پر سماعت تک نہیں کی گئی حالانکہ ان عرضیوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے تضادات بھی گنوائے گئے تھے اور ان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ نظر ثانی کی بنیادیں آئین ہی نے فراہم کی ہیں۔
اس باب میں عدالتی فیصلے سے پہلے کے حالات پر بھی بات کی گئی ہے، وقف بورڈ کی خود سپردگی کا بھی ذکر ہے، ثالثی کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔اور شنکر آچاریہ کے فارمولے، ہاشم انصاری کی جدو جہد، ملائم سنگھ کی فائرنگ اور ’ہندو کارڈ‘ کی چھینا جھپٹی کا بھی ذکر ہے ۔مصنف کا ماننا ہے کہ اس سارے تنازعے کی اصل مجرم کانگریس ہے ۔ اقتباس ملاحظہ کریں ؛
سیکولرازم کی سب سے بڑی علمبردار کانگریس پارٹی نے ہی ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تمام رکاوٹیں دور کیں اور سنگھ پریوار کے ہاتھوں سے ہندو ایجنڈہ کو چھیننے کی ہر ممکن کوشش کی، یہ الگ بات ہے کہ کانگریس نے اس چھینا جھپٹی میں اپنے ہاتھ جلا لیے اور آج کانگریس کی جو درگت ہے وہ ایودھیا مسئلے پر اس کی دوغلی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔
معصوم مرادآبادی نے راجیوگاندھی کے ذریعے بابری مسجد کے تالے کھلوانے اور شیلا نیاس کا ہی ذکر نہیں کیا پرانی تاریخ بھی دوہرائی ہے کہ کیسے ہمیشہ کانگریس نے اس تنازع کا ’استعمال‘ اور’استحصال‘ کیا ۔نرسمہاراؤ کابھی ذکر ہے اور سونیاگاندھی کا بھی جنہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کاخیر مقدم کیا تھا، اور کانگریس کے ترجمان سرجے والا نے کہا تھا کہ ؛کانگریس ہمیشہ ہی رام مندر کی تعمیر کی تائید و حمایت کرتی رہی ہے اور آج سپریم کورٹ کے فیصلے نے رام مندر کی تعمیر کے دروازے کھول دیے ہیں۔
دوسرا باب ’ بابری مسجد کا انہدام‘ کے عنوان سے ہے اس میں بابری مسجد کی شہادت کے ’مجرموں‘کے چہرے اجاگر کیے گیے اورشہادت کی سازش سے پردہ اٹھایا گیا ہے ۔اس میں بابری مسجد کی شہادت کی تفصیلات ہیں اور اڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، نرسمہاراو ؤغیرہ اور وی ایچ پی، بی جے پی اورسنگھ پریوار کے قائدین چلتے پھرتے، زہریلے نعرے لگاتے اور کارسیوکوں کو بابری مسجد شہید کرنے کے لیے اکساتے نظر آتے ہیں ۔
یہ وہ قائدین ہیں جن میں سے کئیوں پر مجرمانہ سازش کا مقدمہ ہے، جس کی سماعت اگست کے آخر میں مکمل ہونی ہے ۔ مصنف نے ایک جگہ لکھا ہے :’’بابری مسجد انہدام کا مقدمہ کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے جس میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار سمیت سنگھ پریوار کے 32 لیڈران کے خلاف فرد جرم داخل ہو چکی ہے ۔
مسلمان بابری مسجد تو کھو چکے ہیں لیکن وہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی ضرور چاہتے ہیں جنہوں نے قانون، دستور اور عدلیہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کو دن کے اجالے میں شہید کر کے ہندوستان کو پوری دنیا میں شرمسار کیا تھا ‘۔ یہ سچ ہے کہ مسلمان انصاف چاہتے ہیں پر کیا انصاف ملے گا؟ عدالت پر اب سب کی نظریں گڑی ہیں۔
کتاب کا تیسرا باب ’آنکھوں دیکھا حال‘انتہائی پراثر ہے اور جذباتی بھی ۔ یہ باب چار ضمنی ابواب پر مشتمل ہے، پہلا باب ’بابری مسجد کا آنکھوں دیکھا حال‘کے عنوان سے ہے ۔ معصوم مرادآبادی؛1987 میں بھیس بدل کر ایودھیا میں بابری مسجد کے اندر تک پہنچے تھے، آج کی طرح اس وقت بھی وہاں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی تھی، یہ پابندی 1949 سے ہی ہے جب مسجد کے اندر جبراً مورتیاں رکھی گئی تھیں ۔
بابری مسجد میں داخل ہونے کی یہ رپورٹ پہلی بار نئی دہلی سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ اخبار ’نئی دنیا‘ کی 17 تا26 فروری 1987 کی اشاعت میں شائع ہوئی تھی، اس میں پوری تفصیل سے معصوم مرادآبادی نے منظر کھینچا ہے کہ مسجد میں کہاں کہاں مورتیاں رکھی گئی ہیں اور شردھالوؤں میں کیسا جوش و خروش ہے، انہوں نے ایودھیا کے دوسرے اسلامی تاریخی مقامات کا بھی تذکرہ کیا ہے اور بابری مسجد کے امام سے ملاقات کرکے ان کی گواہی بھی پیش کر دی ہے ۔
اس باب میں انہوں نے1989 میں ایودھیا میں ہونے شیلا نیاس کی آنکھوں دیکھی رپورٹ بھی شامل کی ہے ۔ یہ دونوں ہی رپورٹیں اعلیٰ صحافت کی مثال ہیں ۔ پوری تفصیل سے انہوں نے بتایا ہے کہ شیلا نیاس کے دوران بابری مسجد پر کیا گزری ۔اور کیسے آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ارکان نے فیض آباد میں احتجاجی گرفتاریاں دیں۔
کتاب کا چوتھا باب ’بابری مسجد بازیابی تحریک‘ انتہائی اہم ہے، یہ معصوم مرادآبادی کی بازیابی تحریک پر ’نئی دنیا‘ کے لیے کی گئی رپورٹوں پرمشتمل ہے ۔ یہ رپورٹیں مسلمانوں کے اتحاد کی خوشگوار تصاویر بھی دکھاتی ہیں اور مسلم قیادت کی بے حسی اور آپسی سر پھٹول کو بھی ۔ مسلم قیادت بابری مسجد کے نام پر متحد ہوئی، عوام کا ساتھ حاصل کیا پھر کئی غلط فیصلے کیے ، اور قیادت انا و لیڈری پر قبضہ کی لڑائی لڑ کر بکھر گئی ! یوپی ایکشن کمیٹی، رابطہ کمیٹی پھر کل ہند بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور کانفرنسیں و مارچ، بہت کچھ ہوا، ہندو قیادت سے مذاکرات بھی ہوئے، لیکن مسلم قیادت نے آپس میں لڑ کر بازی ہار دی ۔
اس باب میں سید شہاب الدین، سلطان صلاح الدین اویسی، غلام محمود بنات والا، ابراہیم سلیمان سیٹھ، ظفر یاب جیلانی، اعظم خان، مولانا سید احمد ہاشمی اور بابری مسجد بازیابی تحریک کے بہت سارے مسلم قائدین نظر آتے ہیں ۔ اب ان میں سے بہت سے نہیں رہے، بس ان کی یادیں رہ گئی ہیں ۔
اس باب میں ضمنی باب ’ کیا قیادت نے مسلمانوں کو گمراہ کیا ‘ شامل ہے، جس کے یہ جملے قیادت کے کردار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں:’’ قیادت اپنے منصب اور فرائض کو پورا کرنے سے یکسر بے نیاز رہی جبکہ اس بات کے لئیے فضا مکمل طور پر ہموار تھی کہ قیادت عوامی جوش و جذبہ کی تسکین کے ساتھ ساتھ کوئی ایسی دور رس حکمت عملی وضع کرتی جس سے مجموعی طور پر مسئلہ کو نقصان نہ پہنچتا ‘‘۔ نقصان پہنچا اور آج تک اس کے اثرات برقرار ہیں ۔
کتاب کا آخری پانچواں باب’ہندو مسلم لیڈروں سے انٹرویوز‘ 14 ایسے لیڈروں سے لیے گیے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو ایودھیا تنازعہ سے جڑے رہے ہیں، یہ انٹرویوز اعلیٰ صحافتی معیار کی مثال ہیں ۔ معصوم مرادآبادی نے داؤدیال کھنہ، سید شہاب الدین، سوامی لال داس، محمد اعظم خان، پرم ہنس رام چندر داس، جاوید حبیب، مہنت اویدھ ناتھ، مولانا سید احمد ہاشمی، سبرامنیم سوامی، ظفر یاب جیلانی، جےشنکر پانڈے، پرنس انجم قدر، پروفیسر ڈی آر گوئل، لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ یادو سے لیے گیے ان انٹرویوز میں ایودھیا تنازعہ کے کئی اہم اور عام لوگوں سے پوشیدہ پہلوؤں کو سامنے لانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
اس کتاب میں بہت کچھ ہے، سیکولرازم اور مسلمانوں کی ہمدردی کے نام پر آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں کا تذکرہ بھی، بابری مسجد کی سوداگری کے لیے خود کو طشتری میں سجا کر پیش کرنے والے مسلمانوں کی بات بھی، مسلمانوں کی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی طرف اشارہ بھی اور ان جبہ و دستار والوں کا ذکر بھی جو عدالتی فیصلے کے عواقب و مضمرات کو سرد کرنے کے لیے سرکاری درباروں میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے والوں کی بات بھی ۔
کتاب کے آخر میں اس تنازع سے متعلق ہندو مسلم قائدین کی اور بابری مسجد کی شہادت کی، اور اس بابری مسجد کی تصاویر ہیں جو پانچ سو سال تک سر اٹھائے کھڑی تھی ۔ معصوم مرادآبادی کی یہ کتاب بابری مسجد معاملے کی ایک اہم دستاویز ہے اور اس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔