چیف اکانومک ایڈوائزر کے ذریعےہندوستانی معیشت میں اصلاحات کے پرامیداندازوں کی حمایت نہ کرتے ہوئے آر بی آئی گورنر شکتی کانت داس نے خبردار کیا ہے کہ معیشت میں بتدریج بہتری آئے گی۔
نئی دہلی: جس طرح ہندوستان-چین سرحد پریعنی ایل اوسی پرموجودہ صورتحال کو لےکرسرکار کے الگ الگ شعبوں کی جانب سے الگ الگ طرح کی باتیں بتائی جا رہی ہیں، ٹھیک اسی طرح سرکاری سسٹم کے اندرہندوستانی معیشت کو لے کر بھی طرح طرح کے اندازے کیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ بدھ کو معیشت کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ریزرو بینک گورنر شکتی کانت داس نے صاف طور پر اس جانب اشارہ کیا کہ جون اور جولائی میں ہلکی تیزی کے بعد معیشت میں گراوٹ آ رہی ہے۔نتیجتاً انہوں نے ہندوستان کے چیف اکانومک ایڈوائزرکے اس دعوے کی حمایت نہیں کی کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی(اپریل جون)میں جی ڈی پی میں تقریباً ایک چوتھائی کی گراوٹ آنے کے بعد معیشت میں وی شکل(V)میں اصلاحات کاامکان ہے۔
وی(V)شکل سے مراد یہ ہے کہ پہلے معیشت کے تمام حصوں میں تیزی سے گراوٹ آئےگی اور پھر کچھ وقت کے بعد اس میں اصلاحات ہونے لگے گی۔حالانکہ آر بی آئی گورنر ڈبلیو(W)شکل میں معیشت میں اصلاحات کی امید کرتے دکھائی دیے، جس کا مطلب ہے کہ کچھ دن بعد اس میں تھوڑی اصلاحات ہوگی لیکن پھر سے اس میں گراوٹ آئےگی اور آگے چل کر 2021-22 کے آخر تک معیشت میں مکمل اصلاحات آنے کاامکان ہوگا۔
اکثر کارپوریٹ چیف آر بی آئی گورنر کی ڈبلیو شکل والی معیشت میں اصلاحات کی تھیوری سے رضامند ہوتے معلوم ہوتے ہیں۔سنگاپور میں ایک مشہور ہیج فنڈ منیجر، جو ہندوستان کو وقف فنڈ چلاتے ہیں، سمیر اروڑہ نے ہندوستانی معیشت کے لیے کےشکل(K-shaped)کی اصلاحات کاتصور کیا ہے۔بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ کووڈ 19 کے بعد معیشت کے کچھ حصے(جیسےٹکنالوجی، فارما)اچھا مظاہرہ کر سکتے ہیں، جبکہ کئی دوسرے شعبے(ریئل اسٹیٹ، ٹورازم ہوٹل، ایئرلائنس)لمبے وقت تک پریشانیوں سے جوجھتے رہیں گے۔
کچھ دیگر لوگوں نے یو شکل(U-shaped)کےاصلاحات کا اندازہ لگایا ہے، جس کا مطلب ہے کہ معیشت میں گراوٹ اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد کچھ وقت تک اسی حالت میں بنی رہے گی اور آگے چل کر اس میں تیزی آنا شروع ہوگی۔یہاں یہ صاف ہے کہ ہندوستانی معیشت میں تبدیلی کا اندازہ حرف تہجی کے مختلف حرفوں کی شکل میں لگایا گیا ہے لیکن کوئی بھی حقیقت میں نہیں جانتا ہے کہ اگلے ایک یا دو سالوں میں اس کی اصل صورت کیا ہوگی۔
آر بی آئی گورنر نے اس بات کو لےکرخبردار کیا کہ معیشت میں بتدریج بہتری آئے گی کیونکہ معیشت کو پوری طرح سے کھولنے کی کوششوں کو بڑھتے انفیکشن کے ساتھ سامنا کرنا ہوگا۔اس بیچ کئی نامی پرائیویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اندازہ لگایا ہے کہ مالی سال2020-21 میں جی ڈی پی میں اوسطاً 10 فیصدی کی گراوٹ آئےگی۔ جی ڈی پی میں صرف ایک فیصدی کی گراوٹ کا مطلب ہے کہ قومی آمدنی میں تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے کی کمی آنا۔
اس طرح 10 فیصدی کی گراوٹ آنے کا مطلب ہے کہ 2020-21 میں آمدنی میں تقریباً 20 لاکھ کروڑ روپے کی کمی آئےگی۔ یہ بھی دھیان رکھیں کہ یہ اعدادوشمار کم از کم ہیں۔مشہور ماہر اقتصادیات پرنب سین نے جی ڈی پی میں تقریباً 14 فیصدی کی کمی آنے کا اندازہ لگایا ہے۔
اس لیےیہ طے ہے کہ آمدنی میں اتنی بھاری گراوٹ آنے اور سرکار کی جانب سے مناسب مالی امداد دینے میں ناکام رہنے کے بعد اگلے سال مانگ میں کمی آئےگی۔
ان سب کا روزگار پر خطرناک اثر پڑےگا۔ بےروزگاری کے اندازے کاروایتی طریقہ کار کووڈ 19 کے بعد پہلے جیسا نہیں رہے گا کیونکہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کام کر رہے لوگوں کو تنخواہ نہیں مل رہی ہے اور دیگرایک تہائی کو صرف 50 فیصدی تنخواہ مل رہی ہے۔
انہیں تکنیکی طور پرنوکری میں لگا ہوا دکھایا گیا ہے لیکن اصل میں وہ مستقل طور پر تنخواہ سے محروم ہونے والے ہیں۔مرکزی حکومت معیشت میں تیزی لانے کے لیے مانگ بڑھانے کے مد نظر ایک نئے اقتصادی پیکیج لانے کااشارہ دے رہی ہے۔چیف اکانومک ایڈوائزر نے کہا تھا کہ مرکز صحیح وقت پردخل دےگا۔ حالانکہ سرکار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب مریض پہلے سے ہی آئی سی یو میں ہے تو ضروری دوائیوں کی فراہمی میں تاخیرکرنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
کساد بازاری سے سبق
اگراس کوکساد بازاری(Great Depression)کے بعد سب سے خراب اقتصادی بحران کےطور پردیکھا جا رہا ہے، تو کچھ غلطیوں سے سبق لیا جا سکتا ہے، جس نے 1930 اور 1933 کے بیچ امریکہ میں بحران کو اور گہرا کر دیا تھا۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بحران کےآنے کے بعد سب سے بڑی غلطی تخفیفی اقتصادی (Contractionary Fiscal Policy)تھی، جس نے معیشت میں مانگ میں اضافہ نہیں ہونے اور اس کی وجہ سے انڈسٹریل مصنوعات میں30-35 فیصدی کی گراوٹ آئی۔
بےشک امریکہ نے سونے کےمعیارکے ذریعے طے کی گئی پالیسی پرسختی سے عمل کرنے کے لیے سود کی شرح کو زیادہ رکھا۔ یہ مسئلہ موجودہ صورتحال میں عالمی سطح پر موجود نہیں ہے، لیکویڈیٹی میں کافی کمی آئی ہے۔حالانکہ اقتصادی تخفیف اور بعد میں نوکریوں اور آمدنی کے نقصان کو دیکھتے ہوئے، سپلائی سائیڈ نارمل ہونے کے بعد مانگ میں گراوٹ کے دوسرے مرحلے کی شروعات ہوتی دکھ رہی ہے۔
امریکہ میں کساد بازاری کے دوران کی گئی ایک اورغلطی، جس نے مسئلہ کواور بڑھا دیا، بینکوں میں موجود کمزوری تھی۔ بحران کی وجہ سے کم سے کم 20 فیصدی بینکوں کی ملکیت ختم ہو گئی اور 1932 تک وہ بند ہو گئے۔
ہندوستانی اقتصادی نظام میں بھی اس کی کل ملکیت میں گراوٹ آنے کاامکان دکھائی دے رہاہے کیونکہ آر بی آئی نے اشارہ دیا ہے کہ کووڈ 19 کے بعد کل لون کا تقریباً15 فیصدی این پی اے رہےگا۔ جب تک قرض کی منسوخی اور مجوزہ 2 سالہ قرض کی تنظیم نو کی مدت ختم نہیں ہوتی اس وقت تک ہم اصل صورتحال کو نہیں جان پائیں گے۔
اس لیے کم سے کم دو جگہوں پر مانگ بڑھانے کے لیے سرکار کی جانب سےمناسب دخل نہ دینے اور بینکگ سسٹم میں چھپی کمزوری کی وجہ سےہندوستان اسی راہ پر ہے جس پر کساد بازاری کے پہلےمرحلے کے دوران امریکہ تھا۔اس لیےیہاں پر کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ہندوستان کے لیے ایک دوسرا بحران یہ بھی ہے کہ اس وقت وہ چین کے ساتھ کشیدگی کی حالت میں ہےاس لیے مستقبل میں کاروباراور سرمایہ لگانے کےامکانات میں کمی آ سکتی ہے۔
ایسا کرکے ہم مالی سال2020-21 کے لیے عالمی جی ڈی پی میں مثبت اضافہ کرنے والے اکلوتے ملک سے فائدہ نہ اٹھا پانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی کے معاشی اصلاحات میں نہ صرف دیری ہوگی بلکہ یہ مذکورہ خطروں کو طرف بڑھائےگا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: فکر و نظر