خبریں

پیٹر مکھرجی نے ای ڈی کو بتایا تھا، مکیش امبانی اور ان کی فیملی کے پاس تھی آئی این ایکس میڈیا کی ملکیت

خصوصی رپورٹ : پیٹر مکھرجی کا 2018 میں دیاگیایہ بیان دکھاتا ہے کہ ای ڈی کے الزامات  کےمطابق جو رشوت کارتی چدمبرم کو دی گئی تھی، وہ اصل میں مکیش امبانی کےایک فرم کے لیے تھی۔ حالانکہ یہ صاف نہیں ہے کہ مودی سرکار کی اس اہم  جانچ ایجنسی نے یہ جانکاری ملنے کے بعد کیا قدم اٹھایا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مکیش امبانی اور نیتا امبانی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مکیش امبانی اور نیتا امبانی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سال 2018 میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)کو دیے ایک چونکانے والے بیان میں آئی این ایکس معاملے کے کلیدی ملزم  اورسابق  ٹی وی ایگزیکٹو پیٹر مکھرجی نے دعویٰ کیا تھا کہ رشوت خوری اسکینڈل کے مرکز میں رہی آئی این ایکس میڈیا کی  ملکیت مکیش امبانی اور ان کی ‘فیملی اور دوستوں’کے پاس ہے۔

مکھرجی اس معاملے میں ملزم ہیں، جس میں سابق وزیر خزانہ اور کانگریس کے سینئررہنما پی چدمبرم  اور ان کے بیٹے کارتی پیٹر اور ان کی بیوی  اندرانی مکھرجی کے ذریعےدیے گئے بیانات کی بنیاد پر جیل بھیجے گئے تھے۔

پیٹر نے ای ڈی کو یہ بھی بتایا تھا کہ امبانی چدمبرم اور ان کے بیٹے کے سیدھے رابطےمیں تھے اور ان کی ریلائنس کے ساتھ ان کی روزانہ  سودے بازی ان کے ایگزیکٹو کے کے ذریعے ہوا کرتی تھیں۔

اس بیان کی اہمیت  اس لیے ہے کیونکہ یہ دکھاتا ہے کہ جیسا مکھرجی نے جانچ کرنے والوں  کو بتایا، اگر حقیقت میں امبانی اس فرم کے مالک ہیں، جس کے نمائندہ  مکھرجی اور ان کی بیوی  تھے تو ای ڈی کے مطابق  جو رشوت کارتی کو دی گئی تھی، وہ امبانی کی ایک فرم کے لیے تھی۔

اس سے بھی زیادہ  چونکانے والی بات یہ ہے کہ ای ڈی جس نے انہیں ملزمین  کے بیان کی بنیاد پر پی چدمبرم اور کارتی کو نہ صرف پوچھ تاچھ کے لیے بلایا، بلکہ گرفتار بھی کیا، وہ امبانی یا ان کے جن معاونین کے نام لیے گئے کو پوچھ تاچھ کے لیے بلاتی تک نہیں دکھی۔

دی  وائر کے ذریعےمکھرجی کے 2018 میں دیے گئے بیان کے بعد مکیش امبانی کے سلسلےمیں اٹھائے گئے کسی قدم کے بارے میں پوچھے جانے پر ای ڈی کے اہلکاروں  نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

دو سال پہلے مکھرجی کے ذریعےایجنسی کو دیے گئے بیان کی روشنی میں یہ صاف  نہیں ہے کہ کیا ای ڈی نے فرم کے مالکانہ حق کے بارے میں دیے مکھرجی کے بیان کو جانچنے یا پرکھنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا تھا یا نہیں،یا پھر امبانی سے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ اس فرم کے مالک ہیں یا مکھرجی کے ریلائنس اہلکاروں  کے ساتھ روزانہ رابطہ کے دعوے کی بات کہے جانے کی وجہ سے کیا وہ اس بات سے واقف ہیں کہ فرم کے فارین انویسٹمنٹ پرموشن بورڈ (ایف آئی پی بی) سے متعلق  مدعوں کو سلجھانے کے لیے مبینہ طور پر رشوت دی گئی تھی۔

ای ڈی اور ریلائنس کا جواب

دی  وائر کی جانب  سے ریلائنس انڈسٹریز کو ایک سوالنامہ  بھیجتے ہوئے جانکاری مانگی گئی ہے کہ کیا امبانی اور ان کے معاونین  میں سے کسی کو کبھی ایجنسی کے ذریعےسمن کیا گیا تھا۔اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اس معاملے میں ای ڈی کے جانچ افسر رہے سندیپ تھپلی یال سے بھی رابطہ کیا گیا تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں بات کرنے کے لیے مجاز نہیں ہیں اور انہیں اس کیس سے ہٹا دیا گیا ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہوں نے مکیش امبانی یا پیٹر اور اندرانی مکھرجی کے ذریعے بتائے گئے ان کے کسی معاون  سے رابطہ کیا، سندیپ نے کہا کہ اس کا جواب ان کے سینئر دے سکیں گے۔

تھپلی یال کے باس مہیش گپتا، جن کی نگرانی میں جانچ ہوئی تھی، نے بھی کہا کہ وہ اس بارے میں بات کرنے کے لیے مجاز نہیں ہیں اور اس بات کا جواب نہیں دیا کہ کیوں امبانی کو پوچھ تاچھ کے لیے سمن نہیں کیا گیا تھا۔

ڈائریکٹ کنکشن؟

اپنے بیان میں مکھرجی نے الزام  لگائے کہ جہاں ان کی اور ان کی بیوی  اندرانی کے پاس 10فیصدی سویٹ اکوٹی تھی، وہیں اندرانی کے پاس مکیش امبانی اور ان کی فیملی اور ساتھیوں کے نام پر 40فیصدی‘ہولڈنگ کیپیسٹی’ تھی۔

مکھرجی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ایک نجی اکوٹی فرم این ایس آر پی ای، جس کے پاس فرم کی ملکیت کا 20فیصدی تھا، امبانی کے دوستوں کے لیے ایک وسیلے کا کام کر رہی تھی۔ اس طرح امبانی آئی این ایکس میڈیا کے سب سے بڑے شیئرہولڈر اورسرمایہ کار تھے، جس کے پاس 60 کے قریب شیئر تھے۔

مکھرجی کا یہ بھی کہنا تھا کہ امبانی پی چدمبرم  اور ان کے بیٹے کارتی جیسےسینئررہنماؤں کے سیدھے رابطے میں تھے۔

ان کے مطابق، روزانہ ریلائنس کے ساتھ ہونے والے سودے ان کے ایگزیکٹو کے ذریعے ہوا کرتے تھے، جن کے نام مکھرجی نے ایل وی مرچنٹ، منوج مودی، آنند جین بتائے تھے۔ یہ سب مکیش امبانی کے بھروسے مند ہیں۔

مکھرجی نے یہ بیان 7 مارچ 2018 کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر وویک ماہیشوری کو تحریری طور پر دیے تھے۔ انسدادمنی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی سطح کے افسر کے سامنے تحریری طور پر دیا گیا بیان عدالت میں ایک ثبوت  کے طور پر قابل قبول  ہے۔

دوسرےملزم اندرانی نے بھی 5 اکتوبر 2019 کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر سندیپ تھپلی یال کوتحریری طور پردیے گئے ایک بیان میں مکیش امبانی کا نام لیا تھا، جہاں انہوں نے بتایا تھا کہ اپروول کے عمل  میں بے ضابطگیوں  کونشان زد کرتے ہوئے آئے ایف آئی پی بی کے نوٹس کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ پیٹر امبانی سے ملاقات کریں گے۔

ان دونوں کے ذریعے دیے گئے بیانات کوجانچ سے واقف لوگوں نے دی  وائر سے تفصیلی طور پر شیئر کیا ہے۔ حالانکہ یہ صاف نہیں ہے کہ ای ڈی کے ذریعے ان دونوں سے امبانی کے رول  کو لےکرمزید وضاحت طلب  کی گئی تھی  یا نہیں، یا پھر اس کے بعد کوئی اور بیان دیے گئے تھے۔

یہ بھی صاف  نہیں ہے کہ اس سال جون میں ای ڈی کی جانب سے اس معاملے میں دائر چارج شیٹ میں پیٹر اور اندرانی مکھرجی کے ذریعےدیے مکیش امبانی کے آئی این ایکس کے مالک ہونے سے متعلق  بیان شامل ہیں یا نہیں۔ عدالت کے ذریعےابھی اس چارج شیٹ کانوٹس نہیں لیا گیا ہے۔

جہاں ایک اورسرکاری‘ذرائع’کے توسط سےرپورٹرس کو یہ بات پتہ چلنے دی گئی کہ پیٹر اور اندرانی نے ایجنسی کو بتایا تھا کہ وہ چدمبرم سے تب ملے تھے جب وہ  وزیر خزانہ تھے (اور انہوں نے مبینہ طور پر ان سے اپنے بیٹے کے بزنس میں مدد کرنے کو کہا تھا)، لیکن مکھرجی کے ذریعے لگائے گئے یہ الزام  کہ جس کمپنی کی جانچ ہو رہی ہے، اس کے مالک مکیش امبانی ہیں اور اندرانی ریلائنس کے مالک کے لیے بطور ‘بے نامی’ کام کر رہی تھیں، کبھی میڈیا تک نہیں پہنچے۔

مکھرجی فیملی نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ دہلی کے ایک ہوٹل میں جب وہ کارتی سے ملے تھے، تب انہوں نے ان سے بطوررشوت دس لاکھ ڈالر کی مانگ کی تھی۔

یہ سچائی کہ دو ملزمین کے ذریعے مکیش امبانی کو رشوت اسکینڈل کے مرکز میں رہی کمپنی کا اصلی مالک بتایا گیا، پھر بھی ای ڈی کے ذریعے ان سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوئی اور دوسری طرف چدمبرم اور ان کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہوا، دکھاتا ہے کہ سیاسی  معاملوں میں جانچ ایجنسیاں شواہد کو لےکر کس طرح چنندہ رویہ اپناتی ہیں۔

سال 2013 کی ایس ایف آئی او رپورٹ

آئی این ایکس/نیوز ایکس گروپ  میں ریلائنس انڈیا لمٹیڈ اور اس کی معاون  کمپنیوں کے رول  کو لےکرحکومت ہند کی اپنی ایجنسیاں بھی سوال اٹھا چکی ہیں۔

نومبر 2013 میں دی  ہوٹ میں لکھے ایک مضمون  میں سینئر صحافی  پرنجوئے گہا ٹھاکرتا نے بتایا تھا کہ کیسے مکھرجی دو آئی این ایکس/نیوز ایکس میڈیاگروپ  میں اپنی حصے داری بیچنے والے تھے اور ‘کیسے ریلائنس انڈسٹریز نے ایک طے شدہ وقت کے اندر پیچیدہ طریقے سے ان کمپنیوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔’

یہ دعوے سیریس فراڈ انویسٹی گیشن آفس (ایس ایف آئی او)کی ایک ڈرافٹ رپورٹ میں کئے گئے تھے، جس میں اس نے ‘ریلائنس انڈیا انڈسٹریز اور امبانی سے وابستہ  کمپنیوں والے نسبتاًغیر معمولی  ٹرانزیکشن’ کی پڑتال کی تھی۔

سال 2015 میں ٹھاکرتا نے ایک مضمون  میں بتایا تھا، ‘ایس ایف آئی او کی 2013 کی ڈرافٹ رپورٹ میں سامنے آیا تھا کہ محکمہ انکم ٹیکس کی جانچ میں بنا کسی شک  کے یہ ثابت ہوا تھا کہ نیوز ایکس چینل کا آئی این ایکس نیوز پرائیویٹ لمٹیڈ کے 92فیصد اکوٹی کے سبسکرپشن کے ذریعے انڈی میڈیا کو پرائیویٹ  لمٹیڈ کو بیچا جانا ایک ‘دکھاوٹی ٹرانزیکشن تھا اور یہ ریلائنس انڈسٹریز کی‘ڈھیروں ٹرانزیکشن کے ساتھ’آئی این ایکس کو اس کی فرنٹ کمپنیوں کے ذریعے فنڈ کرنے کا منظم منصوبہ تھا۔’

ایس ایف آئی او کی رپورٹ کے 25ویں صفحے پر کہا گیا ہے، ‘اس طرح  ثبوت دکھاتے ہیں کہ ریلائنس کی پرموٹر گروپ کمپنیوں نے صرف آئی این ایکس میڈیا اور آئی ایم میڈیا پرائیویٹ لمٹیڈ میں اکوٹی حاصل کرنے کے ارادے سے کنورٹبل لون کی آڑ میں پیسے کی اگاہی کی تھی۔’

حالانکہ ایس ایف آئی او کے اس ڈرافٹ کے خلاصے نے یو پی اے 2 سرکار کو کسی طرح کی آگے کی جانچ کے لیے راغب نہیں کیا نہ ہی کسی طرح کی قانونی کارروائی کی شکل میں ہی سامنے آیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی سیاسی  معاملے میں امبانی کا نام ملزمین کے ذریعے لیا گیا اور انہیں ایجنسیوں نے پوچھ تاچھ کے لیے نہیں بلایا۔

ایک دیگر ہائی پروفائل اگستا ویسٹ لینڈ معاملے میں، جہاں سرکاری ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو بڑا حصہ ملا تھا کے کلیدی ملزم کرسچین مچیل نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے ایک سودے کے لیے ‘نوکرشاہ اورسیاسی  گائیڈ’ کی ضرورت تھی اور جس شخص کی انہوں نے ‘سفارش’ کی تھی، وہ مکیش امبانی تھے۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)