یوم وفات پر خاص:عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھاکر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ ا س قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ’مساوات’ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لیے باری علیگ(مرحوم)اور ابو العلاء چشتی الصحافی(حاجی لق لق)بلائے گئے۔
ان دنوں میری آوارہ گردی معراج پر تھی۔ بے مقصد سارا دن گھومتا رہتا تھا۔ دماغ بے حد منتشر تھا۔ اس وقت تو میں نے محسوس نہیں کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دماغی انتشار میرے لیے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے بے تاب تھا۔
جیجے کے ہوٹل (شیراز)میں قریب قریب ہر روز گپ بازی کی محفل جمتی تھی۔ بالا، انور پینٹر، عاشق فوٹو گرافر، فقیر حسین سلیس اور ایک صاحب جن کا نام میں بھول گیا ہوں، باقاعدگی کے ساتھ اس محفل میں شریک ہوتے تھے۔ ہرقسم کے موضوع زیر بحث لائے جاتے تھے۔ بالا بڑا خوش گو اور بذلہ سنج نوجوان تھا، اگر وہ غیر حاضر ہوتا تو محفل سونی رہتی۔ شعربھی کہتا تھا۔ اس کا ایک شعر ابھی تک مجھے یاد ہے۔
اشک مژگاں پہ ہے اٹک سا گیا
نوک سو چبھ گئی ہے چھالے میں
جیجے سے لے کرانور پینٹر تک سب موسیقی اور شاعری سے شغف رکھتے تھے۔ وہ صاحب جن کا نام میں بھول گیا تھا کیپٹن وحید تھے۔ نیلی نیلی آنکھوں والے، لمبے تڑنگے، مضبوط جسم، آپ کا محبوب مشغلہ گوروں سے لڑنا تھا۔ چنانچہ کئی گورے ان کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ انگریزی بہت اچھی بولتے تھے اور طبلہ ماہر طبلچیوں کی طرح بجاتے تھے۔
ان دنوں جیجے کے ہوٹل میں ایک شاعر اختر شیرانی کا بہت چرچا تھا۔ قریب قریب ہر محفل میں اس کے اشعار پڑھے یا گائے جاتے تھے۔ جیجا( عزیز)عام طور پر ‘میں اپنے عشق میں سب کچھ تباہ کرلوں گا’( بہت ممکن ہے کہ یہ مصرع غلط ہو)گایا کرتا تھا۔ یہ نئے قسم کا جذبہ سب کے ذہن پرمسلط ہوگیا تھا۔ معشوق کو جو دھمکی دی گئی تھی، سب کو بہت پسند آئی تھی۔
جیجا تو اختر شیرانی کا دیوانہ تھا۔ کاؤنٹر کے پاس کھڑا گاہک سے بل وصول کررہا ہے اور گنگنا رہا ہے، ‘اے عشق کہیں لے چل…’ مسافروں کو کمرے دکھا رہا ہے اور زیر لب گارہا ہے، ‘کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات۔’
عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھاکر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔
اتنا زمانہ بیت چکا ہے مگر وہ کیفیت جو اس وقت مجھ پر طاری ہوتی تھی میں اب بھی محسوس کرسکتا ہوں… عجیب وغریب کیفیت تھی۔ جیجےکے ہوٹل کے بہت اندر اندھیری مگر ٹھنڈی کوٹھری میں بیٹھا میں یوں محسوس کرتا، کشتی میں بیٹھا ہوں… پریاں اسے کھے رہی ہیں، نازک پروں والی پریاں، رات کا وقت ہے، اس لیے مجھے ان پریوں کا صرف سایہ سا نظر آتاہے۔
سمندر پرسکون ہے، کشتی ہلکورے کھائے بغیر چل رہی ہے، کسی نامعلوم منزل کی طرف۔ پاپوں کی بستی بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہم دنیوی شور وغل سے ہزاروں میل آگے بڑھ گئے ہیں۔
جیجے کے ہوٹل میں کچھ عرصے کے بعد باری صاحب اور چشتی صاحب کا آنا جانا بھی شروع ہوگیا۔ دونوں کھانا کھاتے یا چائے پیتے اور چلے جاتے۔ مگر جب جیجے کو معلوم ہوا کہ وہ اخباری آدمی ہیں تو فوراً ان سے بے تکلف مراسم پیدا کرلیے۔ باری صاحب اختر شیرانی کے کلام سے واقف تھے، لیکن ذاتی طور پر شاعر کو نہ جانتے تھے۔
چشتی صاحب ایک مدت کے بعد بغداد اور مصر وغیرہ کی سیاحت کے بعد تازہ تازہ واپس آئے تھے۔ اس لیے وہ یہاں کے شعرا کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ پھر بھی جب انہوں نے جیجے سے اختر شیرانی کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوئے۔
اس دوران میں باری صاحب کے ساتھ میں گُھل مل گیا۔ ان کی سنجیدگی اور متانت بھری ظرافت مجھے بہت پسند آئی۔ میرے ذہنی انتشارکو بھانپ کر انہوں نے مجھے صحافت کی طرف مائل کیا۔ آہستہ آہستہ ادب سے روشناس کرایا،پہلے میں تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول پڑھا کرتا تھا۔ اب باری صاحب کی وجہ سے آسکر وائلڈ اور وکٹر ہیوگو میرے زیر مطالعہ رہنے لگے۔ ہیوگو مجھے بہت پسند آیا۔
بعد میں میں نے محسوس کیا کہ اس فرانسیسی مصنف کا خطیبانہ انداز باری صاحب کی تحریروں میں موجودہے۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں۔ اس کو بنانے میں سب سے پہلا ہاتھ باری صاحب کا ہے۔ اگر امرتسر میں ان سے ملاقات نہ ہوتی اور متواتر تین مہینے میں نے ان کی صحبت میں نہ گزارے ہوتے تویقیناً میں کسی اور ہی راستے پر گامزن ہوتا۔
چونکہ اب میں کسی حد تک ادب سے روشناس ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اختر شیرانی کے کلام کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔ اس کی شاعری ہلکی پھلکی اور رومانی تھی۔ میں اب غور کرتا ہوں تو اختر شیرانی مجھے کالج کے لڑکوں کا شاعر معلوم ہوتا ہے۔ ایک خاص عمر کے نوجوانوں کا شاعر، جن کے دل و دماغ پر ہروقت رومان کی مکڑی مہین مہین جالے تنتی رہتی ہے۔
مجھے اس وادی میں قدم رکھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک دوست سے معلوم ہوا، اختر شیرانی آئے ہوئے ہیں اور ‘شیراز ہوٹل’ میں ٹھہرے ہیں۔ اسی وقت وہاں پہنچا مگر معلوم ہوا کہ وہ جیجے کے ساتھ کہیں باہر گئے ہیں۔ دیر تک ہوٹل میں بیٹھا انتظار کرتا رہا مگر یہ لوگ واپس نہ آئے۔
شام کو پہنچا تو ہوٹل کے سندھی باورچی نے کہا کہ سب اوپرکوٹھے پر بیٹھے ہیں۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ میں اوپر گیا۔ چھڑکاؤ کرکے چارپائیاں بچھائی گئی تھیں۔ کچھ کرسیاں بھی تھیں۔ دیسی شراب کا دور چل رہا تھا۔ دس بارہ آدمی بیٹھے تھے جومیرے جانے پہچانے تھے۔ صرف ایک صورت اجنبی تھی اور وہ اختر شیرانی کی تھی۔ چپٹا چہرہ، سپاٹ پیشانی، موٹی ناک، موٹے ہونٹ، گہرا سانوالا رنگ، چھدرے بال، آنکھیں بڑی بڑی اور پرکشش، ان میں تھوڑی سی ادا سی بھی تھی۔ بڑی شستہ و رفتہ اردو میں حاضرین سے گفتگو کررہے تھے۔
میں پاس پہنچا تو بالے نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئےاور مجھ سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد اختر صاحب جیجے سے مخاطب ہوئے، ‘عزیز(میری طرف اشارہ کرکے)ان کے لیے گلاس منگواؤ۔’
گلاس آیا تو اختر صاحب نے مجھے ایک پیگ بنا کردیا جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ دو تین دور ہوئے تو کسی نے اختر صاحب سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کی۔ اس پر انہوں نے کہا، ‘نہیں بھائی میں کچھ نہیں سناؤں گا، میں سنوں گا۔’ پھر جیجے سے مخاطب ہوتے، ‘عزیز،سناؤ۔ ‘رسیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہوئے آنا۔’یہ کہا اور ایک ٹھنڈی سانس لی جیسے بیتے ہوئے لمحات یاد آگئے ہیں۔
جیجے کو مجالِ انکار نہیں تھی۔ گلا صاف کیا اور اختر صاحب کی ایک مشہور غزل گانا شروع کردی۔ سرتال سب ٹھیک۔ مگر آواز پھٹی پھٹی سی تھی پھر بھی رنگ جم گیا۔ اختر صاحب پیتے رہے اور جھومتے رہے۔
دوسرے روز دوپہر کے وقت میں شیراز ہوٹل میں بیٹھا اختر صاحب کا انتظار کررہا تھا (وہ کسی دعوت پر گئے تھے)کہ ایک برقعہ پوش خاتون ٹانگے میں آئیں۔ آپ نے ایک ملازم سے اختر صاحب کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا، کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں۔ آپ اپنا نام بتا دیجئے۔ برقعہ پوش خاتون نے اپنا نام نہ بتایا اور چلی گئی۔
اختر صاحب آئے تو میں نے اس خاتون کی آمد کا ذکرکیا۔ آپ نے بڑی شاعرانہ دلچسپی سے ساری بات سنی اور مسکرا دیے۔ یوں وہ خاتون ایک اسرار سا بن گئی۔ کھانا کھانے سے پہلے شام کو جب ٹھرے کا دور شروع ہوا تو جیجے نے اس برقعہ پوش خاتون کے متعلق اختر صاحب سے پوچھا، ‘حضرت وہ کون تھیں جو آج دوپہر کو تشریف لائی تھیں۔’ اختر صاحب مسکرائے اور جواب گول کر گئے۔ بالے نے ان سے کہا، ‘کہیں سلمیٰ صاحبہ تو نہیں تھیں؟’ اختر صاحب نے ہولے سے بالے کے گال پر طمانچہ مارا اور صرف اتنا کہا، ‘شر یر…’ بات اور بھی زیادہ پر اسرار ہوگئی جو آج تک صیغہ راز میں ہے۔
معلوم نہیں وہ برقعہ پوش خاتون کون تھیں۔ اس زمانے میں صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ اختر صاحب کے جانے کے بعد وہ ایک بار پھر شیراز ہوٹل میں آئی تھی اور اختر صاحب کے بارے میں اس نے پوچھا کہ کہاں ہیں۔
سب باری باری اختر صاحب کی دعوت کرچکے تھے… وہیں شیراز ہوٹل میں۔ دعوت دینے کا یہ طریقہ تھا کہ دن اوررات میں ٹھرے کی جتنی بوتلیں ختم ہوں ان کے دام ادا کردیے جائیں۔ میں نے یہ طریقہ بھونڈا سمجھا اور دو بوتلیں اسکاچ و سکی کی لے کر ایک شام وہاں پہنچا۔ ایک بوتل پر سے کاغذ ہٹایاتو اختر صاحب نے کہا، ‘بھائی، یہ تم نے کیا کیا۔ دیسی شراب ٹھیک رہتی۔ ایک کے بدلے دو آجاتیں۔’
میں نے عرض کی، ‘اختر صاحب! یہ ختم ہو جائے تو دوسری موجود ہے۔’
اختر صاحب مسکرائے، ‘وہ ختم ہوگئی تو۔’
میں نے کہا، ‘اور آجائے گی۔’
آپ نے میرے سر پرہاتھ پھیرا،‘زندہ رہو۔’
دونوں بوتلیں ختم ہوگئیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اختر صاحب اسکاچ سے مطمئن نہیں تھے۔ چنانچہ ملازم سے امرتسر ڈسٹلری کے کشید کردہ ٹھرے کی ایک بوتل منگوائی۔ اس نے اختر صاحب کے نشے میں جو خالی جگہیں تھیں پر کردیں۔ چونکہ یہ محفلیں خالص ادبی نہیں تھیں اور اس کے پیچھے صرف وہ عقیدت تھی جو ان لوگوں کو اختر صاحب سے تھی، اس لیے زیادہ تر ان ہی کا کلام پڑھایا گایا جاتا۔ شعر و سخن کے متعلق کوئی بصیرت افروز بات نہ ہوتی۔ لیکن اختر صاحب کی گفتگوؤں سے میں نے اندازہ لگالیاتھا کہ اردو شاعری پر ان کی نظر بہت وسیع ہے۔
چند روز کے بعد میں نے گھر پر اختر صاحب کی دعوت کی۔ مگر یہ صرف چائے کی تھی جس سے اختر صاحب جیسے رند بلانوش کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے قبول کی اور میری خاطر ایک پیالی چائے بھی پی۔ ان محفلوں میں باری صاحب بہت کم شریک ہوتے۔ البتہ چشتی صاحب جو پینے کے معاملے میں اختر صاحب سے چند پیگ آگے ہی تھے۔ اکثر ان محفلوں میں شریک ہوتے اور اپنا کلام بھی سناتے جو عام طور پر بے روح ہوتا تھا۔
اختر صاحب غالباً دس دن امرتسر میں رہے۔ اس دوران میں جیجے کے پیہم اصرار پر آپ نے شیراز ہوٹل پر ایک نظم کہی۔ جیجے نے اسے باری صاحب کی وساطت سے بڑے کاغذ پر خوشخط لکھوایا اور فریم میں جڑوا کر اپنے ہوٹل کی زینت بنایا۔ وہ بہت خوش تھا کیوں کہ نظم میں اس کا نام موجود تھا۔ اختر صاحب چلے گئے تو جیجےکے ہوٹل کی رونق غائب ہوگئی۔ باری صاحب نے اب میرے گھر آنا شروع کردیا تھا۔ میرا شراب پینا ان کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ خشک واعظ نہیں تھے۔ اشاروں ہی اشاروں میں کئی دفعہ مجھے اس علت سے باز رہنے کے لیے کہا مگر میں باز نہ آیا۔
باری صاحب تین مہینے امرتسر میں رہے۔اس دوران میں انہوں نے مجھ سے وکٹر ہیوگو کی ایک کتاب’سرگزشت اسیر’ کے نام سے ترجمہ کرائی۔ جب وہ چھپ کر پریس سے باہر آئی تو آپ لاہور میں تھے۔ میں نے طبع شدہ کتاب دیکھی تو اکساہٹ پیدا ہوئی کہ اور ترجمہ کروں۔ چنانچہ میں نے آسکر وائلڈ کے اشتراکی ڈرامے’ویرا’ کا ترجمہ شروع کردیا۔ جب ختم ہوا تو باری صاحب کو اصلاح کے لیے دیا مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ میری تحریروں میں بہت ہی کم کانٹ چھانٹ کرتے تھے۔ زبان کی کئی غلطیاں رہ جاتی تھیں جب کوئی ان کی طرف اشارہ کرتا تو مجھے بہت ہی کوفت ہوتی۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ باری صاحب کے بعد اختر صاحب کو ترجمے کا مسودہ دکھاؤں گا۔
عرب ہوٹل میں آنے جانے سے مظفر حسین شمیم صاحب سے اچھے خاصے تعلقات پیدا ہوگئے تھے۔ میں نے ان سے اصلاح کی بات کی تو وہ مجھے اسی وقت اختر شیرانی صاحب کے پاس لے گئے۔ چھوٹا سا غلیظ کمرہ تھا۔ آپ چارپائی پر تکیہ سینے کے ساتھ دبائے بیٹھے تھے۔ علیک سلیک ہوئی۔ اختر صاحب مجھے پہچان گئے، یارانِ شیراز ہوٹل کے بارے میں پوچھا، جو کچھ معلوم تھا، میں نے ان کو بتا دیا۔
شمیم صاحب اور اختر صاحب کی گفتگو بہت پر تصنع اور پر تکلف تھی۔ حالانکہ مجھ سے کسی شخص نے کہا تھا کہ وہ دونوں کسی زمانے میں یک جان دو قالب تھے۔ بہر حال شمیم صاحب نے میرے آنے کا مدعا بیان کیا۔ اختر صاحب نے کہا، ‘میں حاضر ہوں۔ آج رات ہی سارا مسودہ دیکھ لوں گا۔’
اختر صاحب نے سینے کے ساتھ تکیہ اس لیے دبایا ہوا تھا کہ ان کے جگر میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ٹیس سی اٹھتی تھی۔ اس زمانے میں ان کا جگر قریب قریب ماؤف ہو چکا تھا،میں نے ان سے رخصت لی اور شام کو حاضر ہونے کا کہہ کر شمیم صاحب کے ساتھ واپس عرب ہوٹل چلا آیا۔ انہوں نے مجھ سے اشارتاً کہا کہ اگر تم اختر سے اپنا کام جلدی کرانا چاہتے ہو تو ساتھ’وہ چیز’ لیتے جانا۔ میں جب شام کو اختر صاحب کے پاس پہنچا تو’وہ چیز’ میرے پاس موجود تھی جو میں نے بڑے سلیقے سے پیش کی۔ بوتل ڈرتے ڈرتے باہر نکالی اور ان سے کہا، ‘کیا یہاں اس کی اجازت ہے۔ معاف کیجیے گا یہ پوچھنا ہی بڑی بدتمیزی ہے۔’
اختر صاحب کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔ میرا خیال ہے وہ صبح کے پیاسے تھے۔ مسکرائے اور میرے سر پربڑی شفقت سے ہاتھ پھیرا’شراب پینا کوئی بدتمیزی نہیں۔’ یہ کہہ کر بوتل میرے ہاتھ سے لی اور تکیہ فرش پر رکھ کر اس پر بوتل کا نچلا ٹھونکنا شروع کیا تاکہ کارک باہر نکل آئے۔
ان دنوں پیتا تھا مگر یوں کہیے کہ زیادہ پی نہیں سکتا تھا۔ چار پیگ کافی تھے۔ مقدار اس سے اگر بڑھ جاتی تو طبیعت خراب ہو جاتی اور سارا لطف غارت ہو جاتا۔
ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور پیتے کافی دیر ہوگئی۔ اختر صاحب کا کھانا آیا اور جس طریقے سے آیا اس سے میں نے یہ جانا کہ ان کے گھر والوں کے تعلقات ان سے کشیدہ ہیں۔ بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔ ان کے والدِ مکرم حافظ محمود شیرانی صاحب(مرحوم و مغفور)ان کی شراب نوشی کے باعث بہت نالاں تھے۔ تھک ہار کر انہوں نے اختر صاحب کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
رات زیادہ گزر گئی تو میں نے اختر صاحب سے درخواست کی کہ وہ مسودہ دیکھنا شروع کردیں۔ آپ نے یہ درخواست قبول کی اور مسودے کی اصلاح شروع کردی۔ چند صفحات دیکھے تو آسکر وائلڈ کی رنگین زندگی کی باتیں شروع کردیں، جو غالباً انہوں نے کسی اور سے سنی تھیں۔ آسکر وائلڈ اور لارڈ الفرڈڈگلس کے معاشقے کا ذکر آپ نے بڑے مزے لے لے کر بیان کیا۔ وائلڈ کیسے قید ہوا یہ بھی بتایا۔
پھر ان کا ذہن ایک دم لارڈ بائرن کی طرف چلا گیا۔ اس شاعر کی ہر ادا انہیں پسند تھی۔ اس کے معاشقے جوکہ لاتعداد تھے اختر صاحب کی نگاہوں میں ایک جداگانہ شان رکھتے تھے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ لارڈ بائرن کے نام سے انہوں نے کئی غزلیں اور نظمیں بھی لکھی تھیں۔
لارڈ بائرن ایک سنگدل، بے رحم اور بے پروا انسان تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک بہت بڑا نواب تھا جس کے پاس دولت تھی۔ اختر صاحب قلاش تھے۔ بڑے رحم دل اور انسانیت دوست۔ بائرن کو بڑھیا سے بڑھیا شراب میسر تھی۔ اختر کو بہ مشکل ٹھرا ملتا تھا۔ بائرن کے ملک کی فضا اور تھی، اختر کے ملک کی فضا اور۔ وہ کسی صورت میں بھی لارڈ بائرن نہیں بن سکتے تھےلیکن پھر بھی انہوں نے اپنے دل کی تسکین کے لیے دو معشوق اختراع کر لیے تھے؛ سلمیٰ اور عذرا۔
سلمیٰ کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ سلمیٰ حقیقتاً کوئی سلمیٰ تھی۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو مگر جو سلمیٰ ہمیں اختر کے کلام میں نظر آتی ہے یکسر تخیلی ہے۔ اس کا وجود اس قدر شفاف ہے کہ صاف ستھرامعلوم ہوتا ہے۔ ایک اور بات بھی ہےاگر سلمیٰ کوئی گوشت پوست کی زندہ عورت ہوتی تو شاعر اس سے اتنی والہانہ محبت کبھی نہ کرتا۔ مگر چونکہ وہ اس کی اپنی تخلیق تھی، اس لیے وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔
لارڈ بائرن کی باتیں سنتے سنتے مجھے نیند آگئی اور وہیں سو گیا۔ صبح اٹھا تو دیکھا اختر صاحب فرش پر بیٹھے مسودہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ بوتل میں تھوڑی سی بچی ہوئی تھی۔ یہ آپ نے پی اور آخری صفحات دیکھ کر مسودہ میرے حوالے کیا اور کہا، ‘ترجمہ بہت اچھا ہے۔ کہیں کہیں زبان کی اغلاط تھیں۔ وہ میں نے درست کردی ہیں۔’ میں نے مناسب و موزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا اور امرتسرروانہ ہوگیا۔
اس کے بعد میں جب کبھی لاہور جاتا۔ اختر صاحب کے نیاز ضرور حاصل کرتا۔ ایک بار گیا تو دیکھا کہ آپ کے سر پر پٹیاں بندھی ہیں۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا، ‘مجھے تو قطعاً یاد نہیں لیکن لوگ کہتے ہیں کل رات میں نے تانگے میں سوار ہونے کی کوشش کی مگر گر پڑا اور یہ چوٹیں اس وجہ سے آئیں۔’ اختر صاحب کی اپنی ذات کے بارے میں یہ صاف گوئی مجھے بہت پسند آئی۔ بعض اوقات وہ بالکل بچے بن جاتے تھے۔ ان کی گفتگو اور حرکات بالکل بچوں کی سی ہوتیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں بچہ بن کر وہ بچکانہ قسم ہی کی مسرت محسوس کرتے تھے۔
کچھ عرصے کے بعد میں بمبئی چلا گیا۔ اختر صاحب سے اتنے مراسم نہیں تھے کہ خط و کتابت ہوتی۔ لیکن جب انہوں نے رسالہ’رومان’جاری کیاتو میں نے انہیں مبارکباد کا خط لکھا۔ اب میں افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا۔ ترجمے کا دور وہیں لاہور اور امرتسر میں ختم ہوگیا تھا۔ میں نے طبع زاد افسانے لکھنے شروع کردیےتھے، جو مقبول ہوئے تھے۔ ‘رومان’ میں احمد ندیم قاسمی کا ایک افسانہ مجھے بہت پسند آیا۔ بمبئی کے ہفتہ وار’مصور’ میں’رومان’ پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے اس کی تعریف کی۔ اختر صاحب کو علیحدہ خط لکھا تو اس میں بھی اس افسانے کو بہت سراہا۔ چند دنوں کے بعد احمد ندیم قاسمی کا محبت بھرا خط موصول ہوا۔ جو ایک طویل سلسلہ خط و کتابت کا پیش خیمہ تھا۔
کچھ عرصے کے بعد’رومان’ بند ہوگیا اور اختر میری نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہوگئے۔ کئی برس گزر گئے۔ ملک کی سیاست نے کئی رنگ بدلےحتیٰ کہ بٹوارہ آن پہنچا۔ اس سے پہلے جو ہلڑ مچا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اس دوران میں اخباروں میں خبر چھپی کہ اختر صاحب ٹونک سے پاکستان آرہے تھے کہ راستے میں بلوائیوں نے ان کو شہید کردیا، بہت افسوس ہوا۔
میں عصمت اور شاہد لطیف دیر تک ان کی باتیں کرتے اور افسوس کرتے رہے۔ کئی اخباروں میں ان کی موت پر مضامین شائع ہوئے۔ ان کی پرانی نظمیں چھپیں۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کی موت کی اس خبر کی تردید ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ وہ بخیرو عافیت لاہور پہنچ گئے۔ اس سے بمبئی کے ادبی حلقے کو بہت خوشی ہوئی۔
تقسیم کے پانچ مہینے بعد میں بمبئی چھوڑ کر لاہور چلا آیا کیوں کہ سب عزیز و اقارب یہیں جمع تھے۔ افراط و تفریط کا عالم تھا۔ اختر صاحب سے ملنے کا خیال تک دماغ میں نہ آیا۔ بڑی مدت کے بعد یومِ اقبال کے جلسے میں ان کو دیکھا مگر نہایت ہی ابتر حالت میں۔ رات کے جلسے کی صدارت اختر صاحب کو کرنا تھی۔
یونیورسٹی ہال میں حاضرین کی تعداد خاصی تھی۔ جلسے میں شرکت کے لیے بھارت سے علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی آئے ہوئے تھے۔ وقت ہو چکا تھا مگر صاحبِ صدر موجود نہیں تھے۔ میں نے ساحر لدھیانوی سے پوچھا تو اس نے مجھے بتایا کہ اختر شیرانی صاحب ہال کے باہر پی رہے ہیں۔ ان کی حالت بہت غیر ہے۔ اس لیے ہم کوشش کررہے ہیں کہ وہ صدارت نہ کریں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ مصر ہیں۔
میں باہر گیا تو دیکھا وہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہیں اور پی رہے ہیں۔ ظہیر کاشمیری کے ہاتھ میں بوتل ہے۔ آپ نے گلاس ختم کیا اور ظہیر سے کہا، ‘چلو اجلاس کا وقت ہوگیا ہے۔’ ظہیر نے ان کو روکا، ‘جی نہیں۔ ابھی کہاں ہوا ہے۔’ مگر اندر ہال سے نظم پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ آپ نے لڑکھڑاتے ہوئے الفاظ کے اپنے منہ میں کئی کئی ٹکڑے کرتے ہوئے کہا، ‘جلسہ شروع ہو چکا ہے۔ مجھے آواز آرہی ہے۔’یہ کہہ کر انہوں نے ظہیر کو دھکا دیا۔
اس موقع پر میں آگے بڑھا۔ اختر صاحب نے تھوڑی دیر کے لیے مجھے بالکل نہ پہچانا۔ نشے سے ان کی آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں۔ میں نے ان کو جھنجوڑا اور اپنا نام بتایا۔ اس پر انہوں نے ایک لمبی’آہ’ کی اور مجھے گلے لگا لیا اور سوالوں کی بوچھار شروع کردی۔ الفاظ چونکہ ان کے منہ میں تلے اوپر ہوکرٹوٹ ٹوٹ جاتے تھے، اس لیے میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ ظہیر نے میرے کان میں کہا کہ میں انہیں اندر ہال میں نہ جانے دوںمگر یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں نے اور تو کچھ نہ کیا، اختر صاحب سے یہ کہا، ‘اتنی دیر کے بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ کیا اس کی خوشی میں بوتل میں سے مجھے کچھ نہ ملے گا۔’
آپ نے ظہیر کاشمیری سے کچھ کہا، جس کا غالباً یہ مطلب تھا کہ سعادت کو ایک گلاس بنا کر دو۔ ظہیر گلاس میں آتشِ سیال انڈیلنے لگاکہ اختر صاحب تیزی سے لڑکھڑاتے ہوئے ہال کے اندر داخل ہوگئےاور ہمیں اس کی اس وقت خبر ہوئی جب ان کو روکا نہیں جاسکتا تھا پھر بھی میں دوڑ کر اندر گیا اور چبوترے پر چڑھنے سے پہلے ان کو روک لیا۔ مگر وہ میری گرفت سے نکل کر کرسی صدارت پر جا بیٹھے۔ جلسے کے منتظمین بہت پریشان ہوئے۔ کیا کریں کیا نہ کریں۔ سب اسی مخمصے میں گرفتار تھے۔ ان کی حالت بہت بری تھی۔
کچھ دیر تو وہ خاموش بیٹھے کرسی پر جھولتے رہے لیکن جب انہوں نے اٹھ کر تقریر کرنا چاہی تو معاملہ بڑا سنگین ہوگیا۔ مائیکر وفون کے سامنے آپ بار بار اپنی ڈھیلی پتلون ٹھیک کرتے اور ثابت قدم رہنے کی ناکام کوشش میں بار بار لڑکھڑاتے تھے۔ آپ کی لکنت زدہ زبان سے خدا معلوم کیا نکل رہا تھا۔
حاضرین میں سے کسی شخص نے بلند آواز میں کہا، ‘یہ شرابی ہے۔ اسے باہر نکالو۔’ بس طوفان برپا ہوگیا۔ ایک نے پنجوں پر کھڑے ہو کر بڑے غصے میں کہا، ‘پاکستان میں کیا یہی کچھ ہوگا…’ دوسرا چلایا، ‘اور جلسے میں خواتین بھی موجود ہیں۔’ اختر صاحب برابر بولتے رہے۔ ایک تو ویسے ہی ان کی کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ شور میں تو وہ شور کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ جب معاملہ بڑھ گیا تو دوست احباب اختر صاحب کو زبردستی ہال سے باہر لے گئے۔ فضا بہت خراب ہوگئی تھی لیکن شورش کاشمیری کی بروقت تقریر نے مدد کی اور ہال پرسکون ہوگیا۔
اس کے بعد اختر صاحب سے آخری ملاقات میو ہسپتال میں ہوئی۔ میں’پرویز پروڈکشنز لمیٹڈ’ کے لیےایک فلمی کہانی لکھنے میں مصروف تھا کہ احمد ندیم قاسمی آئے۔ آپ نے بتایا، ‘میں نے کسی سے سنا ہے کہ اختر صاحب دو تین روز سے خطرناک طور پر علیل ہیں اور میو ہسپتال میں پڑے ہیں۔ بڑی کسمپرسی کی حالت میں، کیا ہم ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں؟’ ہم سب نے آپس میں مشورہ کیا۔
مسعود پرویز نے ایک راہ نکالی جو یہ تھی کہ ان کی دو تین غزلیں یا نظمیں فلم کے لیے لے لی جائیں اور’پرویز پروڈکشنز’ کی طرف سے پانچ سو روپے بطور معاوضے کے ان کو دے دیےجائیں۔ بات معقول تھی۔ چنانچہ ہم اسی وقت موٹر میں بیٹھ کر میو ہسپتال پہنچے۔
مریضوں سے ملنے کے لیے ہسپتال میں خاص اوقات مقرر ہیں۔ اس لیے ہمیں وارڈ میں جانے کی اجازت نہ ملی۔ ڈیوٹی پر اس وقت جو ڈاکٹر تھے ان سے ملے۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ ہم اختر شیرانی سے ملنا چاہتے ہیں تو آپ نے بڑے افسوناک لہجے میں کہا، ‘ان سے ملاقات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔’
میں نے پوچھا، ‘کیوں؟’
ڈاکٹر صاحب نے اسی لہجے میں جواب دیا،‘وہ بے ہوش ہیں۔ جب سے یہاں آئے ہیں، ان پر غشی طاری ہے، یعنی الکوہلک کوما۔’
یہ سن کر ہمیں اختر صاحب کو دیکھنے کا اور زیادہ اشتیاق پیدا ہوا۔ ہم نے اس کا اظہار کردیا۔ ڈاکٹر صاحب اٹھے اور ہمیں وہاں لے گئے جہاں ہمارا رومانی شاعر سلمیٰ اور عذرا کا خالق بے ہوش پڑا تھا۔ بیڈ کے اردگرد کپڑا تنا تھا۔ ہم نے دیکھا اختر صاحب آنکھیں بند کیے پڑے ہیں، لمبے لمبے ناہموار سانس لے رہے ہیں۔ ہونٹ آواز کے ساتھ کھلتے اور بند ہوتے تھے۔ ہم تینوں ان کو اس حالت میں دیکھ کر پژمردہ ہوگئے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا، ‘کیا ہم ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں؟’ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا، ‘ہم امکان بھر کوشش کر چکے ہیں اور امکان بھر کوشش کررہے ہیں۔ مریض کی حالت بہت نازک ہے۔ گردے اور جگر بالکل کام نہیں کررہے۔ انتڑیاں بھی جواب دے چکی ہیں۔ ایک صرف دل اچھی حالت میں ہے۔ گھپ اندھیرے میں امید کی بس یہی ایک چھوٹی سی کرن ہے۔’
جب ہم نے خواہش ظاہر کی کہ اختر صاحب کے اس وقت میں کسی نہ کسی کام آنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا، ‘اچھا تو میں آپ کو ایک دوا کا نام بتاتا ہوں۔ آپ اسے حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ یہاں پاکستان میں تو بالکل نایاب ہے، ممکن ہے ہندوستان میں مل جائے۔’
ڈاکٹر صاحب سے دوا کا نام لکھوا کر میں فیض صاحب کے پاس پہنچا اور ان کو ساری بات بتائی۔ آپ نے اسی وقت امرتسر ٹیلی فون کرایا اور اپنے اخبار کے ایجنٹ سے کہا وہ دوا حاصل کرکے فوراً لاہور بھجوا دے، لیکن افسوس دوا نہ ملی۔ مسعود پرویز نے دلی فون کیا، وہاں سے ابھی جواب نہیں آیا تھا کہ اختر صاحب بے ہوشی کے عالم میں اپنی سلمیٰ اور عذرا کو پیارے ہوگئے۔
(مشمولہ ،گنجے فرشتے)