ایلگار پریشد معاملے میں این آئی اے نے ان پیروڈی گیتوں کے علاوہ سال 2011 اور 2012 کے کچھ شواہدکی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ تنظیم کے کارکن فرار نکسلی رہنما ملند تیلتمبڑے کے رابطہ میں تھے۔
نئی دہلی: ایلگار پریشد معاملے میں کبیر کلا منچ (کےکےایم)کے گلوکاروں اور کارکنوں کی گرفتار ی کے لیے ان کے ذریعے بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف پیروڈی گانے کوبنیاد بنایا گیا ہے۔کے کے ایم کے ساگر گورکھے(32)اور رمیش گیچور(38)کی جانب سےگرفتاری کو چیلنج دیتے ہوئے دائر کی گئی عرضی کے جواب میں بامبے ہائی کورٹ میں این آئی اے نے اپنے اس قدم کے پیچھے ان نغموں کا حوالہ دیا ہے جو نریندر مودی اور بی جے پی کی بعض پالیسیوں کو نشانہ بناتے ہوئے گائے گئے تھے۔
این آئی اے نے کورٹ میں کبیر کلا منچ کے نغموں کا ترجمہ پیش کیا، جو مودی پر طنز کے علاوہ بی جے پی کے مبینہ مرکزی ایجنڈہ ‘گئورکشا’پر مبنی تھے۔
گیت کے بول کچھ اس طرح تھے، ‘… میرا نام بھکتیندر مودی ہے۔ میری تقریری معمولی ہے۔ میری زندگی سادہ ہے۔ اور میرا کوٹ ایک لاکھ روپے کا ہے۔ دیکھو، وہ کون آیا؟ اپوزیشن پر دھیان مت دو…کیونکہ میری تقریرمعمولی ہے، میرا زندگی سادہ ہے لیکن اگر کوئی میری پیچھے آتا ہے تو اس کا خاتمہ یقینی ہے۔’
اپنے ایک دوسرے گیت میں کبیر کلا منچ نے مودی کے ریڈیو پروگرام‘من کی بات’پر طنز کرتے ہوئے ‘مودی بھکتوں’کو پیاسے رہنے پر گئوموتر(گائے کا پیشاب)پینے اور بھوک مٹانے کے لیے گائے کا گوبر کھانے کی بات کہی تھی۔ گیت کے آخر میں کہا گیا،‘سبزی خور بنو…سبزی کھانا سب سے اچھا ہوتا ہے۔ آپ کے اچھے دن آئیں گے، اچھے دن، اچھے دن۔’
ویسے تو یہ گانے مراٹھی میں ہیں لیکن این آئی اے نے کورٹ میں صرف اس کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا ہے کہ ایجنسی کی جانب سے کرایا گیا ترجمہ درست ہے یا نہیں۔کبیر کلا منچ اپنے انقلابی ،عوامی مفاداورحکمراں مخالف سرگرمیوں کے لیے معروف ہے۔قبل میں اس گروپ نے کانگریس سرکار کے بھی خلاف کئی گیت گائے تھے۔
ان گانوں کے علاوہ ایجنسی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ کے کے ایم کارکن فرار نکسلی رہنما ملند تیلتمبڑے کےرابطہ میں تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ثبوت پہلے سے ہی اس چارج شیٹ کا حصہ ہے جس میں گورکھے اور گیچور دونوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔
اے ٹی ایس کے ذریعے درج معاملے میں2013 سے 2017 کی شروعات تک دونوں کو چار سال کی جیل ہوئی تھی۔ جبکہ پہلے کے معاملے میں مقدمہ ابھی بھی زیرالتوا ہے، این آئی اے نے گڑھ چرولی کے جنگلوں میں مبینہ‘سازش اور ہتھیارکی ٹریننگ’کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں گلوکاروں کے خلاف پچھلے معاملے کے الزامات کا استعمال کیا ہے۔
اس دعوے کی حمایت کرنے کے لیے این آئی اے نے چارج شیٹ سے ایک گواہ کابیان منسلک کیا ہے،جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دونوں ملند تیلتمبڑے سے ملے تھے اور نکسل ازم کو شہری علاقوں میں پھیلانے کے ان کے منصوبوں پر ‘چرچہ’کی تھی۔
این آئی اے نے سات ستمبر کو کبیر کلا منچ کے ساگر گورکھے اور رمیش گیچور کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے ایک دن بعد اسی معاملے میں ایک اور کارکن کےکےایم کی ہی جیوتی جگتاپ (33)کو گرفتار کیا گیا۔معلوم ہو کہ کبیر کلا منچ پونے کی کلچرل تنظیم ہے،جس کا قیام مہاراشٹر کی بہوجن برادر ی سے وابستہ نوجوانوں نے کیا تھا۔
گجرات کے 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد کئی موسیقاروں اورشاعروں نے متحد ہوکر اس تنظیم کی شروعات کی تھی، جہاں یہ مل کر شاعری اور موسیقی کے ذریعےمزاحمت اور ریاست کے جبرکے خلاف نغمےگاکر اپنی مخالفت درج کراتے ہیں۔
یہ تنظیم ملک بھر میں ذات پات پر مبنی مظالم کو لےکر بھی کافی بولڈ رہی ہے۔ گرفتار کیے گئے یہ تینوں کارکن بھیما کورےگاؤں ‘شوریہ دن پریرنا ابھیان’کے بینر تحت 31 دسمبر 2017 کو پونے کے شنیوارواڑہ میں منعقد ایلگار پریشد پروگرام کے اہم آرگنائزر تھے۔
ستمبر میں این آئی اے کے ذریعے کئی دنوں کی پوچھ تاچھ کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ این آئی اے نے گورکھے اور گیچور کی حراست کی مانگ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں کارکنوں نے گڑھ چرولی جاکر ہتھیار چلانے کی تربیت لی تھی اور ان کے ماؤنوازوں سے گہرے رشتے ہیں۔
ان کی گرفتاری کے کچھ منٹوں بعد ہی کبیر کلا منچ نے ان دونوں کارکنوں گورکھے اور گیچور کا ایک ویڈیو جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح سے مبینہ طور پر این آئی اے کے اہلکاروں نے ان پر گرفتاری سے بچنے کے لیےمعافی نامہ لکھنے اور گرفتار دیگر لوگوں کو پھنسانے کا دباؤ بنایا تھا۔
گورکھے اور گیچور ان 16 لوگوں (کارکن، وکیل اور اکادمک)میں سے ایک ہیں جنہیں سال 2018 کے ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اس معاملے میں پہلے دور کی گرفتاریاں جون 2018 میں ہوئی تھیں، جب پونے پولیس نے مصنف اور ممبئی کے دلت حقوق کے کارکن سدھیر دھاولے، یواے پی اے کے خصوصی وکیل سریندر گاڈلنگ، گڑھ چرولی سے نقل مکانی کے معاملوں کے نوجوان کارکن مہیش راؤت، ناگپور یونیورسٹی کے انگریزی شعبہ کی صدر شوما سین اور دہلی کے شہری حقوق کے کارکن رونا ولسن شامل تھے۔
دوسرے دور کی گرفتاریاں اگست 2018 سے ہوئیں، جس میں وکیل ارون فریرا، سدھا بھاردواج، ورورا راؤ اور ورنان گانجالوس کو حراست میں لیا گیا تھا۔شروعات میں پونے پولیس اس معاملے کی جانچ کر رہی تھی لیکن مہاراشٹر سے بی جے پی کی سرکار جانے کے بعد وزارت داخلہ نے نومبر 2019 میں اس معاملے کو این آئی اے کو سونپا تھا۔
اس کے بعد این آئی اے نے 14 اپریل 2020 کو آنند تیلتمبڑے اور کارکن گوتم نولکھا کو گرفتار کیا اور پھر جولائی 2020 میں ہینی بابو کی گرفتاری ہوئی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)