احمد فراز کی 90 ویں جنم دن پر ایک مختصر تحریر: فراز کی غزل میں جذبوں کی شدت کا اظہار بھی کلیساؤں میں بجنے والی ان گھنٹیوں جیسا ہے جن پر لٹکنیں پڑتی ہیں تو ایک گونج اٹھتی ہے اور پھر گھنٹیوں کے پردے دیر تک ایک لرزاہٹ بھی فضا کا حصہ بنادیتے ہیں۔
فراز جذبوں کی شدت کے شاعر ہیں۔ تاہم ایسا ہے کہ اس شدت کا بیان اُن کے ہاں ایک تہذیب میں ڈھل کر ہوتا ہے ۔ بہ طور خاص جب وہ غزل کہتے ہیں تو غزل کی اپنی تہذیب کا جی جان سے احترام کرتے ہیں ایک انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا:
’’میرے تخلیقی انداز کو نیم کلاسیکل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ میری غزل کو کلاسیکی شاعری میں شمار کیا جاسکتا ہے جس میں میرے تجربات اور مضامین دوسروں سے قطعی مختلف ہیں۔‘‘
کیسی دلچسپ بات ہے کہ عین ایسے زمانے میں کہ جب کئی غزل کہنے والے اس صنف کی روایت بن چکی زبان سےمطمئن نہ تھے اور اسے بدل کر جدید تر کر لینے کے جتن کر تے ہوئے اس میں خوب خوب اکھاڑ پچھاڑ کررہے تھے فراز اپنی غزل کو کلاسیکی روایت کی عطا کہہ رہے تھے اور حددرجہ مطمئن بھی تھے۔
جسے فراز نے اپنے بیان میں اپنے تجربات اور مضامین کا اختلاف کہا ہے، فی الاصل وہ مضامین اور تجربات کا اختلاف نہیں ہے ۔ فراز کے ہاں بھی غزل کے وہی موضوعات ہیں جو اس صنف کو مرغوب رہے ہیں ظاہر ہے یوں دیکھیں تو ان کے وہ تجربات جن سے ان کی غزل کے موضوعات پھوٹے مختلف نہیں ہیں تاہم مجھے کہنے دیجئے کہ اپنی غیر معمولی شدت کے سبب ان کی نوعیت بدلی ہوئی نظر آتی ہے اور یہیں سے فراز کی غزل مختلف ہو جاتی ہے۔ فراز نے اسے اپنی غزل کا کرشمہ کہا ہے:
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
فراز نے اپنا لہجہ بدلا اور غزل کی اپنی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اس میں اپنا لحن ایزاد کیا تو لطف یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے اُن کا اپنا دہن اور غزل کا مزاج نہیں بگڑا ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس باب میں اپنی الگ شناخت بنا کر بھی غزل کی مستحکم اور قدیم روایت پرضرب لگانے والوں میں سے نہیں ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے ایک مقام پر فراز کے دو اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان دو اشعار میں انہیں پوری فارسی اور اردو غزل کی دِل آویز روایات گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ ان دو میں سے ایک شعر آپ کی نذر کرتا ہوں:
ذِکر اُس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فراز
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
فراز کی غزل میں جذبوں کی شدت کا اظہار بھی کلیساؤں میں بجنے والی ان گھنٹیوں جیسا ہے جن پر لٹکنیں پڑتی ہیں تو ایک گونج اٹھتی ہے اور پھرگھنٹیوں کے پردے دیر تک ایک لرزاہٹ بھی فضا کا حصہ بنادیتے ہیں۔ ان کی غزل کا شعر پڑھ لیں تو معنی کی سریع ترسیل کے بعد ایک تاثیر دیر تک لہو میں اُترتی رہتی ہے ۔
فراز کی نظم ان کی غزل سے مختلف ہے ۔ یہ اختلاف مصرع کی بنت یا زبان کے برتاو کے باب میں ہے نہ اس شدت کے اعتبار سے جس کا ذِکر میں فراز کی غزل کے باب میں کر آیا ہوں کہ شدت غزل اور نظم دونوں میں ہے اور بات کہنے کی تہذیب بھی دونوں جگہ۔
نظم میں بھی انہوں نے زبان میں اکھاڑ پچھاڑ نہیں کی، چونکانے کو متروک لفظوں کو کچوکے لگا لگا کر جگایا ہے نہ عامیانہ اور چلتر لفظوں کو بازار سے اٹھا کر نظم میں ڈال کر اسے نیا بنایا ہے۔ زبان صاف اور اس میں ایک لوچ، کہیں کہیں فارسی تراکیب اور روایت سے جڑا لسانی درو بست کا اہتمام بھی ہے مگر فراز کی کلاسیکی محاورے پر گرفت ایسی ہے کہ اس میں لطف پیدا کرتی ہے۔ کہیں کوئی الجھن ہے نہ معنی کی ترسیل اور بہائو میں رخنہ مگر یہیں سے فراز کی نظم کا اسلوب بنتا ہے۔
فراز نے یہ کیا ہے کہ جو دیکھا، محسوس کیا اسے جذبوں کی پوری سچائی کے ساتھ اور تپاک جاں سے اپنے اسلوب کی نظم میں ڈھال دِیا۔ جی ،عصری حسیت کو ’’تپاک جاں‘‘ سے اور فیض صاحب کے لفظوں میں’سہل، پر جوشاور غیر معمولی شدت کے ساتھ‘لکھا۔ اس میں بے خوفی، جرات،اخلاص اور انسانی جمہوری سروکاروں پر کامل یقین کو بھی شامل کر لیجئے ۔ اس باب کی ایک مثال فراز کی ایک ہنگامہ خیزنظم ’’محاصرہ‘‘ سے محضایک پارچہ مقتبس کیے دیتا ہوں کہ سند رہے:
مرا قلم نہیں اوزار اُس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اسدزدِ نیم شب کا رفیق
جوبےچراغ گھروں پر کمنداچھالتاہے
مرا قلم نہیں تسبیح اُس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دَم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنےچہرےپہ دہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم توعدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیےتو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
(مضمون نگار برصغیر کے معروف فکشن رائٹر ہیں)